وعن انس ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ارحم امتي بامتي ابو بكر واشدهم في امر الله عمر واصدقهم حياء عثمان وافرضهم زيد بن ثابت واقرؤهم ابي بن كعب واعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل ولكل امة امين وامين هذه الامة ابو عبيدة بن الجراح» رواه احمد والترمذي وقال: هذا حديث حسن صحيح وروى معمر عن قتادة مرسلا وفيه: «واقضاهم علي» وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ وَأَشَدُّهُمْ فِي أَمْرِ اللَّهِ عُمَرُ وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَأَقْرَؤُهُمْ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينٌ وَأَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ» رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيح وروى مَعْمَرٍ عَنْ قَتَادَةَ مُرْسَلًا وَفِيهِ: «وَأَقْضَاهُمْ عَلِيٌّ»
انس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے میری امت پر سب سے زیادہ مہربان ابوبکر ہیں، اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں، ان میں سے سب سے زیادہ با حیا عثمان ہیں، علم میراث کے سب سے بڑے عالم زید بن ثابت ہیں، سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں، حلال و حرام کے متعلق سب سے زیادہ علم رکھنے والے معاذ بن جبل ہیں، اور ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔ “ احمد، ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ احمد و الترمذی۔ اور معمر سے قتادہ کی سند سے مرسل روایت ہے، اور اس میں ہے: قضا میں سب سے زیادہ عالم علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ “
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أحمد (3/ 281 ح 14035) و الترمذي (3791) ٭ حديث معمر عن قتادة: رواه عبد الرزاق (11/ 225 ح 20387) و سنده ضعيف لإرساله.»
وعن الزبير قال: كان على النبي صلى الله عليه وسلم يوم احد درعان فنهض إلى الصخرة فلم يستطع فقعد طلحة تحته حتى استوى على الصخرة فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «اوجب طلحة» . رواه الترمذي وَعَنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: كَانَ عَلَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ دِرْعَانِ فَنَهَضَ إِلَى الصَّخْرَةِ فَلَمْ يَسْتَطِعْ فَقَعَدَ طَلْحَةُ تَحْتَهُ حَتَّى اسْتَوَى عَلَى الصَّخْرَةِ فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَوْجَبَ طَلْحَةُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، غزوۂ احد کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں، آپ ایک چٹان کی طرف متوجہ ہوئے لیکن آپ اس پر چڑھ نہ سکے تو طلحہ رضی اللہ عنہ آپ کے نیچے بیٹھ گئے حتیٰ کہ آپ اس چٹان پر پہنچ گئے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”طلحہ نے (جنت کو) واجب کر لیا۔ “ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (3738 وقال: حسن صحيح غريب)»
وعن جابر قال: نظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى طلحة بن عبيد الله قال: «من احب ان ينظر إلى رجل يمشي على وجه الارض وقد قضى نحبه فلينظر إلى هذا» . وفي رواية: «من سره ان ينظر إلى شهيد يمشي على وجه الارض فلينظر إلى طلحة بن عبيد الله» رواه الترمذي وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: نَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ: «مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ يَمْشِي عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ وَقَدْ قَضَى نَحْبَهُ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا» . وَفِي رِوَايَةٍ: «مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى شَهِيدٍ يَمْشِي عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ الله» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا تو فرمایا: ”جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ وہ روئے زمین پر چلتے ہوئے ایسے شخص کو دیکھے جو اپنا عہد نبھا چکا تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے: ”جو شخص روئے زمین پر چلتے پھرتے شہید کو دیکھنا چاہے تو وہ طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے۔ “ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه الترمذي (3739 وقال: غريب) [و ابن ماجه (125)] ٭ الصلت بن دينار: متروک و للحديث شواھد ضعيفة و لم أجد له طريقًا صحيحًا ولا حسنًا.»
وعن علي رضي الله عنه قال: سمعت اذني من في رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «طلحة والزبير جاراي في الجنة» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ أُذُنِي مِنْ فِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ جَارَايَ فِي الْجَنَّةِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میرے کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”طلحہ اور زبیر جنت میں میرے ہمسائے ہیں۔ “ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3741) ٭ فيه عقبة بن علقمة و عبد الرحمٰن بن منصور العنزي: ضعيفان.»
وعن سعد بن ابي وقاص ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يومئذ يعني يوم احد: «اللهم اشدد رميته واجب دعوته» . رواه في «شرح السنة» وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَئِذٍ يَعْنِي يَوْمَ أُحُدٍ: «اللَّهُمَّ اشْدُدْ رَمْيَتَهُ وَأَجِبْ دعوتَه» . رَوَاهُ فِي «شرح السّنة»
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ احد کے موقع پر فرمایا: ”اے اللہ! اس (سعد رضی اللہ عنہ) کو تیر اندازی میں قوی بنا اور اس کی دعا قبول فرما۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (14/ 124. 125 ح 3922) [و الحاکم (3/ 499. 500) و ابن حبان (2215)] ٭ فيه إبراهيم بن يحيي الشجري و أبوه ضعيفان و إسماعيل بن أبي خالد مدلس و عنعن إن صح السند إليه.»
وعنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «اللهم استجب لسعد إذا دعاك» . رواه الترمذي وَعَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اللَّهُمَّ اسْتَجِبْ لِسَعْدٍ إِذَا دَعَاكَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! سعد جب تجھ سے دعا کرے تو تو اس کی دعا قبول فرما۔ “ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (3751) ٭ إسماعيل بن أبي خالد مدلس و عنعن و للحديث شواھد.»
وعن علي رضي الله عنه قال: ما جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم اباه وامه إلا لسعد قال له يوم احد: «ارم فداك ابي وامي» وقال له: «ارم ايها الغلام الحزور» . رواه الترمذي وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: مَا جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَاهُ وَأُمَّهُ إِلَّا لِسَعْدٍ قَالَ لَهُ يَوْمَ أُحُدٍ: «ارْمِ فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي» وَقَالَ لَهُ: «ارْمِ أَيهَا الْغُلَام الحزور» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف سعد رضی اللہ عنہ کے لیے اپنے والدین کو (فدا ہونے پر) اکٹھا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ احد کے موقع پر انہیں فرمایا: ”میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں تیر اندازی کرو۔ “ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”قوی نوجوان! تیر پھینکو۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3753، 2829 وقال: حسن صحيح) ٭ فيه سفيان بن عيينة وھو مدلس عنعن و کان يدلس عن الثقات و الضعفاء و المدلسين کما حققته في تخريج الفتن و الملاحم، و قوله: ’’ارم ايھا الغلام الحزور‘‘ سنده ضعيف و باقي الحديث صحيح بالشواھد.»
وعن جابر قال: اقبل سعد فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «هذا خالي فليرني امرؤ خاله» . رواه الترمذي وقال: كان سعد من بني زهرة وكانت ام النبي صلى الله عليه وسلم من بني زهرة فلذلك قال النبي صلى الله عليه وسلم: «هذا خالي» . وفي «المصابيح» : «فليكرمن» بدل «فليرني» وَعَن جَابر قَالَ: أَقْبَلَ سَعْدٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذَا خَالِي فَلْيُرِنِي امْرُؤٌ خَالَهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: كَانَ سَعْدٌ مِنْ بَنِي زهرَة وَكَانَتْ أُمُّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَنِي زُهْرَةَ فَلِذَلِكَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذَا خَالِي» . وَفِي «الْمَصَابِيحِ» : «فلْيُكرمَنَّ» بدل «فَلْيُرني»
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، سعد رضی اللہ عنہ آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ میرے ماموں ہیں، کوئی مجھے ان جیسا اپنا ماموں دکھائے۔ “ امام ترمذی ؒ نے فرمایا: سعد رضی اللہ عنہ بنو زہرہ قبیلے سے تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ محترمہ بھی بنو زہرہ قبیلے سے تھیں، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ میرے ماموں ہیں۔ “ اور مصابیح میں ((فَلْیُرِنِیْ)) کے بجائے: ((فَلْیُکْرِمَنَّ)) کے الفاظ ہیں۔ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (3752 وقال: حسن) ٭ مجالد ضعيف و للحديث شواھد ضعيفة عند الحاکم (3/ 491) وغيره.»
عن قيس بن حازم قال: سمعت سعد بن ابي وقاص يقول: إني لاول رجل من العرب رمى بسهم في سبيل الله ورايتنا نغزو مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وما لنا طعام إلا الحبلة وورق السمر وإن كان احدنا ليضع كما تضع الشاة ماله خلط ثم اصبحت بنو اسد تعزرني على الإسلام لقد خبت إذا وضل عملي وكانوا وشوا به إلى عمر وقالوا: لا يحسن يصلي. متفق عليه عَن قيس بن حَازِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يَقُولُ: إِنِّي لَأَوَّلُ رَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَرَأَيْتُنَا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا لَنَا طَعَامٌ إِلَّا الْحُبْلَةَ وَوَرَقَ السَّمُرِ وَإِنْ كَانَ أَحَدنَا ليضع كَمَا تضع الشَّاة مَاله خِلْطٌ ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ تُعَزِّرُنِي عَلَى الْإِسْلَامِ لَقَدْ خِبْتُ إِذًا وَضَلَّ عَمَلِي وَكَانُوا وَشَوْا بِهِ إِلَى عُمَرَ وَقَالُوا: لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي. مُتَّفق عَلَيْهِ
قیس بن ابی حازم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: میں عرب میں سب سے پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر اندازی کی، اور ہماری یہ حالت تھی کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے تھے اور ہمارا کھانا کیکر کا پھل اور کیکر کے پتے ہوتے تھے، اور ہم میں سے ہر شخص بکری کی طرح اجابت (مینگنیاں) کیا کرتا تھا وہ (خشک ہونے کی وجہ سے) ایک دوسری کے ساتھ جڑی ہوئی نہیں ہوتی تھیں، پھر یہ وقت آیا کہ بنو اسد میرے اسلام کے متعلق مجھ پر نکتہ چینی کرتے ہیں، اگر ایسے ہو تو میں نامراد ہوا اور میرے عمل برباد ہو گئے، اور وہ (بنو اسد) ان (سعد رضی اللہ عنہ) کے متعلق عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کیا کرتے تھے اور وہ یہ کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھتے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3728) و مسلم (12/ 2966)»