مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب الفضائل والشمائل
--. غزوہ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی
حدیث نمبر: 5889
Save to word اعراب
وعن ابي إسحق قال قال رجل للبراء يا ابا عمارة فررتم يوم حنين قال لا والله ما ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم ولكن خرج شبان اصحابه ليس عليهم كثير سلاح فلقوا قوما رماة لا يكاد يسقط لهم سهم فرشقوهم رشقا ما يكادون يخطئون فاقبلوا هناك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ورسول الله صلى الله عليه وسلم على بغلته البيضاء وابو سفيان بن الحارث يقوده فنزل واستنصر وقال انا النبي لا كذب انا ابن عبد المطلب ثم صفهم. رواه مسلم. وللبخاري معناه وَعَن أبي إِسْحَق قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِلْبَرَاءِ يَا أَبَا عُمَارَةَ فَرَرْتُمْ يَوْمَ حُنَيْنٍ قَالَ لَا وَاللَّهِ مَا وَلِيُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنْ خَرَجَ شُبَّانُ أَصْحَابِهِ لَيْسَ عَلَيْهِمْ كَثِيرُ سِلَاحٍ فَلَقَوْا قَوْمًا رُمَاةً لَا يَكَادُ يَسْقُطُ لَهُمْ سَهْمٌ فَرَشَقُوهُمْ رَشْقًا مَا يَكَادُونَ يُخْطِئُونَ فَأَقْبَلُوا هُنَاكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ يَقُودُهُ فَنَزَلَ وَاسْتَنْصَرَ وَقَالَ أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبَ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ثُمَّ صفهم. رَوَاهُ مُسلم. وللبخاري مَعْنَاهُ
ابو اسحاق بیان کرتے ہیں، کسی آدمی نے براء رضی اللہ عنہ سے کہا: ابو عمارہ! غزوۂ حنین کے موقع پر تم لوگ بھاگ گئے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نہیں پھرے تھے، لیکن آپ کے صحابہ میں سے کچھ نوجوان، جن کے پاس زیادہ اسلحہ نہیں تھا، ان کا سامنا ایسے ماہر تیر اندازوں سے ہوا، جن کا کوئی تیر خطا نہیں جاتا تھا، انہوں نے ان پر تیر برسائے، وہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف آئے۔ اس وقت رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے، اور ابوسفیان بن حارث آپ کے آگے تھے، آپ خچر سے نیچے اترے اور اللہ سے مدد طلب کی، اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس وقت فرما رہے تھے: میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ پھر آپ نے ان کی صف بندی فرمائی۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (78/ 1776) والبخاري (2930)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. زیادہ بہادر وہی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جنگ کرے
حدیث نمبر: 5890
Save to word اعراب
وفي رواية لهما قال البراء كنا والله إذا احمر الباس نتقي به وإن الشجاع منا للذي يحاذيه يعني النبي صلى الله عليه وسلم وَفِي رِوَايَةٍ لَهُمَا قَالَ الْبَرَاءُ كُنَّا وَاللَّهِ إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ نَتَّقِي بِهِ وَإِنَّ الشُّجَاعَ مِنَّا لَلَّذِي يُحَاذِيهِ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم
اور صحیح بخاری میں اسی کے ہم معنی ہے۔ اور صحیحین کی روایت میں ہے، براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اللہ کی قسم! جب لڑائی شدت اختیار کر جاتی تو ہم آپ کے ذریعے بچاؤ کرتے تھے اور ہم میں سے سب سے زیادہ شجاع وہ تھا جو (میدانِ جنگ میں) نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے برابر رہتا۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (لم أجده) و مسلم (1776/79)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. کنکریوں کا اثر
حدیث نمبر: 5891
Save to word اعراب
