(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني ابان بن صالح ، عن شهر بن حوشب الاشعري ، عن رابه رجل من قومه، كان خلف على امه بعد ابيه، كان شهد طاعون عمواس، قال: لما اشتعل الوجع قام ابو عبيدة بن الجراح في الناس خطيبا، فقال:" ايها الناس، إن هذا الوجع رحمة ربكم دعوة نبيكم، وموت الصالحين قبلكم، وإن ابا عبيدة يسال الله، ان يقسم له منه حظه؟ قال: فطعن، فمات رحمه الله، واستخلف على الناس معاذ بن جبل، فقام خطيبا بعده، فقال: ايها الناس، إن هذا الوجع رحمة ربكم، ودعوة نبيكم، وموت الصالحين قبلكم، وإن معاذا، يسال الله، ان يقسم لآل معاذ منه حظه؟ قال: فطعن ابنه عبد الرحمن بن معاذ، فمات، ثم قام، فدعا ربه لنفسه، فطعن في راحته فلقد رايته ينظر إليها، ثم يقبل ظهر كفه، ثم يقول: ما احب ان لي بما فيك شيئا من الدنيا، فلما مات استخلف على الناس عمرو بن العاص، فقام فينا خطيبا , فقال: ايها الناس، إن هذا الوجع إذا وقع، فإنما يشتعل اشتعال النار، فتجبلوا منه في الجبال، قال: فقال له ابو واثلة الهذلي: كذبت والله لقد صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم وانت شر من حماري هذا، قال والله ما ارد عليك، ما تقول، وايم الله لا نقيم عليه، ثم خرج وخرج الناس، فتفرقوا عنه ودفعه الله عنهم، قال: فبلغ ذلك عمر بن الخطاب من راي عمرو، فوالله ما كرهه، قال ابو عبد الرحمن عبد الله بن احمد بن حنبل: ابان بن صالح جد ابي عبد الرحمن مشكدانة.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ الْأَشْعَرِيِّ ، عَنْ رَابِّهِ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، كَانَ خَلَفَ عَلَى أُمِّهِ بَعْدَ أَبِيهِ، كَانَ شَهِدَ طَاعُونَ عَمَوَاسَ، قَالَ: لَمَّا اشْتَعَلَ الْوَجَعُ قَامَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِي النَّاسِ خَطِيبًا، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ رَحْمَةُ رَبِّكُمْ َدَعْوَةُ نَبِيِّكُمْ، وَمَوْتُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ، وَإِنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ يَسْأَلُ اللَّهَ، أَنْ يَقْسِمَ لَهُ مِنْهُ حَظَّهُ؟ قَالَ: فَطُعِنَ، فَمَاتَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَاسْتُخْلِفَ عَلَى النَّاسِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، فَقَامَ خَطِيبًا بَعْدَهُ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ رَحْمَةُ رَبِّكُمْ، وَدَعْوَةُ نَبِيِّكُمْ، وَمَوْتُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ، وَإِنَّ مُعَاذًا، يَسْأَلُ اللَّهَ، أَنْ يَقْسِمَ لِآلِ مُعَاذٍ مِنْهُ حَظَّهُ؟ قَالَ: فَطُعِنَ ابْنُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُعَاذٍ، فَمَاتَ، ثُمَّ قَامَ، فَدَعَا رَبَّهُ لِنَفْسِهِ، فَطُعِنَ فِي رَاحَتِهِ فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا، ثُمَّ يُقَبِّلُ ظَهْرَ كَفِّهِ، ثُمَّ يَقُولُ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِمَا فِيكِ شَيْئًا مِنَ الدُّنْيَا، فَلَمَّا مَاتَ اسْتُخْلِفَ عَلَى النَّاسِ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، فَقَامَ فِينَا خَطِيبًا , فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ إِذَا وَقَعَ، فَإِنَّمَا يَشْتَعِلُ اشْتِعَالَ النَّارِ، فَتَجَبَّلُوا مِنْهُ فِي الْجِبَالِ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ أَبُو وَاثِلَةَ الْهُذَلِيُّ: كَذَبْتَ وَاللَّهِ لَقَدْ صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتَ شَرٌّ مِنْ حِمَارِي هَذَا، قَالَ وَاللَّهِ مَا أَرُدُّ عَلَيْكَ، مَا تَقُولُ، وَايْمُ اللَّهِ لَا نُقِيمُ عَلَيْهِ، ثُمَّ خَرَجَ وَخَرَجَ النَّاسُ، فَتَفَرَّقُوا عَنْهُ وَدَفَعَهُ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْ رَأْيِ عَمْرٍو، فَوَاللَّهِ مَا كَرِهَهُ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد بْن حَنْبَلٍ: أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ جَدُّ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ مُشْكُدَانَةَ.
