حدثني عبد الله، حدثني ابي، حدثنا وكيع، قال: وقال ابي قال حبيب بن ابي ثابت: يا ابا إسحاق، ما احب ان لي بحديثك هذا ملء مسجدك هذا ذهبا.حَدَّثَني عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَني أَبِي، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: وَقَالَ أَبِي قَالَ حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ، مَا أُحِبُّ أَنّ لِي بِحَدِيثِكَ هَذَا مِلْءَ مَسْجِدِكَ هَذَا ذَهَبًا.
حبیب بن ابی ثابت نے گزشتہ حدیث بیان کر کے فرمایا: اے ابواسحاق! مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ آپ کی اس حدیث کے عوض مجھے یہ مسجد سونے سے بھر کر دے دی جائے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ قربانی کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود رہوں، اور یہ کہ ان اونٹوں کی کھالیں اور جھولیں بھی تقسیم کر دوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن زكريا بن ابي زائدة ، اخبرنا مجالد ، عن عامر ، قال: حملت شراحة وكان زوجها غائبا، فانطلق بها مولاها إلى علي، فقال لها علي رضي الله عنه: لعل زوجك جاءك، او لعل احدا استكرهك على نفسك؟ قالت: لا، واقرت بالزنا، فجلدها علي رضي الله عنه يوم الخميس انا شاهده، ورجمها يوم الجمعة وانا شاهده، فامر بها فحفر لها إلى السرة، ثم قال:" إن الرجم سنة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقد كانت نزلت آية الرجم، فهلك من كان يقرؤها وآيا من القرآن باليمامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ ، أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ: حَمَلَتْ شُرَاحَةُ وَكَانَ زَوْجُهَا غَائِبًا، فَانْطَلَقَ بِهَا مَوْلَاهَا إِلَى عَلِيٍّ، فَقَالَ لَهَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَعَلَّ زَوْجَكِ جَاءَكِ، أَوْ لَعَلَّ أَحَدًا اسْتَكْرَهَكِ عَلَى نَفْسِكِ؟ قَالَتْ: لَا، وَأَقَرَّتْ بِالزِّنَا، فَجَلَدَهَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ الْخَمِيسِ أَنَا شَاهِدُهُ، وَرَجَمَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَأَنَا شَاهِدُهُ، فَأَمَرَ بِهَا فَحُفِرَ لَهَا إِلَى السُّرَّةِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ الرَّجْمَ سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ كَانَتْ نَزَلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ، فَهَلَكَ مَنْ كَانَ يَقْرَؤُهَا وَآيًا مِنَ الْقُرْآنِ بِالْيَمَامَةِ".
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ شراحہ ہمدانیہ بچے کی امید سے ہو گئی، حالانکہ اس کا شوہر موجود نہیں تھا، چنانچہ اس کا آقا اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر آیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہو سکتا ہے وہ تمہارا شوہر ہی ہو، شاید تجھے زبردستی اس کام پر مجبور کیا گیا ہو؟ لیکن وہ ہر بات کے جواب میں ”نہیں“ کہتی رہی، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جمعرات کے دن اسے کوڑے مارے، اور جمعہ کے دن اس پر حد رجم جاری فرمائی، اور میں دونوں موقعوں پر موجود تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ناف تک اس کے لئے گڑھا کھودنے کا حکم دیا، اور فرمایا کہ رجم سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور آیت رجم کا نزول بھی ہوا تھا، بعد میں یمامہ کے وہ لوگ جو آیت رجم اور قرآن کی دیگر آیات پڑھتے تھے، وہ ہلاک ہو گئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف مجالد، وفي الخبر الفاظ منكرة، وانظر : 716
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن علي ، عن زائدة ، عن سماك ، عن حنش ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا تقاضى إليك رجلان، فلا تقض للاول حتى تسمع ما يقول الآخر، فسوف ترى كيف تقضي"، قال: فما زلت بعد قاضيا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ حَنَشٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا تَقَاضَى إِلَيْكَ رَجُلَانِ، فَلَا تَقْضِ لِلْأَوَّلِ حَتَّى تَسْمَعَ مَا يَقُولُ الْآخَرُ، فَسَوُفَ تَرَى كَيْفَ تَقْضِي"، قَالَ: فَمَا زِلْتُ بَعْدُ قَاضِيًا.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ”جب تمہارے پاس دو فریق آئیں تو صرف کسی ایک کی بات سن کر فیصلہ نہ کرنا، بلکہ دونوں کی بات سننا، تم دیکھو گے کہ تم کس طرح فیصلہ کرتے ہو۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں مسلسل عہدہ قضاء پر فائز رہا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لضعف حنش