وعن سلمة بن الاكوع قال غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حنينا فولى صحابة رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما غشوا رسول الله صلى الله عليه وسلم نزل عن البغلة ثم قبض قبضة من تراب من الارض ثم استقبل به وجوههم فقال شاهت الوجوه فما خلق الله منهم إنسانا إلا ملا عينيه ترابا بتلك القبضة فولوا مدبرين فهزمهم الله عز وجل وقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم غنائمهم بين المسلمين رواه مسلم وَعَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ قَالَ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا فَوَلَّى صَحَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا غَشُوا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ عَنِ الْبَغْلَةِ ثُمَّ قَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ مِنَ الْأَرْضِ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ بِهِ وُجُوهَهُمْ فَقَالَ شَاهَتِ الْوُجُوهُ فَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْهُمْ إِنْسَانًا إِلَّا مَلَأَ عَيْنَيْهِ تُرَابًا بِتِلْكَ الْقَبْضَةِ فَوَلَّوْا مُدْبِرِينَ فَهَزَمَهُمْ الله عز وَجل وَقَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غنائمهم بَين الْمُسلمين رَوَاهُ مُسلم
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم غزوۂ حنین میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چند صحابہ رضی اللہ عنہ پیٹھ پھیر گئے، جب وہ (کافر) رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر حملہ آور ہوئے تو آپ خچر سے نیچے اترے اور زمین سے مٹی کی مٹھی بھری، پھر اسے ان کے چہروں کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا: (ان کے) چہرے جھلس جائیں۔ اس مٹھی سے ان تمام انسانوں (کافروں) کی آنکھیں مٹی سے بھر گئیں اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے، اللہ نے انہیں شکست سے دوچار کر دیا اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے حاصل ہونے والا مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم فرمایا۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (81/ 1777)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. حیرت انگیز پیشگوئی
حدیث نمبر: 5892
Save to word اعراب
وعن ابي هريرة قال شهدنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حنينا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لرجل ممن معه يدعي الإسلام هذا من اهل النار فلما حضر القتال قاتل الرجل من اشد القتال وكثرت به الجراح فجاء رجل فقال يا رسول الله ارايت الذي تحدثت انه من اهل النار قد قاتل في سبيل الله من اشد القتال فكثرت به الجراح فقال اما إنه من اهل النار فكاد بعض الناس يرتاب فبينما هو على ذلك إذ وجد الرجل الم الجراح فاهوى بيده إلى كنانته فانتزع سهما فانتحر بها فاشتد رجال من المسلمين إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا يا رسول الله صدق الله حديثك قد انتحر فلان وقتل نفسه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم الله اكبر اشهد اني عبد الله ورسوله يا بلال قم فاذن لا يدخل الجنة إلا مؤمن وإن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر. رواه البخاري وَعَن أبي هريرةَ قَالَ شَهِدْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ مِمَّنْ مَعَهُ يَدَّعِي الْإِسْلَامَ هَذَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَلَمَّا حَضَرَ الْقِتَالُ قَاتَلَ الرَّجُلُ مِنْ أَشَدِّ الْقِتَالِ وَكَثُرَتْ بِهِ الْجِرَاحُ فَجَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ الله أَرأيتَ الَّذِي تحدثت أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ قَدْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مِنْ أَشَدِّ الْقِتَالِ فَكَثُرَتْ بِهِ الْجِرَاحُ فَقَالَ أَمَّا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَكَادَ بَعْضُ النَّاسِ يَرْتَابُ فَبَيْنَمَا هُوَ عَلَى ذَلِكَ إِذْ وَجَدَ الرَّجُلُ أَلَمَ الْجِرَاحِ فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى كِنَانَتِهِ فَانْتَزَعَ سَهْمًا فَانْتَحَرَ بِهَا فَاشْتَدَّ رِجَالٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَدَّقَ اللَّهُ حَدِيثَكَ قَدِ انْتَحَرَ فُلَانٌ وَقَتَلَ نَفْسِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ أَنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ يَا بِلَالُ قُمْ فَأَذِّنْ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَإِنَّ اللَّهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدينَ بِالرجلِ الْفَاجِر. رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، غزوۂ حنین میں ہم رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ شریک تھے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک ایسے شخص کے بارے میں، جو آپ کے ساتھ تھا اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا تھا، فرمایا: یہ جہنمیوں میں سے ہے۔ جب لڑائی شروع ہوئی تو وہ شخص بہت جرأت کے ساتھ لڑا اور بہت زیادہ زخمی ہو گیا، ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیں کہ آپ نے جس شخص کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ جہنمیوں میں سے ہے اس نے تو اللہ کی راہ میں بہت جرأت کے ساتھ لڑائی لڑی ہے اور اس نے بہت زیادہ زخم کھائے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سن لو! وہ جہنمیوں میں سے ہے۔ قریب تھا کہ بعض لوگ شک و شبہ کا شکار ہو جاتے، وہ آدمی ابھی اسی کشمکش میں تھا کہ اس آدمی نے زخموں کی تکلیف محسوس کی اور اپنے ترکش کی طرف ہاتھ بڑھا کر ایک تیر نکالا اور اسے اپنے سینے میں پیوست کر لیا، مسلمان یہ منظر دیکھ کر دوڑتے ہوئے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا اللہ کے رسول! اللہ نے آپ کی بات سچ کر دکھائی، فلاں شخص نے اپنے سینے میں تیر پیوست کر کے خودکشی کر لی ہے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، بلال! کھڑے ہو کر اعلان کر دو کہ جنت میں صرف مومن ہی جائیں گے، بے شک اللہ اپنے دین کی مدد فاجر شخص سے بھی لے لیتا ہے۔ رواہ البخاری۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (3062) [و مسلم (111/178)]»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا
حدیث نمبر: 5893
Save to word اعراب
وعن عائشة قالت سحر رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إنه ليخيل إليه انه فعل الشيء وما فعله حتى إذا كان ذات يوم وهو عندي دعا الله ودعاه ثم قال اشعرت يا عائشة ان الله قد افتاني فيما استفتيته جاءني رجلان فجلس احدهما عند راسي والآخر عند رجلي ثم قال احدهما لصاحبه ما وجع الرجل قال مطبوب قال ومن طبه قال لبيد بن الاعصم اليهودي قال في ماذا قال في مشط ومشاطة وجف طلعة ذكر قال فاين هو قال في بئر ذروان فذهب النبي صلى الله عليه وسلم في اناس من اصحابه إلى البئر فقال هذه البئر التي اريتها وكان ماءها نقاعة الحناء ولكان نخلها رءوس الشياطين فاستخرجه متفق عليه وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سُحِرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ فَعَلَ الشَّيْءَ وَمَا فَعَلَهُ حَتَّى إِذا كَانَ ذَات يَوْم وَهُوَ عِنْدِي دَعَا اللَّهَ وَدَعَاهُ ثُمَّ قَالَ أَشَعَرْتِ يَا عَائِشَةُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَا استفتيته جَاءَنِي رجلَانِ فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلِي ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ مَا وَجَعُ الرَّجُلِ قَالَ مَطْبُوبٌ قَالَ وَمَنْ طَبَّهُ قَالَ لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ الْيَهُودِيُّ قَالَ فِي مَاذَا قَالَ فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةِ ذَكَرٍ قَالَ فَأَيْنَ هُوَ قَالَ فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ إِلَى الْبِئْرِ فَقَالَ هَذِهِ الْبِئْرُ الَّتِي أُريتها وَكَأن ماءَها نُقاعةُ الْحِنَّاء ولكأن نخلها رُءُوس الشَّيَاطِين فاستخرجه مُتَّفق عَلَيْهِ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر جادو کر دیا گیا حتیٰ کہ آپ کو خیال گزرتا کہ آپ نے کوئی کام کر لیا ہے حالانکہ آپ نے اسے نہیں کیا ہوتا تھا، حتیٰ کہ ایک روز آپ میرے ہاں تشریف فرما تھے، آپ اللہ سے بار بار دعا کر رہے تھے، پھر فرمایا: عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے جس چیز کے بارے میں اللہ سے سوال کیا تھا اس نے وہ چیز مجھے دے دی ہے: دو آدمی میرے پاس آئے، ان میں سے ایک میرے سرہانے بیٹھ گیا اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس پھر ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: انہیں کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا: ان پر جادو کیا گیا ہے، اس نے پوچھا: ان پر کس نے جادو کیا ہے؟ اس نے کہا: لبید بن الاعصم یہودی نے، اس نے کہا: کس چیز میں؟ اس نے کہا: کنگھے اور بالوں میں اور نر کھجور کے خوشے میں ہے، اس نے پوچھا: وہ کہاں ہے؟ اس نے کہا: ذروان کے کنویں میں۔ چنانچہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے چند صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور فرمایا: یہ وہ کنواں ہے جو مجھے دکھایا گیا ہے، اور اس کا پانی مہندی کے عرق جیسا ہے اور اس کے کھجور کے درخت شیاطین کے سروں جیسے ہیں۔ پس آپ ��لی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے نکلوا دیا۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (3268) و مسلم (43/ 2189)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. خارجیوں کی علامات
حدیث نمبر: 5894
Save to word اعراب
وعن ابي سعيد الخدري قال بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقسم قسما اتاه ذو الخويصرة وهو رجل من بني تميم فقال يا رسول الله اعدل فقال ويلك ومن يعدل إذا لم اعدل قد خبت وخسرت إن لم اكن اعدل فقال عمر له ائذن لي اضرب عنقه فقال دعه فإن له اصحابا يحقر احدكم صلاته مع صلاتهم وصيامه مع صيامهم يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ينظر إلى نصله إلى رصافه إلى نضيه وهو قدحه إلى قذذه فلا يوجد فيه شيء قد سبق الفرث والدم آيتهم رجل اسود إحدى عضديه مثل ثدي المراة او مثل البضعة تدردر ويخرجون على حين فرقة من الناس قال ابو سعيد اشهد اني سمعت هذا الحديث من رسول الله صلى الله عليه وسلم واشهد ان علي بن ابي طالب قاتلهم وانا معه فامر بذلك الرجل فالتمس فاتي به حتى نظرت إليه على نعت النبي صلى الله عليه وسلم الذي نعته وفي رواية: اقبل رجل غائر العينين ناتئ الجبين كث اللحية مشرف الوجنتين محلوق الراس فقال يا محمد اتق الله فقال: «فمن يطيع الله إذا عصيته فيامنني الله على اهل الارض ولا تامنوني» فسال رجل قتله فمنعه فلما ولى قال: «إن من ضئضئ هذا قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الإسلام مروق السهم من الرمية يقتلون اهل الإسلام ويدعون اهل الاوثان لئن ادركتهم لاقتلنهم قتل عاد» . متفق عليه وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْسِمُ قَسْمًا أَتَاهُ ذُو الْخوَيْصِرَة وَهُوَ رجلٌ من بني تَمِيم فَقَالَ يَا رسولَ الله اعْدِلْ فَقَالَ وَيلك وَمن يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ قَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ إِن لم أكن أعدل فَقَالَ عمر لَهُ ائْذَنْ لي أضْرب عُنُقه فَقَالَ دَعْهُ فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ يُنْظَرُ إِلَى نَصْلِهِ إِلَى رُصَافِهِ إِلَى نَضِيِّهِ وَهُوَ قِدْحُهُ إِلَى قُذَذِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ آيَتُهُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ إِحْدَى عَضُدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ أَوْ مِثْلُ الْبَضْعَةِ تَدَرْدَرُ وَيخرجُونَ على حِين فِرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَشْهَدُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَاتَلَهُمْ وَأَنَا مَعَهُ فَأَمَرَ بذلك الرجل فالْتُمِسَ فَأُتِيَ بِهِ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَيْهِ عَلَى نَعْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي نَعَتَهُ وَفِي رِوَايَةٍ: أَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ نَاتِئُ الجبين كَثُّ اللِّحْيَةِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ مَحْلُوقُ الرَّأْسِ فَقَالَ يَا مُحَمَّد اتَّقِ الله فَقَالَ: «فَمن يُطِيع اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُهُ فَيَأْمَنُنِي اللَّهُ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونِي» فَسَأَلَ رَجُلٌ قَتْلَهُ فَمَنَعَهُ فَلَمَّا وَلَّى قَالَ: «إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ من الإِسلام مروق السهْم من الرَّمية يقتلُون أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لأقتلنهم قتل عَاد» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھے اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے، اتنے میں بنو تمیم قبیلے سے ذوالخویصرہ نامی شخص