وعن ابي قتادة انه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم إن لي جمة افارجلها؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نعم واكرمها» قال: فكان ابو قتادة ربما دهنها في اليوم مرتين من اجل قول رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نعم واكرمها» . رواه مالك وَعَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لِي جُمَّةً أَفَأُرَجِّلُهَا؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ وَأَكْرِمْهَا» قَالَ: فَكَانَ أَبُو قَتَادَةَ رُبَّمَا دَهَنَهَا فِي الْيَوْمِ مَرَّتَيْنِ مِنْ أَجْلِ قَوْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نِعْمَ وَأَكْرمهَا» . رَوَاهُ مَالك
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا، میرے بال لمبے (کندھوں تک) ہیں، کیا میں ان میں کنگھی کر لیا کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اور انہیں سنوار کر رکھ۔ “ راوی نے کہا، اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول کی وجہ سے کہ ”بالوں کو سنوار کر رکھو۔ “ دن میں دو مرتبہ بالوں کو تیل لگایا کرتے تھے۔ ضعیف، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه مالک (949/2 ح 1833) ٭ يحيي بن سعيد الأنصاري لم يدرک أبا قتادة رضي الله عنه، فالسند منقطع و للحديث شواھد ضعيفة عند النسائي (184/8 ح 5239) وغيره و في الباب حديث صحيح: يخالفه، عند النسائي (5061)»
وعن الحجاح بن حسان قال دخلنا على انس بن مالك فحدثتني اختي المغيرة قالت: وانت يومئذ غلام ولك قرنان او قصتان فمسح راسك وبرك عليك وقال: «احلقوا هذين او قصوهما فإن هذا زي اليهود» . رواه ابو داود وَعَن الحجاح بْنِ حَسَّانَ قَالَ دَخَلْنَا عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالك فَحَدَّثَتْنِي أُخْتِي الْمُغِيرَةُ قَالَتْ: وَأَنْتَ يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ وَلَكَ قَرْنَانِ أَوْ قُصَّتَانِ فَمَسَحَ رَأْسَكَ وَبَرَّكَ عَلَيْكَ وَقَالَ: «احْلِقُوا هَذَيْنِ أَوْ قُصُّوهُمَا فَإِنَّ هَذَا زِيُّ الْيَهُود» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
حجاج بن حسان ؒ بیان کرتے ہیں، ہم انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، میری بہن مغیرہ نے مجھے بتایا کہ تم ان دنوں چھوٹے بچے تھے اور تمہاری دو مینڈھیاں تھیں، انہوں نے تمہارے سر پر ہاتھ پھیرا، برکت کی دعا کی اور فرمایا: ان دونوں کو مونڈ دو یا انہیں کتر دو کیونکہ یہ یہود کی زینت و عادت ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4197) ٭ مغيرة بنت حسان: لم أجد من وثقھا.»
وعن علي قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تحلق المراة راسها. رواه النسائي وَعَنْ عَلِيٍّ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَحْلِقَ الْمَرْأَةُ رَأْسَهَا. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کو اپنے سر کے بال مونڈنے سے منع فرمایا۔ حسن، رواہ النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه النسائي (130/8 ح 5052) [و الترمذي (914. 915)]»
وعن عطاء بن يسار قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد فدخل رجل ثائر الراس واللحية فاشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده كانه يامره بإصلاح شعره ولحيته ففعل ثم رجع فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اليس هذا خيرا من ان ياتي احدكم وهو ثائر الراس كانه شيطان» . رواه مالك وَعَن عطاءِ بن يسارٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فَدَخَلَ رَجُلٌ ثَائِرُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ كَأَنَّهُ يَأْمُرُهُ بِإِصْلَاحِ شَعْرِهِ وَلِحْيَتِهِ فَفَعَلَ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَيْسَ هَذَا خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ ثَائِرُ الرَّأْسِ كَأَنَّهُ شَيْطَان» . رَوَاهُ مَالك
عطا بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی آیا جس کے سر اور داڑھی کے بال پراگندہ تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس کی طرف اشارہ فرمایا، گویا آپ اسے اپنے بال اور داڑھی سنوارنے کا حکم فرما رہے ہیں، اس نے ویسے ہی کر لیا اور پھر وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس سے بہتر ہے کہ تم میں سے کوئی اس حال میں آئے کہ اس کے سر کے بال پراگندہ ہوں گویا وہ شیطان ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ املک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه مالک (949/2 ح 1834) ٭ السند مرسل.»