طاعون عمواس کے واقعے کے ایک عینی شاہد کا بیان ہے کہ جب سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی تکلیف شدت اختیار کر گئی تو وہ لوگوں کے سامنے خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے، اور فرمایا: لوگو! یہ تکلیف تمہارے رب کی رحمت، تمہارے نبی کی دعوت اور تم سے پہلے صالحین کی موت رہ چکی ہے، اور ابوعبیدہ اللہ سے دعا کرتا ہے کہ اسے اس میں سے اس کا حصہ عطاء کیا جائے، چنانچہ اسی طاعون کی وباء میں وہ شہید ہوگئے۔ رحمہ اللہ۔ ان کے بعد سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ان کی نیابت سنبھالی اور خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: لوگو! یہ تکلیف تمہارے رب کی رحمت، تمہارے نبی کی دعوت، اور تم سے پہلے صالحین کی موت رہ چکی ہے، اور معاذ اللہ سے دعا کرتا ہے کہ آل معاذ کو بھی اس میں سے حصہ عطاء کیا جائے، چنانچہ ان کے صاحبزادے عبدالرحمن اس مرض میں مبتلا ہو کر شہید ہو گئے، اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے دوبارہ کھڑے ہو کر اپنے لئے دعا کی، چنانچہ ان کی ہتھیلی میں بھی طاعون کی گلٹی نکل آئی۔ میں نے انہیں دیکھا ہے کہ وہ طاعون کی اس گلٹی کو دیکھتے تھے اور اپنی ہتھیلی کو چومتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ تیرے عوض مجھے پوری دنیا بھی مل جائے تو مجھے خوشی نہ ہوگی۔ بہرحال! وہ بھی شہید ہوگئے، ان کے بعد سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان کے نائب مقرر ہوئے، انہوں نے کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگو! یہ تکلیف جب آ جاتی ہے تو آگ کی طرح بھڑکنا شروع ہو جاتی ہے، اس لئے تم اس سے اپنی حفاظت کرتے ہوئے پہاڑوں میں چلے جاؤ۔ یہ سن کر ابوواثلہ ہذلی کہنے لگے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہونے کے باوجود صحیح بات نہیں کہہ رہے، واللہ! آپ میرے اس گدھے سے بھی زیادہ برے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کی بات کا جواب نہیں دوں گا، لیکن واللہ! ہم اس حالت پر نہیں رہیں گے، چنانچہ وہ اس علاقے سے نکل گئے اور لوگ بھی نکل کر منتشر ہو گئے، اس طرح اللہ نے ان سے اس بیماری کو ٹالا، سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کو یہ فیصلہ کرتے ہوئے دیکھنے والے کسی صاحب نے یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بتائی تو انہوں نے اس پر کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہ کیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، شهر بن حوشب ضعيف، وشيخه فيه مجهول .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن داود ، عن عامر ، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم جيش ذات السلاسل، فاستعمل ابا عبيدة على المهاجرين، واستعمل عمرو بن العاص على الاعراب، فقال لهما: تطاوعا، قال: وكانوا يؤمرون ان يغيروا على بكر، فانطلق عمرو، فاغار على قضاعة لان بكرا اخواله، فانطلق المغيرة بن شعبة إلى ابي عبيدة، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم استعملك علينا، وإن ابن فلان قد ارتبع امر القوم وليس لك معه امر، فقال ابو عبيدة : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" امرنا، ان نتطاوع، فانا اطيع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإن عصاه عمرو".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشَ ذَاتِ السُّلَاسِلِ، فَاسْتَعْمَلَ أَبَا عُبَيْدَةَ عَلَى الْمُهَاجِرِينَ، وَاسْتَعْمَلَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ عَلَى الْأَعْرَابِ، فَقَالَ لَهُمَا: تَطَاوَعَا، قَالَ: وَكَانُوا يُؤْمَرُونَ أَنْ يُغِيرُوا عَلَى بَكْرٍ، فَانْطَلَقَ عَمْرٌو، فَأَغَارَ عَلَى قُضَاعَةَ لِأَنَّ بَكْرًا أَخْوَالُهُ، فَانْطَلَقَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ إِلَى أَبِي عُبَيْدَةَ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَكَ عَلَيْنَا، وَإِنَّ ابْنَ فُلَانٍ قَدْ ارْتَبَعَ أَمْرَ الْقَوْمِ وَلَيْسَ لَكَ مَعَهُ أَمْرٌ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَمَرَنَا، أَنْ نَتَطَاوَعَ، فَأَنَا أُطِيعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ عَصَاهُ عَمْرٌو".