آیا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! انصاف کریں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تجھ پر افسوس! اگر میں عدل نہیں کروں گا تو پھر اور کون عدل کرے گا، اگر میں عدل نہ کروں تو میں بھی خائب و خاسر ہو جاؤں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، مجھے اجازت فرمائیں کہ میں اس کی گردن مار دوں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو کہ اس کے کچھ ساتھی ہوں گے تم میں سے کوئی اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں، اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں معمولی سمجھے گا، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے، اس (تیر) کے پیکان، اس کے پٹھے پر جو کہ پیکان پر لپیٹا جاتا ہے اور تیر کے اس حصے کو جو کہ پر اور پیکان کے درمیان ہوتا ہے کو دیکھا جائے تو اس پر کوئی نشان نظر نہیں آئے گا، حالانکہ وہ (تیر) گوبر اور خون میں سے گزرتا ہے، ان کی نشانی یہ ہے کہ ایک سیاہ فام شخص ہے اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح (اٹھا ہوا) ہو گا یا ہلتے ہوئے گوشت کے ٹکڑے کی طرح ہو گا، اور وہ لوگوں کے بہترین گروہ کے خلاف بغاوت کریں گے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑائی لڑی ہے اور میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، اس شخص کے متعلق حکم دیا گیا تو اسے تلاش کیا گیا اور اسے لایا گیا حتیٰ کہ میں نے اسے دیکھا تو اس کا پورا حلیہ بالکل اسی طرح تھا جس طرح نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا حلیہ بیان کیا تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے، ایک آدمی آیا، اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، پیشانی ابھری ہوئی تھی، داڑھی گھنی تھی، گالیں پھولی ہوئی تھیں، سر منڈا ہوا تھا، اس نے کہا، محمد! اللہ سے ڈر جائیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر اور کون اس سے ڈرے گا، اللہ نے زمین والوں پر مجھے امین بنا کر بھیجا ہے جبکہ تم مجھے امین نہیں سمجھتے ہو۔ ایک آدمی نے اسے قتل کرنے کی درخواست کی تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے روک دیا، جب وہ واپس گیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس شخص کے نسب سے کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح خارج ہو جائیں گے جس طرح تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے، وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میں نے انہیں پا لیا تو میں انہیں قوم عاد کی طرح قتل کروں گا۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (3344) و مسلم (143/ 1064)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا قبول اسلام
حدیث نمبر: 5895
Save to word اعراب
وعن ابي هريرة قال كنت ادعو امي إلى الإسلام وهي مشركة فدعوتها يوما فاسمعتني في رسول الله صلى الله عليه وسلم ما اكره فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابكي قلت يا رسول الله: ادع الله ان يهدي ام ابي هريرة فقال: «اللهم اهد ام ابي هريرة» . فخرجت مستبشرا بدعوة النبي صلى الله عليه وسلم فلما صرت إلى الباب فإذا هو مجاف فسمعت امي خشف قدمي فقالت مكانك يا ابا هريرة وسمعت خضخضة الماء قال فاغتسلت فلبست درعها وعجلت عن خمارها ففتحت الباب ثم قالت يا ابا هريرة اشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابكي من الفرح فحمد الله واثنى عليه وقال خيرا. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كُنْتُ أَدْعُو أُمِّي إِلَى الْإِسْلَامِ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فَدَعَوْتُهَا يَوْمًا فَأَسْمَعَتْنِي فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أكره فَأَتَيْتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَهْدِيَ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ اهْدِ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ» . فَخَرَجْتُ مُسْتَبْشِرًا بِدَعْوَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا صِرْتُ إِلَى الْبَابِ فَإِذَا هُوَ مُجَافٍ فَسَمِعَتْ أُمِّي خَشْفَ قَدَمَيَّ فَقَالَتْ مَكَانَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَة وَسمعت خضخضة المَاء قَالَ فَاغْتَسَلَتْ فَلَبِسَتْ دِرْعَهَا وَعَجِلَتْ عَنْ خِمَارِهَا فَفَتَحَتِ الْبَابَ ثُمَّ قَالَتْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي مِنَ الْفَرح فَحَمدَ الله وَأثْنى عَلَيْهِ وَقَالَ خيرا. رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں اپنی مشرکہ والدہ کو اسلام کی دعوت پیش کرتا تھا، ایک روز میں نے اسے دعوت پیش کی تو اس نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی شان میں کچھ ایسے الفاظ کہے جو مجھے ناگوار گزرے، میں روتا ہوا رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، اللہ کے رسول! اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ ابوہریرہ کی والدہ کو ہدایت نصیب فرما دے۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ابوہریرہ کی والدہ کو ہدایت عطا فرما۔ میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعا پر خوش ہوتا ہوا وہاں سے چلا، جب میں دروازے پر پہنچا تو وہ بند تھا، میری والدہ نے میرے قدموں کی آہٹ سن کر فرمایا: ابوہریرہ! اپنی جگہ پر ٹھہر جاؤ، میں نے پانی گرنے کی آواز سن لی تھی، انہوں نے غسل کیا، اپنی قمیص پہنی، اور عجلت میں چادر بھی نہ لی اور دروازہ کھول کر فرمایا: ابوہریرہ! میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، میں خوشی کے آنسو بہاتا ہوا رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس واپس آیا، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور دعائے خیر فرمائی۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (158/ 2491)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا کثرت سے احادیث روایت فرمانا
حدیث نمبر: 5896
Save to word اعراب
وعنه إنكم تقولون اكثر ابو هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم والله الموعد وإن إخوتي من المهاجرين كان يشغلهم الصفق بالاسواق وإن إخوتي من الانصار كان يشغلهم عمل اموالهم وكنت امرا مسكينا الزم رسول الله صلى الله عليه وسلم على ملء بطني وقال النبي صلى الله عليه وسلم يوما: «لن يبسط احد منكم ثوبه حتى اقضي مقالتي هذه ثم يجمعه إلى صدره فينسى من مقالتي شيئا ابدا» فبسطت نمرة ليس علي ثوب غيرها حتى قضى النبي صلى الله عليه وسلم مقالته ثم جمعتها إلى صدري فوالذي بعثه بالحق ما نسيت من مقالته تلك إلى يومي هذا. متفق عليه وَعنهُ إِنَّكُمْ تَقُولُونَ أَكْثَرَ أَبُو هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهُ الْمَوْعِدُ وَإِنَّ إِخْوَتِي مِنَ الْمُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفِقُ بِالْأَسْوَاقِ وَإِنَّ إِخْوَتِي مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ يَشْغَلُهُمْ عَمَلُ أَمْوَالِهِمْ وَكُنْتُ امْرَأً مِسْكِينًا أَلْزَمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَلْءِ بَطْنِي وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا: «لَنْ يَبْسُطَ أَحَدٌ مِنْكُمْ ثَوْبَهُ حَتَّى أَقْضِيَ مَقَالَتِي هَذِهِ ثُمَّ يَجْمَعَهُ إِلَى صَدْرِهِ فَيَنْسَى مِنْ مَقَالَتِي شَيْئًا أَبَدًا» فَبَسَطْتُ نَمِرَةً لَيْسَ عَلَيَّ ثَوْبٌ غَيْرَهَا حَتَّى قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَتَهُ ثُمَّ جَمَعْتُهَا إِلَى صَدْرِي فَوَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ مَا نَسِيتُ مِنْ مقَالَته تِلْكَ إِلَى يومي هَذَا. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، تم لوگ کہتے ہو کہ ابوہریرہ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بہت زیادہ احادیث بیان کرتا ہے۔ اللہ کی قسم! ایک دن اللہ کے پاس جانا ہے، میرے مہاجر بھائی بازاروں میں خرید و فروخت میں مشغول رہا کرتے تھے اور میرے انصار بھائی اپنے اموال (کھیتوں اور باغات) میں مشغول رہا کرتے تھے، میں ایک مسکین آدمی تھا، میں اپنا پیٹ بھرنے کے بعد پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رہتا، ایک روز نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو شخص میری اس گفتگو کے پورا ہونے تک کپڑا بچھائے رکھے گا، پھر اسے اپنے سینے کے ساتھ لگا لے گا تو وہ میرے فرامین میں سے کچھ بھی نہیں بھولے گا۔ میں نے دھاری دار چادر بچھا دی اس کے علاوہ میرے پاس کوئی اور کپڑا نہیں رہتا تھا، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب اپنی گفتگو مکمل فرمائی، تو میں نے چادر کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! میں اس روز سے آج تک آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فرامین سے کچھ نہیں بھولا۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (2350) و مسلم (160، 159/ 2492)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. دعا کا ایک اور معجزہ