وعن ابن المسيب سمع يقول: إن الله طيب يحب الطيب نظيف يحب النظافة كريم يحب الكرم جواد يحب الجود فنظفوا اراه قال: افنيتكم ولا تشبهوا باليهود قال: فذكرت ذلك لمهاجرين مسمار فقال: حدثنيه عا ر بن سعد عن ابيه عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله إلا انه قال: «نظفوا افنيتكم» . رواه الترمذي وَعَن ابنِ الْمسيب سُمِعَ يَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ يُحِبُّ الطِّيبَ نَظِيفٌ يُحِبُّ النَّظَافَةَ كَرِيمٌ يُحِبُّ الْكَرَمَ جَوَادٌ يُحِبُّ الْجُودَ فَنَظِّفُوا أُرَاهُ قَالَ: أَفْنِيَتَكُمْ وَلَا تشبَّهوا باليهود قَالَ: فذكرتُ ذَلِك لمهاجرين مِسْمَارٍ فَقَالَ: حَدَّثَنِيهِ عَا ِرُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: «نَظِّفُوا أَفْنِيتَكُمْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابن مسیّب سے روایت ہے، انہیں کہتے ہوئے سنا گیا کہ ”اللہ پاک ہے وہ (اپنے بندوں سے) صفائی و خوشبو پسند کرتا ہے، وہ نظیف ہے نظافت کو پسند کرتا ہے، وہ کریم ہے کرم کو پسند کرتا ہے، وہ سخی داتا ہے سخاوت کرنے کو پسند کرتا ہے، میرا خیال ہے آپ نے فرمایا: تم اپنے صحنوں کو صاف ستھرا رکھو، اور یہود کی نقل مت اتارو۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، میں نے مہاجرین مسمار سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا: عامر بن سعد نے اسے اپنے والد کے واسطے سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی طرح بیان کیا مگر انہوں نے کہا: ”اپنے صحن صاف رکھو۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (2799 وقال: غريب) ٭ فيه خالد بن إلياس: متروک الحديث.»
وعن ي حيى بن سعيد انه سمع سعيد بن المسيب يقول: كان إبراهيم خليل الرحمن اول الناس ضيف الضيف واول الناس اختتن واول الناس قص شاربه واول الناس راى الشيب فقال: يا رب: ما هذا؟ قال الرب تبارك وتعالى: وقار يا إبراهيم قال: رب زدني وقارا. رواه مالك وَعَنْ ي حْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ يَقُولُ: كَانَ إِبْرَاهِيمُ خَلِيلُ الرَّحْمَنِ أوَّلَ النَّاس ضيَّف الضَّيْف وَأَوَّلَ النَّاسِ اخْتَتَنَ وَأَوَّلَ النَّاسِ قَصَّ شَارِبَهُ وَأَوَّلَ النَّاسِ رَأَى الشَّيْبَ فَقَالَ: يَا رَبِّ: مَا هَذَا؟ قَالَ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: وَقَارٌ يَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ: رَبِّ زِدْنِي وَقَارًا. رَوَاهُ مَالك
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے سعید بن مسیّب کو بیان کرتے ہوئے سنا، ابراہیم خلیل الرحمن سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے مہمان نوازی کی، انہوں نے سب سے پہلے ختنہ کیا، سب سے پہلے اپنی مونچھیں کتریں، سب سے پہلے بڑھاپا دیکھا تو عرض کیا، اے میرے رب! یہ کیا ہے؟ رب تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ابراہیم! وقار ہے۔ عرض کیا، اے میرے رب! میرے وقار میں اضافہ فرما۔ صحیح، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه مالک (922/2 ح 1775) ٭ السند صحيح إلي سعيد بن المسيب رحمه الله و ھذا من قوله و لم يخبر من حدثه ولعله من الاسرائيليات: أحاديث بني إسرائيل، والله أعلم.»
