وعن فضالة بن عبيد قال: اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بسارق فقطعت يده ثم امر بها فعلقت في عنقه. رواه الترمذي وابو داود والنسائي وابن ماجه وَعَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ: أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بسارقٍ فقُطِعَتْ يَدَهُ ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَعُلِّقَتْ فِي عُنُقِهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ
فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک چور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے متعلق حکم فرمایا تو اسے اس کی گردن میں لٹکا دیا گیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1447 وقال: حسن غريب) و أبو داود (4411) و النسائي (92/8 ح4985، 4986 وقال: الحجاج بن أرطاة ضعيف لا يحتج به) و ابن ماجه (2587) ٭ حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس و عنعن.»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا سرق المملوك فبعه ولو بنش» . رواه ابو داود والنسائي وابن ماجه وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا سَرَقَ الْمَمْلُوكُ فَبِعْهُ وَلَوْ بِنَشٍّ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْن مَاجَه
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب غلام چوری کرے تو اسے بیچ دو خواہ ایک ”نش“(بیس درہم) ہی ملے۔ “ حسن، رواہ ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (4412) و النسائي (91/8 ح 4983) و ابن ماجه (2589)»
عن عائشة قالت: اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بسارق فقطعه فقالوا: ما كنا نراك تبلغ به هذا قال: «لو كانت فاطمة لقطعتها» . رواه النسائي عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَارِقٍ فَقَطَعَهُ فَقَالُوا: مَا كُنَّا نَرَاكَ تَبْلُغُ بِهِ هَذَا قَالَ: «لَوْ كانتْ فاطمةُ لقطعتَها» . رَوَاهُ النَّسَائِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، ایک چور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا، تو انہوں (صحابہ) نے عرض کیا، ہمارا آپ کے متعلق یہ گمان نہیں تھا کہ آپ اس کے متعلق یہ کچھ کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر (بفرضِ محال) فاطمہ رضی اللہ عنہ بھی ہوتیں تو میں (بلا تفریق) ان کا ہاتھ بھی کاٹتا۔ “ صحیح، رواہ النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه النسائي (72/8 ح 4900) [و أصله في صحيح البخاري (3733)]»
وعن ابن عمر قال: جاء رجل إلى عمر بغلام له فقال: اقطع يده فإنه سرق مرآة لامراتي فقال عمر رضي الله عنه: لا قطع عليه وهو خادمكم اخذ متاعكم. رواه مالك وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بِغُلَامٍ لَهُ فَقَالَ: اقْطَعْ يَدَهُ فَإِنَّهُ سرقَ مرآةَ لأمرأتي فَقَالَ عمَرُ رَضِي اللَّهُ عَنهُ: لَا قَطْعَ عَلَيْهِ وَهُوَ خَادِمُكُمْ أَخَذَ مَتَاعَكُمْ. رَوَاهُ مَالك
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی اپنا غلام لے کر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو اس نے کہا: اس کا ہاتھ کاٹ ڈالیں کیونکہ اس نے میری اہلیہ کا آئینہ چرا لیا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس پر قطع نہیں اور وہ تمہارا خادم ہے، اس نے تمہارا سامان اٹھا لیا ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه مالک (839/2. 840 ح 1629) ٭ ابن شھاب الزهري: مدلس و عنعن و مع ذلک صححه الحافظ ابن کثير في مسند الفاروق (511/2)! و له لون آخر عند الدارقطني (188/3 ح 3378)»
وعن ابي ذر قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا ابا ذر» قلت: لبيك يا رسول الله وسعديك قال: «كيف انت إذا اصاب الناس موت يكون البيت فيه بالوصيف» يعني القبر قلت: الله ورسوله اعلم. قال: «عليك بالصبر» قال حماد بن ابي سليمان: تقطع يد النباش لانه دخل على الميت بيته. رواه ابو داود وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ قَالَ: «كَيْفَ أَنْتَ إِذَا أَصَابَ النَّاسَ مَوْتٌ يَكُونُ الْبَيْتُ فِيهِ بِالْوَصِيفِ» يَعْنِي الْقَبْرَ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «عَلَيْكَ بِالصَّبْرِ» قَالَ حمَّادُ بنُ أبي سُليمانَ: تُقْطَعُ يَدُ النَّبَّاشِ لِأَنَّهُ دَخَلَ عَلَى الْمَيْتِ بيتَه. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر!“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں، اسی میں میری سعادت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری اس وقت کیا حالت ہو گی جب لوگ کثرت سے موت کا شکار ہوں گے اور اس وقت قبر غلام کے عوض ملے گی؟“ میں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم صبر کرنا۔ “ حماد بن ابی سلیمان نے کہا: کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ میت پر اس کے گھر میں داخل ہوا ہے۔ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه أبو داود (1497، 4909) ٭ حبيب بن أبي ثابت مدلس و عنعن و للحديث شاھد ضعيف عند أحمد (215/6)»
