وعن عثمان بن عفان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كانت له سريرة صالحة او سيئة اظهر الله منها رداء يعرف به» وَعَن عُثْمَان بن عَفَّان قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَتْ لَهُ سَرِيرَةٌ صَالِحَةً أَوْ سَيِّئَةً أَظْهَرَ اللَّهُ مِنْهَا رِدَاءً يُعْرَفُ بِهِ»
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کی کوئی نیک یا بد خصلت چھپی ہوئی ہو تو اللہ اس سے کوئی علامت ظاہر فرما دے گا جس سے وہ پہچانا جائے گا۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه البيھقي في شعب الإيمان (6942، نسخة محققة: 6543) ٭ فيه حفص بن سليمان: متروک.»
وعن عمر بن الخطاب عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إنما اخاف على هذه الامة كل منافق يتكلم بالحكمة ويعمل بالجور» روى البيهقي الاحاديث الثلاثة في «شعب الإيمان» وَعَن عمر بن الْخَطَّابِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّمَا أَخَافُ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ كُلَّ مُنَافِقٍ يَتَكَلَّمُ بِالْحِكْمَةِ وَيَعْمَلُ بِالْجَوْرِ» رَوَى الْبَيْهَقِيُّ الْأَحَادِيثَ الثَّلَاثَةَ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ»
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس امت کے ہر منافق کا اندیشہ ہے کیونکہ وہ بات حکمت کے ساتھ کرتا ہے جبکہ عملی طور پر ظلم کرتا ہے۔ “ امام بیہقی نے تینوں احادیث شعب الایمان میں روایت کی ہیں۔ حسن، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه البيھقي في شعب الإيمان (1777، نسخة محققة: 1641) [و أحمد (1/ 22 ح 143 وسنده حسن)]»
وعن المهاجر بن حبيب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال الله تعالى: إني لست كل كلام الحكيم اتقبل ولكني اتقبل همه وهواه فإن كان همه وهواه في طاعتي جعلت صمته حمدا لي ووقارا وإن لم يتكلم رواه الدارمي وَعَن المهاجرِ بنِ حبيبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنِّي لَسْتُ كُلَّ كلامِ الْحَكِيم أتقبَّلُ وَلَكِنِّي أَتَقَبَّلُ هَمَّهُ وَهَوَاهُ فَإِنْ كَانَ هَمُّهُ وَهَوَاهُ فِي طَاعَتِي جَعَلْتُ صَمْتَهُ حَمْدًا لِي وَوَقَارًا وإِنْ لمْ يتكلَّمْ رَوَاهُ الدَّارمِيّ
مہاجر بن حبیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: میں دانا کے سارے کلام کو قبول نہیں کرتا، لیکن میں اس کی نیت اور اس کے ارادے کو قبول کرتا ہوں، اگر اس کی نیت اور اس کا ارادہ میری اطاعت میں ہے تو میں اس کی خاموشی کو اپنے لیے حمد و وقار قرار دے دیتا ہوں اگرچہ اس نے کلام نہ کیا ہو۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الدارمي (1/ 79 ح 258) ٭ فيه صدقة بن عبد الله بن مھاجر بن حبيب: مجھول، و المھاجر ليس صحابيًا و لعله المھاصر بن حبيب کما في النسخة المحققة فالسند مع ضعفه مرسل.»
عن ابي هريرة قال: قال ابو القاسم صلى الله عليه وسلم: «والذي نفسي بيده لو تعلمون ما اعلم لبكيتم كثيرا ولضحكتم قليلا» . رواه البخاري عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا وَلَضَحِكْتُمْ قَلِيلا» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم (نافرمانوں کے عذاب کے متعلق) جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم زیادہ روؤ اور کم ہنسو۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (6485)»
وعن ام العلاء الانصارية قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «والله لا ادري والله لا ادري وانا رسول الله ما يفعل بي وبكم» . رواه البخاري وَعَنْ أُمِّ الْعَلَاءِ الْأَنْصَارِيَّةِ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ لَا أَدْرِي وَاللَّهِ لَا أَدْرِي وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَا يُفْعَلُ بِي وبكم» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ام علاء انصاریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا، اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا جبکہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں کہ میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟“ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (1243)»
وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «عرضت علي النار فرايت فيها امراة من بني إسرائيل تعذب في هرة لها ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تاكل من خشاش الارض حتى ماتت جوعا ورايت عمرو بن عامر الخزاعي يجر قصبه في النار وكان اول من سيب السوائب» . رواه مسلم وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ فَرَأَيْتُ فِيهَا امْرَأَةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ تُعَذَّبُ فِي هِرَّةٍ لَهَا رَبَطَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا وَرَأَيْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرٍ الْخُزَاعِيَّ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ سَيَّبَ السَّوَائِبَ» . رَوَاهُ مُسلم
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرے سامنے جہنم کی آگ پیش کی گئی تو میں نے اس میں بنی اسرائیل کی ایک عورت کو اس کی ایک بلی کی وجہ سے عذاب میں مبتلا دیکھا، اس نے اسے باندھ رکھا تھا، اس نے اسے نہ خود کھلایا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ حشرات الارض کھا سکے اسی حال وہ بھوکی مر گئی، اور میں نے عمرو بن عامر الخزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا، اور وہ پہلا شخص ہے جس نے بتوں کے نام پر جانور چھوڑنے کی رسم ایجاد کی۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (9/ 904)»
