وعن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: خصلتان من كانتا فيه كتبه الله شاكرا: من نظر في دينه إلى من هو فوقه فاقتدى به ونظر في دنياه إلى من هو دونه فحمد الله على ما فضله الله عليه كتبه الله شاكرا صابرا. ومن نظر في دينه إلى من هو دونه ونظر في دنياه إلى من هو فوقه فاسف على ما فاته منه لم يكتبه الله شاكرا ولا صابرا. رواه الترمذي وذكر حديث ابي سعيد: «ابشروا يا معشر صعاليك المهاجرين» في باب بعد فضائل القرآن وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَصْلَتَانِ مَنْ كَانَتَا فِيهِ كَتَبَهُ اللَّهُ شاكراً: مَنْ نَظَرَ فِي دِينِهِ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ فَاقْتَدَى بِهِ وَنَظَرَ فِي دُنْيَاهُ إِلَى مَنْ هُوَ دُونَهُ فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا فَضَّلَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ كَتَبَهُ اللَّهُ شَاكِرًا صَابِرًا. وَمَنْ نَظَرَ فِي دِينِهِ إِلَى مَنْ هُوَ دُونَهُ وَنَظَرَ فِي دُنْيَاهُ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ فَأَسِفَ عَلَى مَا فَاتَهُ مِنْهُ لَمْ يَكْتُبْهُ اللَّهُ شَاكِرًا وَلَا صَابِرًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَذَكَرَ حَدِيثَ أَبِي سَعِيدٍ: «أَبْشِرُوا يَا مَعْشَرَ صَعَالِيكِ الْمُهَاجِرِينَ» فِي بَابٍ بَعْدَ فَضَائِلِ الْقُرْآنِ
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دو خصلتیں جس شخص میں ہوں اللہ اسے شاکر صابر لکھ دیتا ہے، جو شخص اپنے دین کے معاملے میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھتا ہے اور پھر اس کی اقتدا کرتا ہے، اور دنیا کے معاملے میں وہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھتا ہے اور اللہ نے جو اس کو اس پر فضیلت عطا کی ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، تو اللہ اسے شکر گزار صبر کرنے والا لکھ دیتا ہے، اور جو شخص اپنے دین کے معاملے میں اپنے سے کم تر کو اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے برتر کو دیکھتا ہے اور جو چیز اسے نہیں ملی اس پر افسوس کرتا ہے تو اللہ اسے شاکر و صابر نہیں لکھتا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔ اور ابوسعید سے مروی حدیث: ”مہاجرین کی فقیر جماعت خوش ہو جاؤ“ فضائل القرآن کے باب کے بعد ذکر کی گئی ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2512) ٭ مثني بن الصباح: ضعيف.»
عن ابي عبد الرحمن الحبلي قال: سمعت عبد الله بن عمرو وساله رجل قال: السنا من فقراء المهاجرين؟ فقال له عبد الله: الك امراة تاوي إليها؟ قال: نعم. قال: الك مسكن تسكنه؟ قال: نعم. قال: فانت من الاغنياء. قال: فإن لي خادما. قال: فانت من الملوك. قال: عبد الرحمن: وجاء ثلاثة نفر إلى عبد الله بن عمرو وانا عنده. فقالوا: يا ابا محمد إناوالله ما نقدر على شيء لا نفقة ولا دابة ولا متاع. فقال لهم: ما شئتم إن شئتم رجعتم إلينا فاعطيناكم ما يسر الله لكم وإن شئتم ذكرنا امركم للسلطان وإن شئتم صبرتم فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن فقراء المهاجرين يسبقون الاغنياء يوم القيامة إلى الجنة باربعين خريفا» . قالوا: فإنا نصبر لا نسال شيئا. رواه مسلم عَن أبي عبد الرَّحْمَن الحُبُليِّ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو وَسَأَلَهُ رَجُلٌ قَالَ: أَلَسْنَا مِنْ فُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ؟ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ: أَلَكَ امْرَأَةٌ تَأْوِي إِلَيْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: أَلَكَ مَسْكَنٌ تَسْكُنُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: فَأَنْتَ مِنَ الْأَغْنِيَاءِ. قَالَ: فَإِنَّ لِي خَادِمًا. قَالَ: فَأَنْتَ مِنَ الْمُلُوكِ. قَالَ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ: وَجَاءَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَأَنَا عِنْدَهُ. فَقَالُوا: يَا أَبَا مُحَمَّد إناوالله مَا نَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ لَا نَفَقَةَ وَلَا دَابَّةَ وَلَا مَتَاعَ. فَقَالَ لَهُمْ: مَا شِئْتُمْ إِنْ شِئْتُمْ رَجَعْتُمْ إِلَيْنَا فَأَعْطَيْنَاكُمْ مَا يَسَّرَ اللَّهُ لَكُمْ وَإِنْ شِئْتُمْ ذَكَرْنَا أَمْرَكُمْ لِلسُّلْطَانِ وَإِنْ شِئْتُمْ صَبَرْتُمْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِينَ يَسْبِقُونَ الْأَغْنِيَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَى الْجَنَّةِ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا» . قَالُوا: فَإِنَّا نَصْبِرُ لَا نَسْأَلُ شَيْئا. رَوَاهُ مُسلم
ابو عبد الرحمن حبلی بیان کرتے ہیں، میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے سنا، ایک آدمی نے ان سے سوال پوچھا: کیا ہم مہاجر فقرا میں سے نہیں؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اسے فرمایا: کیا تمہاری بیوی ہے جس کے پاس تم رات بسر کرتے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں! انہوں نے فرمایا: کیا تیرے رہنے کے لیے گھر ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! انہوں نے فرمایا: تم تو مال داروں میں سے ہو، اس نے کہا: میرے پاس تو ایک خادم بھی ہے، انہوں نے فرمایا: تم تو بادشاہ ہو، عبد الرحمن نے کہا، تین آدمی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، میں اس وقت ان کے پاس تھا، انہوں نے کہا: ابو محمد! اللہ کی قسم! ہمارے پاس کچھ بھی نہیں، کوئی خرچہ ہے نہ سواری اور نہ ہی ساز و سامان، انہوں نے انہیں فرمایا: تم کیا چاہتے ہو؟ اگر تم کچھ چاہو تو تم ہمارے پاس آنا، اللہ نے تمہارے لیے جو میسر فرمایا وہ ہم تمہیں عطا کریں گے، اور اگر تم چاہو تو ہم تمہارا معاملہ بادشاہ سے ذکر کریں گے؟ اور اگر تم چاہو تو صبر کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”مہاجر فقرا روز قیامت مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ “ انہوں نے کہا: ہم صبر کرتے ہیں اور ہم کوئی چیز نہیں مانگیں گے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (37/ 2979)»
وعن عبد الله بن عمرو قال: بينما انا قاعد في المسجد وحلقة من فقراء المهاجرين قعود إذ دخل النبي صلى الله عليه وسلم فقعد إليهم فقمت إليهم فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «ليبشر فقراء المهاجرين بما يسر وجوههم فإنهم يدخلون الجنة قبل الاغنياء باربعين عاما» قال: فلقد رايت الوانهم اسفرت. قال عبد الله بن عمرو: حتى تمنيت ان اكون معهم او منهم. رواه الدارمي وَعَن عبد الله بن عَمْرو قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا قَاعِدٌ فِي الْمَسْجِدِ وَحَلْقَةٌ مِنْ فُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ قُعُودٌ إِذْ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَعَدَ إِلَيْهِمْ فَقُمْتُ إِلَيْهِمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لِيُبْشِرْ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ بِمَا يَسُرُّ وُجُوهَهُمْ فَإِنَّهُمْ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ الْأَغْنِيَاءِ بِأَرْبَعِينَ عَامًا» قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَلْوَانَهُمْ أَسْفَرَتْ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ أَو مِنْهُم. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا جبکہ فقرا مہاجرین کا بھی ایک حلقہ لگا ہوا تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو آپ ان کے حلقے میں شامل ہو گئے، میں بھی اٹھ کر ان کی طرف چلا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”فقرا مہاجرین کو اس بات کی بشارت دی جائے جس سے ان کے چہرے خوش ہو جائیں، کیونکہ وہ مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے چمکنے لگے، اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، حتیٰ کہ میں نے تمنا کی کہ میں ان کے ساتھ ہوتا یا ان میں سے ہوتا۔ صحیح، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الدارمي (2/ 339 ح 2847) [و النسائي في السنن الکبري 443/3 ح 5876) وسنده حسن و له شاھد عند مسلم في صحيحه (2979)]»
وعن ابي ذر قال: امرني خليلي بسبع: امرني بحب المساكين والدنو منهم وامرني ان انظر إلى من هو دوني ولا انظر إلى من هو فوقي وامرني ان اصل الرحم وإن ادبرت وامرني ان لا اسال احدا شيئا] وامرني ان اقول بالحق وإن كان مرا وامرني ان لا اخاف في الله لومة لا ئم وامرني ان اكثر من قول: لا حول ولا قوة إلا بالله فإنهن من كنز تحت العرش. رواه احمد وَعَن أبي ذرٍّ قَالَ: أَمَرَنِي خَلِيلِي بِسَبْعٍ: أَمَرَنِي بِحُبِّ الْمَسَاكِينِ وَالدُّنُوِّ مِنْهُمْ وَأَمَرَنِي أَنْ أَنْظُرَ إِلَى مَنْ هُوَ دُونِي وَلَا أَنْظُرَ إِلَى مَنْ هُوَ فَوَقِي وَأَمَرَنِي أَنْ أَصِلَ الرَّحِمَ وَإِنْ أَدْبَرَتْ وَأَمَرَنِي أَنْ لَا أَسْأَلَ أَحَدًا شَيْئًا] وَأَمَرَنِي أَنْ أَقُولَ بِالْحَقِّ وَإِنْ كَانَ مُرًّا وَأَمَرَنِي أنْ لَا أخافَ فِي اللَّهِ لومة لَا ئم وَأَمَرَنِي أَنْ أَكْثِرْ مِنْ قَوْلِ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ فَإِنَّهُنَّ مِنْ كَنْزٍ تَحت الْعَرْش. رَوَاهُ أَحْمد
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میرے خلیل نے مجھے سات چیزوں کے متعلق حکم فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مساکین سے محبت کرنے اور ان کے قریب رہنے کا مجھے حکم فرمایا، آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں اپنے سے کم تر کی طرف دیکھوں اور جو مجھ سے (دنیا کے لحاظ سے) برتر ہے اس کی طرف نہ دیکھوں، آپ نے مجھے صلہ رحمی کا حکم فرمایا اگرچہ وہ قطع رحمی کریں، آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں کسی سے کوئی چیز نہ مانگوں، آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں حق بات کروں اگرچہ وہ کڑوی ہو، آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں اللہ کے (حق کے) بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈروں، اور آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں ((لَا حَوْلَ وَلَا قَوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ)) کثرت سے پڑھا کروں، کیونکہ وہ (کلمات) عرش کے نیچے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہیں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (5/ 159 ح 21745)»
وعن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه من الدنيا ثلاثة الطعام والنساء والطيب فاصاب اثنين ولم يصب واحدا اصاب النساء والطيب ولم يصب الطعام. رواه احمد وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ مِنَ الدُّنْيَا ثَلَاثَةٌ الطَّعَامُ وَالنِّسَاءُ وَالطِّيبُ فَأَصَابَ اثْنَيْنِ وَلَمْ يُصِبْ وَاحِدًا أَصَابَ النِّسَاءَ وَالطِّيبَ وَلَمْ يُصِبِ الطَّعَامَ. رَوَاهُ أَحْمد
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا کی تین چیزیں پسند تھیں، کھانا، عورتیں اور خوشبو، آپ کو دو چیزیں مل گئیں اور ایک نہ مل سکی، آپ کو عورتیں (ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ) اور خوشبو مل گئی لیکن (شکم سیر) کھانا نہ ملا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (6/ 72 ح 24944) ٭ فيه رجل: مجھول و الحديث الآتي (5261) يغني عنه.»