عن عائشة رضي الله عنها ان قريشا اهمهم شان المراة المخزومية التي سرقت فقالوا: من يكلم فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالوا: ومن يجترئ عليه إلا اسامة بن زيد حب رسول الله صلى الله عليه وسلم فكلمه اسامة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اتشفع في حد من حدود الله؟» ثم قام فاختطب ثم قال: «إنما اهلك الذين قبلكم انهم كانوا إذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق فيهم الضعيف اقاموا عليه الحد وايم الله لو ان فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها» . متفق عليه. وفي رواية لمسلم: قالت: كانت امراة مخزومية تستعير المتاع وتجحده فامر النبي صلى الله عليه وسلم بقطع يدها فاتى اهلها اسامة فكلموه فكلم رسول الله صلى الله عليه وسلم بقطع يدها فاتى اهلها اسامة فكلموه فكلم رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها ثم ذكر الحديث بنحو ما تقدم عَن عائشةَ رَضِي الله عَنْهَا أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ فَقَالُوا: مَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالُوا: وَمَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ؟» ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ: «إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي روايةٍ لمسلمٍ: قالتْ: كانتِ امرأةٌ مخزوميَّةٌ تَسْتَعِيرُ الْمَتَاعَ وَتَجْحَدُهُ فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَطْعِ يَدِهَا فَأَتَى أَهْلُهَا أُسَامَةَ فَكَلَّمُوهُ فَكَلَّمَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَطْعِ يَدِهَا فَأَتَى أَهْلُهَا أُسَامَةَ فَكَلَّمُوهُ فَكَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا ثمَّ ذكرَ الحديثَ بنحوِ مَا تقدَّمَ
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مخزومیہ عورت، جس نے چوری کی تھی، کے واقعہ نے قریشیوں کو غمزدہ کر دیا تو انہوں نے کہا: اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کون سفارش کرے؟ پھر انہوں نے کہا: یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہیتے صرف اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ ہی کر سکتے ہیں۔ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سفارش کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟“ پھر آپ کھڑے ہوئے، خطبہ ارشاد فرمایا، پھر فرمایا: ”تم سے پہلے لوگ صرف اسی وجہ سے ہلاک کر دیے گئے کہ جب ان میں سے خاندانی شخص چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور شخص چوری کرتا تو وہ اس پر حد قائم کر دیتے، اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہ) بھی چوری کرتیں تو میں ان کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ “ بخاری، مسلم۔ اور مسلم کی روایت میں ہے، عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ایک مخزومیہ عورت (فاطمہ بنت اسود) تھی جو عاریۃً چیزیں لیا کرتی تھی اور پھر ان کی واپسی کا انکار کر دیا کرتی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا تو اس کے خاندان والے اسامہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہوں نے ان سے بات کی اور اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سفارش کی، پھر امام مسلم نے حدیث مذکورہ کے مطابق حدیث بیان کی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3475) و مسلم (1688/8)»
