وعن ام سلمة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إنما انا بشر وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم ان يكون الحن بحجته من بعض فاقضي له على نحو ما اسمع منه فمن قضيت له بشيء من حق اخيه فلا ياخذنه فإنما اقطع له قطعة من النار» وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِي لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ مِنْهُ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِشَيْءٍ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ فَلَا يَأْخُذَنَّهُ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّار»
ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی ایک انسان ہوں، تم اپنے مقدمات میرے پاس لاتے ہو۔ اور ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی دلیل دوسرے کی نسبت زیادہ فصاحت کے ساتھ پیش کر لے اور میں جو اس سے سنوں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، جس شخص کو اس کے (مسلمان) بھائی کے حق میں سے کوئی چیز دے دی جائے تو وہ اسے حاصل نہ کرے، (گویا اس طرح) میں اسے (جہنم کی) آگ کا ایک ٹکڑا دے رہا ہوں۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6967) و مسلم (1713/4)»
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن ابغض الرجال إلى الله الالد الخصم» وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَبْغَضَ الرِّجَالِ إِلَى اللَّهِ الْأَلَدُّ الخَصِمُ»
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سخت جھگڑالو شخص اللہ کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ شخص ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2457) و مسلم (2668/5)»
وعن ابن عباس: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى بيمين وشاهد. رواه مسلم وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم قضى بِيَمِين وَشَاهد. رَوَاهُ مُسلم
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم اور ایک گواہ کے ساتھ فیصلہ کیا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1712/3)»
وعن علقمة بن وائل عن ابيه قال: جاء رجل من حضرموت ورجل من كندة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال الحضرمي: يا رسول الله إن هذا غلبني على ارض لي فقال الكندي: هي ارضي وفي يدي ليس له فيها حق فقال النبي صلى الله عليه وسلم للحضرمي: «الك بينة؟» قال: لا قال: «فلك يمينه» قال: يا رسول الله إن الرجل فاجر لا يبالي على ما حلف عليه وليس يتورع من شيء قال: «ليس لك منه إلا ذلك» . فانطلق ليحلف فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لما ادبر: «لئن حلف على ماله لياكله ظلما ليلقين الله وهو عنه معرض» . رواه مسلم وَعَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ وَرَجُلٌ مِنْ كِنْدَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الْحَضْرَمِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ هَذَا غَلَبَنِي عَلَى أَرْضٍ لِي فَقَالَ الْكِنْدِيُّ: هِيَ أَرْضِي وَفِي يَدِي لَيْسَ لَهُ فِيهَا حَقٌّ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَضْرَمِيِّ: «أَلَكَ بَيِّنَةٌ؟» قَالَ: لَا قَالَ: «فَلَكَ يَمِينُهُ» قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الرَّجُلَ فَاجِرٌ لَا يُبَالِي عَلَى مَا حَلَفَ عَلَيْهِ وَلَيْسَ يَتَوَرَّعُ منْ شيءٍ قَالَ: «ليسَ لكَ مِنْهُ إِلَّا ذَلِكَ» . فَانْطَلَقَ لِيَحْلِفَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَدْبَرَ: «لَئِنْ حَلَفَ عَلَى مَالِهِ لِيَأْكُلَهُ ظُلْمًا لَيَلْقَيَنَّ اللَّهَ وَهُوَ عَنهُ معرض» . رَوَاهُ مُسلم
علقمہ بن وائل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ایک آدمی حضر موت سے اور ایک آدمی کندہ سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ح��ضر ہوا تو حضرمی نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اس شخص نے میری زمین پر قبضہ کر لیا ہے، کندی نے عرض کیا: یہ زمین میری ہے اور میرے قبضہ میں ہے، اس کا اس پر کوئی حق نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرمی سے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے؟“ اس نے عرض کیا، نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس سے قسم لے لو۔ “ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ تو ایک فاجر شخص ہے، وہ قسم کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ہے اور نہ کسی چیز سے پرہیز کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں اس سے یہی کچھ مل سکتا ہے۔ “ جب وہ (کندی) قسم کھانے چلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس نے اس کا ناحق مال کھانے کے لیے قسم اٹھائی تو یہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس سے اعراض فرمائے گا۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (139/223)»