عن ابي طلحة قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا تصاوير» عَن أبي طَلْحَة قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا تصاوير»
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس گھر میں کتے اور تصاویر ہوں اس میں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5949) و مسلم (2106/83)»
وعن ابن عباس عن ميمونة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اصبح يوما واجما وقال: «إن جبريل كان وعدني ان يلقاني الليلة فلم يلقني ام والله ما اخلفني» . ثم وقع في نفسه جرو كلب تحت فسطاط له فامر به فاخرج ثم اخذ بيده ماء فنضح مكانه فلما امسى لقيه جبريل فقال: «لقد كنت وعدتني ان تلقاني البارحة» . قال: اجل ولكنا لا ندخل بيتا فيه كلب ولا صورة فاصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ فامر بقتل الكلاب حتى إنه يامر بقتل الكلب الحائط الصغير ويترك كلب الحائط الكبير. رواه مسلم وَعَن ابنِ عبَّاسٍ عَنْ مَيْمُونَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أصبحَ يَوْمًا واجماً وَقَالَ: «إِنَّ جِبْرِيلَ كَانَ وَعَدَنِي أَنْ يَلْقَانِيَ اللَّيْلَةَ فَلَمْ يَلْقَنِي أَمَ وَاللَّهِ مَا أَخْلَفَنِي» . ثُمَّ وَقَعَ فِي نَفْسِهِ جِرْوُ كَلْبٍ تَحْتَ فُسْطَاطٍ لَهُ فَأَمَرَ بِهِ فَأُخْرِجَ ثُمَّ أَخَذَ بيدِه مَاء فنضحَ مَكَانَهُ فَلَمَّا أَمْسَى لقِيه جِبْرِيلَ فَقَالَ: «لَقَدْ كُنْتَ وَعَدْتَنِي أَنْ تَلْقَانِي الْبَارِحَةَ» . قَالَ: أَجَلْ وَلَكِنَّا لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ فَأَصْبَحَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ فَأَمَرَ بِقَتْلِ الْكلاب حَتَّى إِنه يَأْمر بقتل الْكَلْب الْحَائِطِ الصَّغِيرِ وَيَتْرُكُ كَلْبَ الْحَائِطِ الْكَبِيرِ. رَوَاهُ مُسلم
ابن عباس رضی اللہ عنہ، میمونہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غمگین ہو گئے اور فرمایا: ”جبریل ؑ نے رات کے وقت مجھ سے ملاقات کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ نہیں آئے، آگاہ رہو کہ اللہ کی قسم! اس نے مجھ سے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی۔ “ پھر آپ کے دل میں خیال آیا کہ آپ کی چارپائی کے نیچے کتے کا چھوٹا سا بچہ ہے۔ آپ نے اس کے متعلق حکم فرمایا: اسے نکال دیا جائے، چنانچہ اسے نکال دیا گیا، پھر آپ نے ہاتھ میں پانی لے کر اس جگہ چھڑک دیا، پھر جب شام ہوئی تو جبریل ؑ آپ سے ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے کل مجھ سے ملاقات کرنے کا وعدہ کیا تھا؟“ انہوں نے عرض کیا: ٹھیک ہے، لیکن ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا اور تصویر ہو، اگلے روز صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتے مارنے کا حکم فرما دیا حتی کہ چھوٹے باغوں کے کتے بھی مار دیے جائیں البتہ بڑے باغوں کے کتے چھوڑ دینے (یعنی نہ مارنے) کا حکم فرمایا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2105/82)»
وعن عائشة رضي الله عنها ان النبي صلى الله عليه وسلم لم يكن يترك في بيته شيئا فيه تصاليب إلا نقضه. رواه البخاري وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَتْرُكُ فِي بَيْتِهِ شَيْئًا فِيهِ تَصَالِيبُ إِلَّا نَقَضَهُ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر میں ایسی کوئی چیز نہیں چھوڑتے تھے جس پر تصویر ہوتی تھی۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (5952)»
وعنها انها اشترت نمرقة فيها تصاوير فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم قام على الباب فلم يدخل فعرفت في وجهه الكراهية قالت: فقلت: يا رسول الله اتوب إلى الله وإلى رسوله ما اذنبت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما بال هذه النمرقة؟» قلت: اشتريتها لك لتقعد عليها وتوسدها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن اصحاب هذه الصور يعذبون يوم القيامة ويقال لهم: احيوا ما خلقتم. وقال: «إن البيت الذي فيه الصورة لا تدخله الملائكة» وَعَنْهَا أَنَّهَا اشْتَرَتْ نُمْرُقَةً فِيهَا تَصَاوِيرُ فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ عَلَى الْبَابِ فَلَمْ يَدْخُلْ فَعَرَفْتُ فِي وَجْهِهِ الْكَرَاهِيَةَ قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أتوبُ إِلى الله وإِلى رَسُوله مَا أذنبتُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَالُ هَذِهِ النُّمْرُقَةِ؟» قُلْتُ: اشْتَرَيْتُهَا لَكَ لِتَقْعُدَ عَلَيْهَا وَتَوَسَّدَهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَصْحَابَ هَذِهِ الصُّوَرِ يُعَذَّبُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيُقَالُ لَهُمْ: أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ. وَقَالَ: «إِنَّ الْبَيْتَ الَّذِي فِيهِ الصُّورَةُ لَا تدخله الْمَلَائِكَة»
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک چھوٹا سا تکیہ خریدا جس پر تصویریں تھیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دیکھا تو آپ دروازے پر کھڑے ہو گئے اور اندر تشریف نہ لائے، میں نے آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے، وہ بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں (اپنی غلطی سے) اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرتی ہوں، میں نے غلطی کیا کی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تکیہ کیسا ہے؟“ میں نے عرض کیا، میں نے اسے آپ کے لیے خریدا ہے تا کہ آپ اس پر تشریف فرما ہوں اور اس پر ٹیک لگائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ان تصویروں والوں کو روزِ قیامت عذاب دیا جائے گا، انہیں کہا جائے گا، تم نے جو تخلیق کیا اسے زندہ کرو۔ “ اور فرمایا: ”بے شک وہ گھر جس میں تصویر ہو وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5961) و مسلم (2107/96)»