(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا عوف ، حدثنا يزيد يعني الفارسي . قال ابي احمد بن حنبل: وحدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا عوف ، عن يزيد ، قال: قال لنا ابن عباس ، قلت لعثمان بن عفان: ما حملكم على ان عمدتم إلى الانفال وهي من المثاني، وإلى براءة وهي من المئين، فقرنتم بينهما، ولم تكتبوا، قال ابن جعفر: بينهما سطرا: بسم الله الرحمن الرحيم، ووضعتموها في السبع الطوال، ما حملكم على ذلك؟ قال عثمان : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان مما ياتي عليه الزمان ينزل عليه من السور ذوات العدد، وكان إذا انزل عليه الشيء يدعو بعض من يكتب عنده، يقول:" ضعوا هذا في السورة التي يذكر فيها كذا وكذا"، وينزل عليه الآيات، فيقول:" ضعوا هذه الآيات في السورة التي يذكر فيها كذا وكذا"، وينزل عليه الآية، فيقول:" ضعوا هذه الآية في السورة التي يذكر فيها كذا وكذا"، وكانت الانفال من اوائل ما انزل بالمدينة، وبراءة من آخر القرآن، فكانت قصتها شبيها بقصتها، فقبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يبين لنا انها منها، وظننت انها منها، فمن ثم قرنت بينهما، ولم اكتب بينهما سطرا: بسم الله الرحمن الرحيم، قال ابن جعفر: ووضعتها في السبع الطوال.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي الْفَارِسِيَّ . قَالَ أَبِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ يَزِيدَ ، قَالَ: قَالَ لَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ، قُلْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: مَا حَمَلَكُمْ عَلَى أَنْ عَمَدْتُمْ إِلَى الْأَنْفَالِ وَهِيَ مِنَ الْمَثَانِي، وَإِلَى بَرَاءَةٌ وَهِيَ مِنَ الْمِئِينَ، فَقَرَنْتُمْ بَيْنَهُمَا، وَلَمْ تَكْتُبُوا، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: بَيْنَهُمَا سَطْرًا: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَوَضَعْتُمُوهَا فِي السَّبْعِ الطِّوَالِ، مَا حَمَلَكُمْ عَلَى ذَلِكَ؟ قَالَ عُثْمَانُ : إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِمَّا يَأْتِي عَلَيْهِ الزَّمَانُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ مِنَ السُّوَرِ ذَوَاتِ الْعَدَدِ، وَكَانَ إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ الشَّيْءُ يَدْعُو بَعْضَ مَنْ يَكْتُبُ عِنْدَهُ، يَقُولُ:" ضَعُوا هَذَا فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا"، وَيُنْزَلُ عَلَيْهِ الْآيَاتُ، فَيَقُولُ:" ضَعُوا هَذِهِ الْآيَاتِ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا"، وَيُنْزَلُ عَلَيْهِ الْآيَةُ، فَيَقُولُ:" ضَعُوا هَذِهِ الْآيَةَ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا"، وَكَانَتْ الْأَنْفَالُ مِنْ أَوَائِلِ مَا أُنْزِلَ بِالْمَدِينَةِ، وَبَرَاءَةٌ مِنْ آخِرِ الْقُرْآنِ، فَكَانَتْ قِصَّتُهَا شَبِيهًا بِقِصَّتِهَا، فَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُبَيِّنْ لَنَا أَنَّهَا مِنْهَا، وَظَنَنْتُ أَنَّهَا مِنْهَا، فَمِنْ ثَمَّ قَرَنْتُ بَيْنَهُمَا، وَلَمْ أَكْتُبْ بَيْنَهُمَا سَطْرًا: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: وَوَضَعْتُهَا فِي السَّبْعِ الطِّوَالِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ لوگوں نے سورت انفال کو ”جو مثانی میں سے ہے“ سورت برائۃ کے ساتھ ”جو کہ مئین میں سے ہے“ ملانے پر کس چیز کی وجہ سے اپنے آپ کو مجبور پایا اور آپ نے ان کے درمیان ایک سطر کی ”بسم اللہ“ تک نہیں لکھی اور ان دونوں کو ”سبع طوال“ میں شمار کر لیا، آپ نے ایسا کیوں کیا؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی کا نزول ہو رہا تھا تو بعض اوقات کئی کئی سورتیں اکٹھی نازل ہو جاتی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب کوئی وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کاتب وحی کو بلا کر اسے لکھواتے اور فرماتے کہ اسے فلاں سورت میں فلاں جگہ رکھو، بعض اوقات کئی آیتیں نازل ہوتیں، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتا دیتے کہ ان آیات کو اس سورت میں رکھو اور بعض اوقات ایک ہی آیت نازل ہوتی لیکن اس کی جگہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتا دیا کرتے تھے۔ سورت انفال مدینہ منورہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی، جبکہ سورت برائۃ نزول کے اعتبار سے قرآن کریم کا آخری حصہ ہے اور دونوں کے واقعات و احکام ایک دوسرے سے حد درجہ مشابہت رکھتے تھے، ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہو گئے اور ہم پر یہ واضح نہ فرما سکے کہ یہ اس کا حصہ ہے یا نہیں؟ میرا گمان یہ ہوا کہ سورت برائۃ، سورت انفال ہی کا جزو ہے اس لئے میں نے ان دونوں کو ملا دیا اور ان دونوں کے درمیان، بسم اللہ والی سطر بھی نہیں لکھی اور اسے ”سبع طوال“ میں شمار کر لیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن هشام بن عروة ، اخبرني ابي ، ان حمران اخبره، قال: توضا عثمان على البلاط، ثم قال: لاحدثنكم حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، لولا آية في كتاب الله ما حدثتكموه، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" من توضا فاحسن الوضوء، ثم دخل فصلى، غفر له ما بينه وبين الصلاة الاخرى حتى يصليها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، أَنَّ حُمْرَانَ أَخْبَرَهُ، قَالَ: تَوَضَّأَ عُثْمَانُ عَلَى الْبَلَاطِ، ثُمَّ قَالَ: لَأُحَدِّثَنَّكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَوْلَا آيَةٌ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا حَدَّثْتُكُمُوهُ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ دَخَلَ فَصَلَّى، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الصَّلَاةِ الْأُخْرَى حَتَّى يُصَلِّيَهَا".