وعن زينب بنت جحش ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل يوما فزعا يقول: «لا إله إلا الله ويل للعرب من شر قد اقترب فتح اليوم من ردم ياجوج وماجوج مثل هذه» وحلق باصبعيه: الإبهام والتي تليها. قالت زينب: فقلت: يا رسول الله افنهلك وفينا الصالحون؟ قال: «نعم إذا كثر الخبث» . متفق عليه وَعَن زينبَ بنتِ جحشٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دخل يَوْمًا فَزِعًا يَقُولُ: «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَيلٌ للعربِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ» وَحَلَّقَ بِأُصْبَعَيْهِ: الْإِبْهَامَ وَالَّتِي تَلِيهَا. قَالَتْ زَيْنَبُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَنُهْلَكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ؟ قَالَ: «نَعَمْ إِذا كثُرَ الخَبَثُ» . مُتَّفق عَلَيْهِ
زینب بنت جحش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھبراہٹ کے عالم میں میرے پاس تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے: ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، عربوں کے لیے اس شر کے سبب تباہی ہے جو کہ قریب پہنچ چکی ہے؟ آج یاجوج ماجوج کا بند اس قدر کھول دیا گیا۔ “ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں، انگوٹھے اور انگشت شہادت سے حلقہ بنایا، زینب رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا ہم ہلاک کر دیے جائیں گے جبکہ صالح لوگ ہم میں موجود ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، جب فسق و فجور زیادہ ہو جائے گا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3346) و مسلم (1880/2)»
وعن ابي عامر او ابي مالك الاشعري قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ليكونن من امتي اقوام يستحلون الخز والحرير والخمر والمعازف ولينزلن اقوام إلى جنب علم يروح عليهم بسارحة لهم ياتيهم رجل لحاجة فيقولون: ارجع إلينا غدا فيبيتهم الله ويضع العلم ويمسخ آخرين قردة وخنازير إلى يوم القيامة «. رواه البخاري. وفى بعض نسخ» المصابيح: «الحر» بالحاء والراء المهملتين وهو تصحيف وإنما هو بالخاء والزاي المعجمتين نص عليه الحميدي وابن الاثير في هذا الحديث. وفى كتاب «الحميدي» عن البخاري وكذا في «شرحه» للخطابي: «تروح سارحة لهم ياتيهم لحاجة» وَعَنْ أَبِي عَامِرٍ أَوْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْخَزَّ وَالْحَرِيرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلَى جَنْبِ عَلَمٍ يَرُوحُ عَلَيْهِمْ بِسَارِحَةٍ لَهُمْ يَأْتِيهِمْ رَجُلٌ لِحَاجَةٍ فَيَقُولُونَ: ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا فَيُبَيِّتُهُمُ اللَّهُ وَيَضَعُ الْعَلَمَ وَيَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ «. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. وَفَى بَعْضِ نُسَخِ» الْمَصَابِيحِ: «الْحَرَّ» بِالْحَاءِ وَالرَّاءِ الْمُهْمَلَتَيْنِ وَهُوَ تَصْحِيفٌ وَإِنَّمَا هُوَ بِالْخَاءِ وَالزَّايِ الْمُعْجَمَتَيْنِ نَصَّ عَلَيْهِ الْحُمَيْدِيُّ وَابْنُ الْأَثِيرِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ. وَفَى كِتَابِ «الْحُمَيْدِيِّ» عَنِ الْبُخَارِيِّ وَكَذَا فِي «شَرحه» للخطابي: «تروح سارحة لَهُم يَأْتِيهم لحَاجَة»
ابو عامر یا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میری امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جوخز (ہلکی قسم کا ریشم) اور عام ریشم، شراب اور آلات موسیقی کو حلال سمجھیں گے، اور کچھ لوگ پہاڑ کے دامن کی طرف اتریں گے ان کے ساتھ ان کے مویشی آئیں گے، ایک آدمی کسی ضرورت کے تحت ان کے پاس آئے گا، تو وہ کہیں گے، کل آنا، اللہ انہیں راتوں رات عذاب میں مبتلا کر دے گا اور پہاڑ ان پر گرا دے گا جبکہ باقی لوگوں کی صورتیں مسخ کر کے روز قیامت تک بندر اور خنزیر بنا دے گا۔ “ بخاری۔ اور مصابیح کے بعض نسخوں میں ”خز“ کے بجائے ”حر“ ہے اور یہ تصحیف ہے، جبکہ صحیح ”خز“ ہے، الحمیدی اور ابن اثیر نے اس حدیث میں اسی کو راجح قرار دیا ہے، اور کتاب الحمیدی میں امام بخاری کی سند سے، اور اسی طرح بخاری کی شرح للخطابی میں ہے: ((تَرُوْحُ عَلَیْھِمْ سَارِحَۃٌ لَھُمْ یَأْتِیْھِمْ لِحَاجَۃِ)) رواہ البخاری و فی مصابیح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (5590) و ذکره البغوي في مصابيح السنة (3/ 453ح 4113) و أخطأ من ضعفه.»
وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا انزل الله بقوم عذابا اصاب العذاب من كان فيهم ثم بعثوا على اعمالهم» . متفق عليه وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِقَوْمٍ عَذَابًا أَصَابَ الْعَذَابُ مَنْ كَانَ فِيهِمْ ثُمَّ بُعِثُوا عَلَى أَعْمَالِهِمْ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو تمام لوگ اس عذاب کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں، پھر وہ اپنے اپنے اعمال کے مطابق (روز قیامت) اٹھائے جائیں گے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (7108) و مسلم (84 / 2879)»
وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يبعث كل عبد على ما مات عليه» . رواه مسلم وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُبْعَثُ كُلُّ عَبْدٍ عَلَى مَا ماتَ عَلَيْهِ» . رَوَاهُ مُسلم
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بندہ اپنے آخری عمل پر، جس پر وہ فوت ہوا، اٹھایا جائے گا۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2878/83)»