وعن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «حبب إلي الطيب والنساء وجعلت قرة عيني في الصلاة» . رواه احمد والنسائي. وزاد ابن الجوزي بعد قوله: «حبب إلي» من الدنيا وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «حُبِّبَ إِلَيَّ الطِّيبُ وَالنِّسَاءُ وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ. وَزَادَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ بَعْدَ قَوْلِهِ: «حُبِّبَ إِليَّ» منَ الدُّنْيَا
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”خوشبو اور عورتیں میرے لیے پسندیدہ بنا دی گئی ہیں، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ “ احمد، نسائی، اور ابن جوزی نے ((حُبَّبَ إلَیَّ)) کے بعد ((مِنَ الدُّنْیَا)) کا اضافہ نقل کیا ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ احمد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (3/ 199 ح 13088) و النسائي (7/ 61 ح 3391)»
وعن معاذ بن جبل ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما بعث به إلى اليمن قال: «إياك والتنعم فإن عباد الله ليسوا بالمتنعمين» . رواه احمد وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَ بِهِ إِلَى الْيَمَنِ قَالَ: «إِيَّاكَ وَالتَّنَعُّمَ فَإِنَّ عِبَادَ الله لَيْسُوا بالمتنعمين» . رَوَاهُ أَحْمد
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا: ”زیادہ ناز و نعمت کی زندگی سے بچنا، کیونکہ اللہ کے (مخلص) بندے زیادہ نعمت گزاران نہیں ہوتے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (5/ 243 ح 22456) [و أبو نعيم في حلية الأولياء (5/ 155)] ٭ مريح بن مسروق روي عنه جماعة ووثقه ابن حبان وحده و أرسل عن عمر ففي سماعه من معاذ نظر لأنه توفي قبل عمر رضي الله عنهما.»
وعن علي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من رضي من الله باليسير من الرزق رضي الله منه بالقليل من العمل» وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ رَضِيَ مِنَ اللَّهِ بِالْيَسِيرِ مِنَ الرِّزْقِ رَضِيَ الله مِنْهُ بِالْقَلِيلِ من الْعَمَل»
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کی طرف سے ملنے والے تھوڑے سے رزق پر راضی ہو جاتا ہے تو اللہ اس کے تھوڑے عمل سے راضی ہو جاتا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (4585، نسخة محققة: 4265) ٭ إسحاق بن محمد الفروي ضعيف ضعفه الجمھور و الراوي شک في سماعه من أبيه والسند منقطع.»
وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من جاع او احتاج فكتمه الناس كان حقا على الله عز وجل ان يرزقه رزق سنة من حلال» . رواهما البيهقي في «شعب الإيمان» وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ جَاعَ أَوِ احْتَاجَ فَكَتَمَهُ النَّاسُ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَرْزُقَهُ رِزْقَ سَنَةٍ مِنْ حلالٍ» . رَوَاهُمَا الْبَيْهَقِيّ فِي «شعب الْإِيمَان»
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بھوک میں مبتلا ہوا یا کسی چیز کا ضرورت مند ہوا اور اس نے اسے لوگوں سے چھپائے رکھا تو اللہ عزوجل پر حق ہے کہ وہ اسے سال بھر کے لیے رزق حلال عطا فرمائے۔ “ دونوں روایتوں کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10054، نسخة محققة: 9581) ٭ فيه أبو عبد الرحمٰن السلمي ضعيف جدًا، ولأعمش مدلس و عنعن إن صح السند إليه و علل أخري.»
وعن عمران بن حصين قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله يحب عبده المؤمن الفقير المتعفف ابا العيال» . رواه ابن ماجه وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ عَبْدَهُ الْمُؤْمِنَ الْفَقِيرَ الْمُتَعَفِّفَ أَبَا الْعِيَالِ» . رَوَاهُ ابْن مَاجَه
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ اپنے اس مومن عیال دار بندے کو پسند کرتا ہے جو ضرورت مند ہونے کے باوجود سوال نہیں کرتا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (4121) ٭ فيه موسي بن عبيدة ضعيف والقاسم بن مهران لم يثبت سماعه من عمران و فيه علة أخري و له شاھد ضعيف جدًا.»