وعنها قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الملائكة تنزل في العنان وهو السحاب فتذكر الامر قضي في السماء فتسترق الشياطين السمع فتوحيه إلى الكهان فيكذبون معها مائة كذبة من عند انفسهم. رواه البخاري وَعَنْهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَنْزِلُ فِي الْعَنَانِ وَهُوَ السَّحَابُ فَتَذْكُرُ الْأَمْرَ قُضِيَ فِي السَّماءِ فتسترق الشياطينُ السمعَ فَتُوحِيهِ إِلَى الْكُهَّانِ فَيَكْذِبُونَ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ من عِنْد أنفسهم. رَوَاهُ البُخَارِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”بے شک فرشتے عنان یعنی بادلوں میں اترتے ہیں، اور وہ آسمان میں ہونے والے فیصلہ شدہ امور کا تذکرہ کرتے ہیں تو شیاطین چوری سے اسے سن لیتے ہیں پھر وہ اسے کاہنوں تک پہنچا دیتے ہیں، اور کاہن اس کے ساتھ اپنی طرف سے سو جھوٹ بولتے ہیں۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2210)»
وعن حفصة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من اتى عرافا فساله عن شيء لم تقبل صلاة اربعين ليلة» . رواه مسلم وَعَنْ حَفْصَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ لم تقبل صَلَاة أَرْبَعِينَ لَيْلَة» . رَوَاهُ مُسلم
حفصہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی کاہن کے پاس جا کر اس سے کسی گم شدہ چیز کے بارے میں دریافت کرے تو اس شخص کی چالیس روز تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (125/ 2230)»
وعن زيد بن خالد الجهني قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح بالحديبية على اثر سماء كانت من الليل فلما انصرف اقبل على الناس فقال: «هل تدرون ماذا قال ربكم؟» قالوا: الله ورسوله اعلم قال: اصبح من عبادي مؤمن بي وكافر فاما من قال: مطرنا بفضل الله ورحمته فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب واما من قال: مطرنا بنوء كذا وكذا فذلك كافر بي ومؤمن بالكوكب وَعَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ عَلَى أَثَرِ سَمَاءٍ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ ربُّكم؟» قَالُوا: الله وَرَسُوله أعلم قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي كَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي وَمُؤمن بالكوكب
زید بن خالد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ کے مقام پر رات بارش ہو جانے کے بعد نمازِ فجر پڑھائی، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے فرمایا ہے: میرے بندوں میں سے بعض نے اس حال میں صبح کی کہ وہ مجھ پر ایمان لائے اور کچھ نے میرے ساتھ کفر کیا، جس شخص نے کہا: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہم پر بارش ہوئی ہے تو وہ مجھ پر ایمان لانے والا ہے اور ستاروں کا منکر ہے اور رہا وہ شخص جس نے کہا: فلاں فلاں (ستارے کے سقوط) کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی ہے تو وہ میرے ساتھ کفر کرنے والا ہے اور ستاروں پر ایمان رکھنے والا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (846) و مسلم (125/ 71)»
وعن ابي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما انزل الله من السماء من بركة إلا اصبح فريق من الناس بها كافرين ينزل الله الغيث فيقولون: بكوكب كذا وكذا. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ بَرَكَةٍ إِلَّا أَصْبَحَ فَرِيقٌ مِنَ النَّاسِ بِهَا كَافِرِينَ يُنْزِلُ اللَّهُ الْغَيْثَ فَيَقُولُونَ: بِكَوْكَبِ كَذَا وَكَذَا. رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ آسمان سے کوئی برکت نازل کرتا ہے تو لوگوں کا ایک گروہ اس کا انکار کر دیتا ہے، اللہ بارش نازل کرتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے (بارش ہوئی) ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (72/126)»
عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من اقتبس علما من النجوم اقتبس شعبة من السحر زاد ما زاد» . رواه احمد وابو داود وابن ماجه عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنِ اقْتَبَسَ عِلْمًا مِنَ النُّجُومِ اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے علم نجوم حاصل کیا تو اس نے جادو کا ایک حصہ حاصل کیا، وہ (حصولِ سحر میں) جس قدر بڑھتا گیا اسی قدر وہ (حصولِ علم نجوم میں) بڑھتا گیا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد و ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (311/1) و أبو داود (3905) و ابن ماجه (3726)»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من اتى كاهنا فصدقه بما يقول او اتى امراته حائضا او اتى امراته من دبرها فقد برئ مما انزل على محمد» . رواه احمد وابو داود وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَتَى كَاهِنًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ أَوْ أَتَى امْرَأَتَهُ حَائِضًا أَو أَتَى امْرَأَته من دُبُرِهَا فَقَدْ بَرِئَ مِمَّا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی کاہن کے پاس گیا اور اس کی باتوں کی تصدیق کی یا اس نے اپنی اہلیہ سے جبکہ وہ حالتِ حیض میں ہو، جماع کیا، یا اس نے اپنی اہلیہ کی پشت میں جماع کیا تو وہ اس سے بیزار ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتاری گئی ہے۔ “ حسن، رواہ احمد و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أحمد (408/2) و أبو داود (3904)»
عن ابي هريرة ان نبي الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا قضى الله الامر في السماء ضربت الملائكة باجنحتها خضعانا لقوله كانه سلسلة على صفوان فإذا فزع عن قلوبهم قالوا: ماذا قال ربكم؟ قالوا: للذي قال الحق وهو العلي الكبير فسمعها مسترقوا السمع ومسترقوا السمع هكذا بعضه فوق بعض «ووصف سفيان بكفه فحرفها وبدد بين اصابعه» فيسمع الكلمة فيلقيها إلى من تحته ثم يلقيها الآخر إلى من تحته حتى يلقيها على لسان الساحر او الكاهن. فربما ادرك الشهاب قبل ان يلقيها وربما القاها قبل ان يدركه فكذب معها مائة كذبة فيقال: اليس قد قال لنا يوم كذا وكذا: كذا وكذا؟ فيصدق بتلك الكلمة التي سمعت من السماء. رواه البخاري عَن أبي هُرَيْرَة أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا قَضَى اللَّهُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ كَأَنَّهُ سِلْسِلَةٌ عَلَى صَفْوَانٍ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: لِلَّذِي قَالَ الْحَقَّ وهوَ العليُّ الكبيرُ فَسَمعَهَا مُسترِقوا السَّمعِ ومُسترقوا السَّمْعِ هَكَذَا بَعْضُهُ فَوْقَ بَعْضٍ «وَوَصَفَ سُفْيَانُ بِكَفِّهِ فَحَرَّفَهَا وَبَدَّدَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ» فَيَسْمَعُ الْكَلِمَةَ فَيُلْقِيهَا إِلَى مَنْ تَحْتَهُ ثُمَّ يُلْقِيهَا الْآخَرُ إِلَى مَنْ تَحْتَهُ حَتَّى يُلْقِيَهَا عَلَى لِسَانِ السَّاحِرِ أَوِ الْكَاهِنِ. فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ قَبْلَ أَنْ يُلْقِيَهَا وَرُبَّمَا أَلْقَاهَا قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَهُ فكذب مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ فَيُقَالُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ لَنَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا: كَذَا وَكَذَا؟ فَيَصْدُقُ بِتِلْكَ الْكَلِمَةِ الَّتِي سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ آسمان پر کسی امر کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کے فرمان سے ڈرتے ہوئے اپنے پَر ہلاتے ہیں، جیسا کہ چٹان پر زنجیر مارنے کی آواز آتی ہے، جب ان کے دلوں سے خوف جاتا رہتا ہے تو وہ کہتے ہیں، تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ وہ (مقرب فرشتے) کہتے ہیں، اس ذات نے جو فرمایا، وہ حق ہے، وہ بلند اور بڑا ہے، چنانچہ چوری سے سننے والے اس فیصلے کو سن لیتے ہیں، اور چوری سننے والے اس طرح ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں۔ “ اور سفیان (راوی) نے اپنی ہتھیلی کے ذریعے اس کی کیفیت بیان کی، انہوں نے اس (ہتھیلی) کو کھولا اور انگلیوں کے درمیان فاصلہ کیا، ”چنانچہ اوپر والا بات سنتا ہے اور وہ اس بات کو اپنے نیچے والے کو پہنچا دیتا ہے، پھر وہ اپنے سے نیچے والے تک پہنچا دیتا ہے حتی کہ (اس طرح ہوتے ہوئے) آخری ساحر یا کاہن کی زبان تک پہنچا دیتا ہے، اور بسا اوقات شیطان کے پہنچانے سے پہلے پہلے شہاب ثاقب اسے لگ جاتا ہے اور کبھی شہاب ثاقب کے اس تک پہنچنے سے قبل وہ القا کر دیتا ہے اور وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر بتاتا ہے چنانچہ کہا جاتا، کیا اس نے فلاں وقت اس طرح اس طرح نہیں کہا تھا، اس کلمہ کی وجہ سے، جو آسمان سے سنا گیا تھا، تصدیق ہو جاتی ہے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (4800)»
وعن ابن عباس قال: اخبرني رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم من الانصار: انهم بينا جلوس ليلة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم رمي بنجم واستنار فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما كنتم تقولون في الجاهلية إذا رمي بمثل هذا؟» قالوا: الله ورسوله اعلم كنا نقول: ولد الليلة رجل عظيم ومات رجل عظيم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فإنها لا يرمى بها لموت احد ولا لحياته ولكن ربنا تبارك اسمه إذا قضى امر سبح حملة العرش ثم سبح اهل السماء الذين يلونهم حتى يبلغ التسبيح اهل هذه السماء الدنيا ثم قال الذي يلون حملة العرش لحملة العرش: ماذا قال ربكم؟ فيخبرونهم ما قال: فيستخبر بعض اهل السماوات بعضا حتى يبلغ هذه السماء الدنيا فيخطف الجن السمع فيقذفون إلى اوليائهم ويرمون فما جاؤوا به على وجهه فهو حق ولكنهم يقرفون فيه ويزيدون. رواه مسلم وَعَن ابنِ عبَّاسٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَنْصَارِ: أَنَّهُمْ بَيْنَا جُلُوسٌ لَيْلَةً مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُمِيَ بِنَجْمٍ وَاسْتَنَارَ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا رُمِيَ بِمِثْلِ هَذَا؟» قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ كُنَّا نَقُولُ: وُلِدَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ عَظِيمٌ وَمَاتَ رَجُلٌ عَظِيمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَإِنَّهَا لَا يُرْمَى بِهَا لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّ رَبَّنَا تَبَارَكَ اسْمُهُ إِذَا قَضَى أَمر سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ حَتَّى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ أَهْلَ هَذِهِ السَّمَاء الدُّنْيَا ثمَّ قَالَ الَّذِي يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ فَيُخْبِرُونَهُمْ مَا قَالَ: فَيَسْتَخْبِرُ بَعْضُ أَهْلِ السَّمَاوَاتِ بَعْضًا حَتَّى يَبْلُغَ هَذِهِ السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَيَخْطَفُ الْجِنُّ السَّمْعَ فَيَقْذِفُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ وَيُرْمَوْنَ فَمَا جاؤوا بِهِ عَلَى وَجْهِهِ فَهُوَ حَقٌّ وَلَكِنَّهُمْ يَقْرِفُونَ فِيهِ وَيزِيدُونَ. رَوَاهُ مُسلم
