سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”دو نمازیں ایسی ہیں جن کے بعد کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے، نماز فجر، جب تک کہ سورج طلوع نہ ہو جائے، اور نماز عصر، جب تک سورج غروب نہ ہو جائے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، معاذ التيمي لم يرو عنه غير سعد بن إبراهيم، ذكره ابن حبان فى الثقات وفي صحيحه
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب , وسعد , قالا: حدثنا ابي ، عن ابيه ، عن جده ، قال سعد عن إبراهيم بن عبد الرحمن , قال: سمعت سعد بن ابي وقاص , يقول: لقد رايت عن يمين رسول الله صلى الله عليه وسلم , وعن يساره يوم احد، رجلين عليهما ثياب بيض يقاتلان عنه كاشد القتال، ما رايتهما قبل ولا بعد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , وَسَعْدٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ سَعْدٌ عن إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ , يَقُولُ: لَقَدْ رَأَيْتُ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَعَنْ يَسَارِهِ يَوْمَ أُحُدٍ، رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا ثِيَابٌ بِيضٌ يُقَاتِلَانِ عَنْهُ كَأَشَدِّ الْقِتَالِ، مَا رَأَيْتُهُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں دو آدمیوں کو دیکھا جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے اور وہ بڑی سخت جنگ لڑ رہے تھے، میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي، عن صالح ، قال ابن شهاب : اخبرني عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد ، ان محمد بن سعد بن ابي وقاص اخبره , ان اباه سعد بن ابي وقاص ، قال: استاذن عمر على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده نساء من قريش يكلمنه ويستكثرنه، عالية اصواتهن، فلما استاذن قمن يبتدرن الحجاب، فاذن له رسول الله صلى الله عليه وسلم يعني فدخل، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يضحك، فقال عمر اضحك الله سنك يا رسول الله , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" عجبت من هؤلاء اللاتي كن عندي، فلما سمعن صوتك، ابتدرن الحجاب"، قال عمر: فانت يا رسول الله كنت احق ان يهبن، , ثم قال عمر اي عدوات انفسهن، اتهبنني ولا تهبن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قلن: نعم، انت اغلظ وافظ من رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" والذي نفسي بيده، ما لقيك الشيطان قط سالكا فجا، إلا سلك فجا غير فجك" , قال عبد الله: قال ابي: وقال يعقوب L8513: ما احصي ما سمعته، يقول: حدثنا صالح، عن ابن شهاب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَخْبَرَهُ , أَنَّ أَبَاهُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسَاءٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُكَلِّمْنَهُ وَيَسْتَكْثِرْنَهُ، عَالِيَةٌ أَصْوَاتُهُنَّ، فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ قُمْنَ يَبْتَدِرْنَ الْحِجَابَ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي فَدَخَلَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ، فَقَالَ عُمَرُ أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلَاءِ اللَّاتِي كُنَّ عِنْدِي، فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ، ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ"، قَالَ عُمَرُ: فَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كُنْتَ أَحَقَّ أَنْ يَهَبْنَ، , ثُمَّ قَالَ عُمَرُ أَيْ عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ، أَتَهَبْنَنِي وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْنَ: نَعَمْ، أَنْتَ أَغْلَظُ وَأَفَظُّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ قَطُّ سَالِكًا فَجًّا، إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ" , قال عبد الله: قال أَبي: وقَالَ يَعْقُوبُ L8513: مَا أُحْصِي مَا سَمِعْتُهُ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا صَالِحٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں (ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن) بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اضافہ کا مطالبہ کر رہی تھیں، اور ان کی آوازیں اونچی ہو رہی تھیں، لیکن جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو ان سب نے جلدی جلدی اپنے دوپٹے سنبھال لئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی، جب وہ اندر آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ آپ کو اسی طرح ہنستا مسکراتا ہوا رکھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تو تعجب ان عورتوں پر ہے جو پہلے میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، لیکن جیسے ہی انہوں نے تمہاری آواز سنی، جلدی سے پردہ کر لیا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ آپ سے ڈریں، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اپنی جان کی دشمن عورتو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! کیونکہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخت اور ترش ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! شیطان جب تمہیں کسی راستے سے گذرتا ہوا دیکھ لیتا ہے، تو اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے گا اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد حسن فى الشواهد