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے پتھر کی چوکی پر بیٹھ کر وضو فرمایا اس کے بعد فرمایا کہ میں تم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہوئی ایک حدیث بیان کرتا ہوں، اگر کتاب اللہ میں ایک آیت (جو کتمان علم کی مذمت پر مشتمل ہے) نہ ہوتی تو میں تم سے یہ حدیث کبھی بیان نہ کرتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، پھر مسجد میں داخل ہو کر نماز پڑھے، تو اگلی نماز پڑھنے تک اس کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔“
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ محرم نہ خود نکاح کرے اور نہ کسی کا نکاح کروائے، بلکہ پیغام نکاح بھی نہ بھیجے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن ابن حرملة ، قال: سمعت سعيدا يعني ابن المسيب ، قال: خرج عثمان حاجا، حتى إذا كان ببعض الطريق، قيل لعلي :" إنه قد نهى عن التمتع بالعمرة إلى الحج، فقال علي لاصحابه: إذا ارتحل فارتحلوا، فاهل علي واصحابه بعمرة، فلم يكلمه عثمان في ذلك، فقال له علي: الم اخبر انك نهيت عن التمتع بالعمرة؟ قال: فقال: بلى، قال: فلم تسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم تمتع؟ قال: بلى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ حَرْمَلَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدًا يَعْنِي ابْنَ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: خَرَجَ عُثْمَانُ حَاجًّا، حَتَّى إِذَا كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، قِيلَ لِعَلِيٍّ :" إِنَّهُ قَدْ نَهَى عَنِ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، فَقَالَ عَلِيٌّ لِأَصْحَابِهِ: إِذَا ارْتَحَلَ فَارْتَحِلُوا، فَأَهَلَّ عَلِيٌّ وَأَصْحَابُهُ بِعُمْرَةٍ، فَلَمْ يُكَلِّمْهُ عُثْمَانُ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ نَهَيْتَ عَنِ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ؟ قَالَ: فَقَالَ: بَلَى، قَالَ: فَلَمْ تَسْمَعْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمَتَّعَ؟ قَالَ: بَلَى".
سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ حج کے ارادے سے نکلے، جب راستے کا کچھ حصہ طے کر چکے تو کسی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جا کر کہا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حج تمتع سے منع کیا ہے، یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: جب وہ روانہ ہوں تو تم بھی کوچ کرو، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے عمرہ کا احرام باندھا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کی، بلکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خود ہی ان سے پوچھا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ حج تمتع سے روکتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حج تمتع کرنے کے بارے میں نہیں سنا؟ انہوں نے فرمایا: کیوں نہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح، خ: 1569، م: 1223، ابن حرملة مختلف فيه، روي له مسلم حديثاً واحداً فى القنوت متابعة .
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي النضر ، عن ابي انس : ان عثمان توضا بالمقاعد ثلاثا ثلاثا، وعنده رجال من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: اليس هكذا رايتم رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضا؟ قالوا: نعم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ أبي أَنَسٍ : أَنَّ عُثْمَانَ تَوَضَّأَ بِالْمَقَاعِدِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَعِنْدَهُ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَلَيْسَ هَكَذَا رَأَيْتُمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ؟ قَالُوا: نَعَمْ.
ابوانس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا، اس وقت ان کے پاس چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے نہیں دیکھا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! اسی طرح دیکھا ہے۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص حکم الٰہی کے مطابق اچھی طرح مکمل وضو کرے تو فرض نمازیں درمیانی اوقات کے گناہوں کا کفارہ بن جائیں گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن إسماعيل بن ابي خالد ، قال: قال قيس : فحدثني ابو سهلة : ان عثمان قال يوم الدار حين حصر:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد إلي عهدا، فانا صابر عليه"، قال قيس: فكانوا يرونه ذلك اليوم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، قَالَ: قَالَ قَيْسٌ : فَحَدَّثَنِي أَبُو سَهْلَةَ : أَنَّ عُثْمَانَ قَالَ يَوْمَ الدَّارِ حِينَ حُصِرَ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا، فَأَنَا صَابِرٌ عَلَيْهِ"، قَالَ قَيْسٌ: فَكَانُوا يَرَوْنَهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ.
ابوسہلہ کہتے ہیں کہ جس دن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ ہوا اور وہ ”یوم الدار“ کے نام سے مشہور ہوا، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا، میں اس پر ثابت قدم اور قائم ہوں۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص نماز عشاء اور نماز فجر جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ایسے ہے جیسے ساری رات قیام کرنا اور ایک روایت میں اس طرح ہے کہ جو شخص عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ایسے ہے جیسے نصف رات قیام کرنا اور جو شخص فجر کی نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ساری رات قیام کرنے کی طرح ہے۔