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انصار صحابہ میں سے ایک صحابی نے مجھے بیان کیا کہ اس اثنا میں کہ ایک رات ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ستارہ ٹوٹا اور روشن ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جب دورِ جاہلیت میں اس طرح ستارہ ٹوٹتا تھا تو تم کیا کہا کرتے تھے؟“ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، تاہم یہ کہا کرتے تھے اس رات کوئی عظیم آدمی پیدا ہوا ہے یا کوئی عظیم آدمی فوت ہوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ستارہ نہ کسی کی موت پر ٹوٹتا ہے اور نہ کسی کی حیات پر، لیکن جب ہمارا رب، بابرکت ہے نام اس کا، کوئی فیصلہ فرماتا ہے تو حاملین عرش تسبیح بیان کرتے ہیں، بعد ازاں ان سے قریب آسمان والے فرشتے سبحان اللہ کہتے ہیں یہاں تک کہ تسبیح کی یہ آواز آسمان دنیا کے فرشتوں تک پہنچ جاتی ہے، پھر وہ فرشتے جو عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کے قریب ہوتے ہیں وہ حاملینِ عرش سے کہتے ہیں، تمہارے رب نے کیا کہا ہے؟ تو وہ انہیں بتاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے کہا ہوتا ہے، آسمان والے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، حتی کہ خبر آسمان دنیا تک پہنچ جاتی ہے چنانچہ شیاطین اس بات کو اچک لیتے ہیں، اور وہ اپنے ساتھیوں کو القا کر دیتے ہیں، اور اسی دوران انہیں انگارے مارے جاتے ہیں، جو خبر وہ اصل شکل میں القا کر دیتے ہیں وہ تو حق اور درست ہوتی ہے، لیکن وہ اس میں اور ملا لیتے ہیں، اور اضافہ کر لیتے ہیں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2229/124)»
وعن قتادة قال: خلق الله تعالى هذه النجوم لثلاث جعلها زينة للسماء ورجوما للشياطين وعلامات يهتدى بها فمن تاول فيها بغير ذلك اخطا واضاع نصيبه وتكلف مالا يعلم. رواه البخاري تعليقا وفي رواية رزين: «تكلف مالا يعنيه ومالا علم له به وما عجز عن علمه الانبياء والملائكة» وَعَن قتادةَ قَالَ: خلقَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِه النجومَ لثلاثٍ جَعَلَهَا زِينَةً لِلسَّمَاءِ وَرُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ وَعَلَامَاتٍ يُهْتَدَى بهَا فَمن تأوَّلَ فِيهَا بِغَيْرِ ذَلِكَ أَخَطَأَ وَأَضَاعَ نَصِيبَهُ وَتَكَلَّفَ مَالا يَعْلَمُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ تَعْلِيقًا وَفِي رِوَايَةِ رَزِينٍ: «تكلّف مَالا يعنيه ومالا عِلْمَ لَهُ بِهِ وَمَا عَجَزَ عَنْ عِلْمِهِ الْأَنْبِيَاء وَالْمَلَائِكَة»
قتادہ ؒ بیان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے یہ ستارے تین مقاصد کے لیے پیدا فرمائے ہیں، انہیں آسمان کے لیے باعث زینت بنایا، شیاطین کے لیے مار اور علامت و نشانات جن کے ذریعے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ جس نے ان کے علاوہ کچھ اور بیان کیا اس نے غلطی کی، اپنا حصہ (عمر) ضائع کیا اور ایسی چیز کا تکلف کیا جو وہ نہیں جانتا۔ امام بخاری ؒ نے اسے معلق روایت کیا ہے۔ اور رزین کی روایت میں ہے، اور اس نے ایسی چیز کا تکلف کیا جو نہ تو اس کے متعلق ہے اور نہ اسے اس کا علم ہے اور جس کے علم سے انبیا ؑ اور فرشتے بھی عاجز ہیں۔ رواہ البخاری و رزین۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (کتاب بدء الخلق باب 3، بعد ح 3198) و رزين (لم أجده) [ورواه ابن حجر في تغليق التعليق (489/3) وسنده صحيح] ٭ وقوله ’’ما لا علم له به‘‘ صحيح.»
قال الشيخ زبير على زئي: رواه البخاري (کتاب بدء الخلق باب 3، بعد ح 3198)
وعن الربيع مثله وزاد: والله ما جعل الله في نجم حياة احد ولا رزقه ولا موته وإنما يفترون على الله الكذب ويتعللون بالنجوم وَعَن الربيعِ مِثْلُهُ وَزَادَ: وَاللَّهِ مَا جَعَلَ اللَّهُ فِي نَجْمٍ حَيَاةَ أَحَدٍ وَلَا رِزْقَهُ وَلَا مَوْتَهُ وَإِنَّمَا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَيَتَعَلَّلُونَ بِالنُّجُومِ
ربیع سے بھی اسی طرح مروی ہے، نیز انہوں نے یہ اضافہ نقل کیا ہے، اللہ کی قسم! اللہ نے کسی ستارے میں نہ تو کسی کی زندگی رکھی ہے اور نہ اس کا رزق رکھا ہے اور نہ اس کی موت رکھی ہے، وہ تو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور ستاروں کا فقط بہانہ بناتے ہیں۔ لم اجدہ، رواہ رزین۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «لم أجده، رواه رزين (لم أجده)»