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن الجعد بن اوس ، قال: حدثتني عائشة بنت سعد ، قالت: قال سعد : اشتكيت شكوى لي بمكة، فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني، قال: قلت: يا رسول الله، إني قد تركت مالا، وليس لي إلا ابنة واحدة، افاوصي بثلثي مالي واترك لها الثلث؟ قال:" لا" , قال: افاوصي بالنصف، واترك لها النصف؟ قال:" لا" , قال: افاوصي بالثلث واترك لها الثلثين؟ قال:" الثلث، والثلث كثير" , ثلاث مرار، قال: فوضع يده على جبهته، فمسح وجهي وصدري وبطني , وقال:" اللهم اشف سعدا، واتم له هجرته" , فما زلت يخيل إلي باني اجد برد يده على كبدي حتى الساعة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ الْجَعْدِ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ بِنْتُ سَعْدٍ ، قَالَتْ: قَالَ سَعْدٌ : اشْتَكَيْتُ شَكْوًى لِي بِمَكَّةَ، فَدَخَلَ عَلَيّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ مَالًا، وَلَيْسَ لِي إِلَّا ابْنَةٌ وَاحِدَةٌ، أَفَأُوصِي بِثُلُثَيْ مَالِي وَأَتْرُكُ لَهَا الثُّلُثَ؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: أَفَأُوصِي بِالنِّصْفِ، وَأَتْرُكُ لَهَا النِّصْفَ؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: أَفَأُوصِي بِالثُّلُثِ وَأَتْرُكُ لَهَا الثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ:" الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ" , ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ، فَمَسَحَ وَجْهِي وَصَدْرِي وَبَطْنِي , وَقَالَ:" اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا، وَأَتِمَّ لَهُ هِجْرَتَهُ" , فَمَا زِلْتُ يُخَيَّلُ إِلَيَّ بِأَنِّي أَجِدُ بَرْدَ يَدِهِ عَلَى كَبِدِي حَتَّى السَّاعَةِ.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مکہ مکرمہ میں بیمار ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس بہت سا مال ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے دو تہائی مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے (تین مرتبہ فرمایا)“، پھر اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ کر میرے چہرے، سینے اور پیٹ پر پھیرا اور یہ دعا کی کہ ”اے اللہ! سعد کو شفاء دے، اور اس کی ہجرت کو تام فرما۔“ مجھے آج تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کی ٹھنڈک اپنے جگر میں محسوس ہوتی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن ابن عجلان , عن عبد الله بن ابي سلمة , ان سعدا سمع رجلا يقول: لبيك ذا المعارج , فقال: إنه لذو المعارج، ولكنا كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نقول ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ , أَنَّ سَعْدًا سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ: لَبَّيْكَ ذَا الْمَعَارِجِ , فَقَالَ: إِنَّهُ لَذُو الْمَعَارِجِ، وَلَكِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَقُولُ ذَلِكَ.
ایک مرتبہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا: «لَبَّيْكَ ذَا الْمَعَارِجِ» تو فرمایا کہ (جس کی پکار پر تم لبیک کہہ رہے ہو) وہ بلندیوں والا ہوگا، لیکن ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کبھی یہ لفظ نہیں کہا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن أبي سلمة لم يدرك سعداً
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کریم کو عمدہ آواز کے ساتھ نہ پڑھے۔“ وکیع نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت خوش آوازی سے نہ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، عبدالله بن أبي نهيك لايعرف
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو، اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کر سکے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، محمد بن عبدالرحمن ضعيف ثم هو لم يدرك سعداً وللجملة الأخيرة منه شاهد مرسل عن الحسن البصري وزياد بن جبير. ويؤيده حديث أبي هريره بلفظ : «اللهم ارزق آل محمد قوتاً.» أخرجه البخاري: 6460 ومسلم: 1055، واللفظ للبخاري .