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”بہترین عورت سیدہ مریم بنت عمران علیہا السلام ہیں، اور بہترین عورت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو، اس کے رزق میں کشادگی ہو اور اسے بری موت سے محفوظ رکھا جائے، اسے چاہئے کہ اللہ سے ڈرے اور صلہ رحمی کرے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني ابو خيثمة ، حدثنا جرير ، عن منصور ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله عز وجل وتر يحب الوتر، فاوتروا يا اهل القرآن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو خَيْثَمَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوَتْرَ، فَأَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے اہل قرآن! وتر پڑھا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ طاق ہے، اور طاق عدد کو پسند کرتا ہے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا زهير ، حدثنا الحسن بن الحر ، حدثنا الحكم بن عتيبة ، عن رجل يدعى: حنشا ، عن علي رضي الله عنه، قال:" كسفت الشمس فصلى علي رضي الله عنه للناس، فقرا: يس او نحوها، ثم ركع نحوا من قدر السورة، ثم رفع راسه، فقال: سمع الله لمن حمده، ثم قام قدر السورة يدعو ويكبر، ثم ركع قدر قراءته ايضا، ثم قال: سمع الله لمن حمده، ثم قام ايضا قدر السورة، ثم ركع قدر ذلك ايضا، حتى صلى اربع ركعات، ثم قال: سمع الله لمن حمده، ثم سجد، ثم قام في الركعة الثانية ففعل كفعله في الركعة الاولى، ثم جلس يدعو ويرغب، حتى انكشفت الشمس، ثم حدثهم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كذلك فعل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحُرِّ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ ، عَنْ رَجُلٍ يُدْعَى: حَنَشًا ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَسَفَتْ الشَّمْسُ فَصَلَّى عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِلنَّاسِ، فَقَرَأَ: يس أَوْ نَحْوَهَا، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِنْ قَدْرِ السُّورَةِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ قَامَ قَدْرَ السُّورَةِ يَدْعُو وَيُكَبِّرُ، ثُمَّ رَكَعَ قَدْرَ قِرَاءَتِهِ أَيْضًا، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ قَامَ أَيْضًا قَدْرَ السُّورَةِ، ثُمَّ رَكَعَ قَدْرَ ذَلِكَ أَيْضًا، حَتَّى صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَامَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ فَفَعَلَ كَفِعْلِهِ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى، ثُمَّ جَلَسَ يَدْعُو وَيَرْغَبُ، حَتَّى انْكَشَفَتْ الشَّمْسُ، ثُمَّ حَدَّثَهُمْ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَلِكَ فَعَلَ".
حنش کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نماز کسوف پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے، انہوں نے سورہ یٓس یا اس جیسی کوئی سورت تلاوت فرمائی، پھر سورت کے بقدر رکوع کیا، پھر سر اٹھا کر «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہا اور سورت کی تلاوت کے بقدر کھڑے رہے اور دعا کرتے رہے، پھر تکبیر کہہ کر دوبارہ اتنا ہی طویل رکوع کیا جو سورت کی تلاوت کے بقدر تھا، پھر «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہہ کر مزید اتنی ہی دیر کھڑے رہے، اس طرح انہوں نے چار رکوع کئے، پھر سجدہ کیا اور دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوئے اور پہلی رکعت کی طرح یہ دوسری رکعت بھی پڑھی، پھر بیٹھ کر دعا کرتے رہے یہاں تک کہ سورج گرہن ختم ہو گیا، پھر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مرتبہ اسی طرح کیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف حنش ، وفي مسلم : (908) عن ابن عباس قال : صلى رسول الله حين كسفت الشمس ، ثمان ركعات م فى اربع سجدات، وعن على مثل ذلك