حدیث نمبر: 5897
Save to word اعراب
وعن جرير بن عبد الله قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الا تريحني من ذي الخلصة؟» فقلت: بلى وكنت لا اثبت على الخيل فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فضرب يده على صدري حتى رايت اثر يده في صدري وقال: «اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا» . قال فما وقعت عن فرسي بعد فانطلق في مائة وخمسين فارسا من احمس فحرقها بالنار وكسرها. متفق عليه وَعَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ؟» فَقُلْتُ: بَلَى وَكُنْتُ لَا أَثْبُتُ عَلَى الْخَيْلِ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَرَبَ يَدَهُ عَلَى صَدْرِي حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ يَدِهِ فِي صَدْرِي وَقَالَ: «اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا» . قَالَ فَمَا وَقَعْتُ عَنْ فَرَسِي بَعْدُ فَانْطَلَقَ فِي مِائَةٍ وَخَمْسِينَ فَارِسًا مِنْ أحمس فحرقها بالنَّار وَكسرهَا. مُتَّفق عَلَيْهِ
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: کیا تم مجھے ذوالخلصہ (بت) سے آرام نہیں پہنچاتے؟ میں نے عرض کیا، کیوں نہیں، ضرور، لیکن میں گھوڑے کی سواری اچھی طرح نہیں کر پاتا تھا، میں نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا حتیٰ کہ میں نے آپ کے ہاتھ کے اثرات اپنے سینے میں محسوس کئے، اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اس کو (گھوڑے کی پشت پر) ثبات عطا فرما، اسے ہدایت کی راہ دکھانے والا اور ہدایت یافتہ بنا۔ وہ بیان کرتے ہیں، اس کے بعد میں اپنے گھوڑے سے نہیں گرا، وہ احمس قبیلے کے ڈیڑھ سو گھڑ سواروں کے ساتھ روانہ ہوئے اور اسے آگ کے ساتھ جلا دیا اور اسے توڑ دیا۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (4357) و مسلم (137، 136/ 2476)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کا اثر
حدیث نمبر: 5898
Save to word اعراب
وعن انس قال: إن رجلا كان يكتب للنبي صلى الله عليه وسلم فارتد عن الإسلام ولحق بالمشركين فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن الارض لا تقبله» . فاخبرني ابو طلحة انه اتى الارض التي مات فيها فوجده منبوذا فقال: ما شان هذا؟ فقالوا: دفناه مرارا فلم تقبله الارض. متفق عليه وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا كَانَ يَكْتُبُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَارْتَدَّ عَنِ الْإِسْلَامِ وَلَحِقَ بِالْمُشْرِكِينَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْأَرْضَ لَا تَقْبَلُهُ» . فَأَخْبَرَنِي أَبُو طَلْحَةَ أَنَّهُ أَتَى الْأَرْضَ الَّتِي مَاتَ فِيهَا فَوَجَدَهُ مَنْبُوذًا فَقَالَ: مَا شَأْنُ هَذَا؟ فَقَالُوا: دَفَنَّاهُ مِرَارًا فَلَمْ تَقْبَلْهُ الأَرْض. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے (وحی) لکھا کرتا تھا، وہ اسلام سے مرتد ہو کر مشرکین سے جا ملا تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمین اسے قبول نہیں کرے گی۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ وہ شخص جس جگہ فوت ہوا تھا وہ وہاں گئے تو انہوں نے اسے سطح زمین پر پڑا ہوا دیکھا تو پوچھا: اس کا کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہم نے اسے کئی مرتبہ دفن کیا مگر زمین (قبر) اسے قبول نہیں کرتی۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (3617) و مسلم (14/ 2781)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

Previous    12    13    14    15    16    17    18    19    20    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.