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جیش ذات السلاسل کو روانہ فرمایا تو سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو مہاجرین پر اور سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو دیہاتیوں پر امیر مقرر فرمایا، اور دونوں سے فرمایا کہ ”ایک دوسرے کی بات ماننا“، راوی کہتے ہیں کہ انہیں بنو بکر پر حملہ کرنے حکم دیا گیا تھا لیکن سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے بنو قضاعہ پر حملہ کر دیا کیونکہ بنو بکر سے ان کی رشتہ داری بھی تھی، یہ دیکھ کر سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ہم پر امیر مقرر کر کے بھیجا ہے جبکہ فلاں کا بیٹا لوگوں کے معاملات پر غالب آگیا ہے اور محسوس ایسا ہوتا ہے کہ آپ کا حکم نہیں چلتا؟ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دوسرے کی بات ماننے کا حکم دیا تھا، میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی پیروی کرتا رہوں گا، خواہ عمرو نہ کریں۔
سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخری کلام یہ تھا کہ ”حجاز میں جو یہودی آباد ہیں اور جزیرہ عرب میں جو اہل نجران آباد ہیں انہیں نکال دو۔“
حكم دارالسلام: صحيح، وقول وكيع فيه: «عن إسحاق بن سعد بن سمرة» وهم، والصواب: سعد بن سمرة .
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا هشام ، عن واصل ، عن الوليد بن عبد الرحمن ، عن عياض بن غطيف ، قال: دخلنا على ابي عبيدة نعوده، قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" من انفق نفقة فاضلة في سبيل الله، فبسبع مائة، ومن انفق على نفسه، او على اهله، او عاد مريضا، او ماز اذى عن طريق، فهي حسنة بعشر امثالها، والصوم جنة ما لم يخرقها، ومن ابتلاه الله ببلاء في جسده، فهو له حطة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا هِشَامٌ ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ غُطَيْفٍ ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى أَبِي عُبَيْدَةَ نَعُودُهُ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً فَاضِلَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَبِسَبْعِ مِائَةٍ، وَمَنْ أَنْفَقَ عَلَى نَفْسِهِ، أَوْ عَلَى أَهْلِهِ، أَوْ عَادَ مَرِيضًا، أَوْ مَازَ أَذًى عَنْ طَرِيقٍ، فَهِيَ حَسَنَةٌ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ مَا لَمْ يَخْرِقْهَا، وَمَنْ ابْتَلَاهُ اللَّهُ بَبَلَاءً فِي جَسَدِهِ، فَهُوَ لَهُ حِطَّةٌ".
عیاض بن غطیف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے، ہم ان کی عیادت کے لئے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص اللہ کی راہ میں اپنی زائد چیز خرچ کر دے اس کا ثواب سات سو گنا ہوگا، جو اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ پر خرچ کرے، کسی بیمار کی عیادت کرے یا کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دے تو ہر نیکی کا بدلہ دس نیکیاں ہوں گی، اور روزہ ڈھال ہے بشرطیکہ اسے انسان پھاڑ نہ دے، اور جس شخص کو اللہ جسمانی طور پر کسی آزمائش میں مبتلا کرے، وہ اس کے لئے بخشش کا سبب بن جاتی ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن إن كان واصل سمعه من الوليد بن عبدالرحمن.