وعن ابي ذر رضي الله عنه انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من ادعى ما ليس له فليس منا وليتبوا مقعده من النار» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنِ ادَّعَى مَا لَيْسَ لَهُ فَلَيْسَ مِنَّا وَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے کسی ایسی چیز کا دعوی کیا جو کہ اس کی نہیں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (61/112)»
وعن زيد بن خالد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الا اخبركم بخير الشهداء؟ الذي ياتي بشهادته قبل ان يسالها» . رواه مسلم وَعَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ الشُّهَدَاءِ؟ الَّذِي يَأْتِي بشهادتِه قبلَ أنْ يسْأَلهَا» . رَوَاهُ مُسلم
زید بن خالد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں بہترین گواہ کے متعلق نہ بتاؤں؟ یہ وہ ہے جو اس (گواہی) کے طلب کیے جانے سے پہلے اپنی گواہی پیش کر دے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1719/19)»
وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يجيء قوم تسبق شهادة احدهم يمينه ويمينه شهادته» وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ تَسبِقُ شَهَادَة أحدِهمْ يَمِينه وَيَمِينه شَهَادَته»
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرے دور کے لوگ (صحابہ کرام) سب سے بہتر ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں (تابعین)۔ اور پھر وہ جو ان کے ساتھ ہیں، پھر کچھ ایسے لوگ آئیں گے کہ ان میں سے کسی کی گواہی اس کی قسم پر اور اس کی قسم اس کی گواہی پر سبقت لے جائے گی۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3651) و مسلم (2533/212)»
وعن ابي هريرة رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم عرض على قوم اليمين فاسرعوا فامر ان يسهم بينهم في اليمين ايهم يحلف. رواه البخاري وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَضَ عَلَى قَوْمٍ الْيَمِينَ فَأَسْرَعُوا فَأَمْرَ أَنْ يُسْهَمَ بَيْنَهُمْ فِي اليَمينِ أيُّهُمْ يحْلِفُ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قوم پر قسم پیش کی تو انہوں نے (قسم اٹھانے میں) جلدی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ قسم کے بارے میں ان کے درمیان قرعہ اندازی کی جائے کہ ان میں سے کون حلف اٹھائے گا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2674)»
عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه» . رواه الترمذي عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِي وَالْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”گواہ پیش کرنا مدعی کے ذمہ ہے اور قسم مدعی علیہ کے ذمہ ہے۔ “ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (1341) [وله شواھد]»
وعن ام سلمة رضي الله عنها عن النبي صلى الله عليه وسلم: في رجلين اختصما إليه في مواريث لم تكن لهما بينة إلا دعواهما فقال: «من قضيت له بشيء من حق اخيه فإنما اقطع له قطعة من النار» . فقال الرجلان: كل واحد منهما: يا رسول الله حقي هذا لصاحبي فقال: «لا ولكن اذهبا فاقتسما وتوخيا الحق ثم استهما ثم ليحلل كل واحد منكما صاحبه» . وفي رواية قال: «إنما اقضي بينكما برايي فيما لم ينزل علي فيه» . رواه ابو داود وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِي رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَيْهِ فِي مَوَارِيثَ لَمْ تَكُنْ لَهُمَا بَيِّنَةٌ إِلَّا دَعْوَاهُمَا فَقَالَ: «مَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِشَيْءٍ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ» . فَقَالَ الرَّجُلَانِ: كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ حَقِّي هَذَا لِصَاحِبِي فَقَالَ: «لَا وَلَكِنِ اذْهَبَا فَاقْتَسِمَا وَتَوَخَّيَا الْحَقَّ ثُمَّ اسْتَهِمَا ثُمَّ لْيُحَلِّلْ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْكُمَا صَاحِبَهُ» . وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ: «إِنَّمَا أَقْضِي بَيْنَكُمَا برأيي فِيمَا لم يُنزَلْ عليَّ فِيهِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ام سلمہ رضی اللہ عنہ دو آدمیوں کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتی ہیں، جنہوں نے میراث کے متعلق آپ کی خدمت میں مقدمہ پیش کیا، ان دونوں کے پاس کوئی دلیل و گواہی نہیں تھی۔ ان دونوں کا محض دعوی ہی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں جس شخص کو اس کے (مسلمان) بھائی کے حق میں سے کچھ دے دوں تو (حقیقت میں) میں اسے (جہنم کی) آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔ “(یہ سن کر) دونوں میں ہر ایک عرض کرنے لگا، اللہ کے رسول! میرا یہ حق میرے ساتھی کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”(ایسے) نہیں، تم دونوں جاؤ اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے تقسیم کر لو، پھر دونوں قرعہ اندازی کرو پھر تم دونوں میں سے ہر ایک اپنا حصہ اپنے ساتھی کے لیے حلال قرار دے۔ “ دوسری روایت میں ہے فرمایا: ”اس چیز کے بارے میں مجھ پر کوئی چیز نازل نہیں ہوئی اس لیے میں تمہارے درمیان اپنی رائے سے فیصلہ کرتا ہوں۔ “ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (3584، 3585)»