عن عبد الله بن عمر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من حالت شفاعته دون حد من حدود الله فقد ضاد الله ومن خاصم في باطل وهو يعلمه لم يزل في سخط اله تعالى حتى ينزع ومن قال في مؤمن ما ليس فيه اسكنه الله ردغة الخبال حتى يخرج مما قال» . رواه احمد وابو داود وفي رواية للبيهقي في شعب الإيمان «من اعان على خصومة لا يدري احق ام باطل فهو في سخط الله حتى ينزع» عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول: «مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُهُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ فَقَدَ ضَادَّ اللَّهَ وَمَنْ خَاصَمَ فِي بَاطِلٍ وَهُوَ يَعْلَمُهُ لَمْ يَزَلْ فِي سُخْطِ اله تَعَالَى حَتَّى يَنْزِعَ وَمَنْ قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ أَسْكَنَهُ اللَّهُ رَدْغَةَ الْخَبَالِ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُد وَفِي روايةٍ للبيهقيِّ فِي شعبِ الْإِيمَان «مَنْ أَعانَ على خُصُومَةً لَا يَدْرِي أَحَقٌّ أَمْ بَاطِلٌ فَهُوَ فِي سَخطِ اللَّهِ حَتَّى ينْزع»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص کی سفارش اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے نفاذ کے آگے حائل ہو گئی تو اس نے اللہ کی مخالفت کی، جس نے جانتے ہوئے کسی باطل (ناحق) کے بارے میں جھگڑا کیا تو وہ اس سے دست کش ہونے تک اللہ تعالیٰ کی ناراضی میں رہتا ہے اور جس نے کسی مومن پر بہتان لگایا تو وہ کچ لہو کے کیچڑ میں رہے گا حتی کہ وہ اس سے نکل آئے جو اس نے کہا ہے۔ “ احمد، ابوداؤد، اور بیہقی کی شعب الایمان میں ایک روایت ہے: ”جس نے کسی جھگڑے پر اعانت کی جبکہ وہ نہیں جانتا کہ وہ حق ہے یا باطل تو وہ اللہ کی ناراضی میں رہتا ہے حتی کہ وہ اس سے دست کش ہو جائے۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ احمد و ابوداؤد و البیھقی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أحمد (70/2 ح 5385) و أبو داود (3597) والبيھقي في شعب الإيمان (7673)»
وعن ابي امية المخزومي: ان النبي صلى الله عليه وسلم اتى بلص قد اعترف اعترافا ولم يوجد معه متاع فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما اخالك سرقت» . قال: بلى فاعاد عليه مرتين او ثلاثا كل ذلك يعترف فامر به فقطع وجيء به فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «استغفر الله وتب إليه» فقال: استغفر الله واتوب إليه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اللهم تب عليه» ثلاثا. رواه ابو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي هكذا وجدت في الاصول الاربعة وجامع الاصول وشعب الإيمان ومعالم السنن عن ابي امية وَعَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الْمَخْزُومِيِّ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى بِلِصٍّ قَدِ اعْتَرَفَ اعْتِرَافًا وَلَمْ يُوجَدْ مَعَهُ مَتَاعٌ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَخَالُكَ سَرَقْتَ» . قَالَ: بَلَى فَأَعَادَ عَلَيْهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا كُلَّ ذَلِكَ يَعْتَرِفُ فَأَمَرَ بِهِ فَقُطِعَ وَجِيءَ بِهِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْتَغْفِرِ اللَّهَ وَتُبْ إِلَيْهِ» فَقَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ تُبْ عليهِ» ثَلَاثًا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَالدَّارِمِيُّ هَكَذَا وجدتُ فِي الْأُصُول الْأَرْبَعَة وجامع الْأُصُول وَشُعَبُ الْإِيمَانِ وَمَعَالِمُ السُّنَنِ عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ
ابوامیہ مخزومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا، اس نے اعتراف جرم کر لیا لیکن اس سے مال برامد نہ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”میرا خیال ہے کہ تم نے چوری نہیں کی۔ “ اس نے عرض کیا، کیوں نہیں، ضرور کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو یا تین مرتبہ یہ بات دہرائی لیکن وہ ہر مرتبہ اعتراف کرتا رہا، آپ نے اس کے متعلق حکم فرمایا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ اور پھر اسے آپ کے پاس لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کے حضور توبہ کرو۔ “ اس نے عرض کیا: میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اس کے حضور توبہ کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار فرمایا: ”اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما۔ “ اور میں نے اصول اربعہ، جامع الاصول، شعب الایمان اور معالم السنن میں ابوامیہ سے اسی طرح پایا ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ و الدارقطنی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أبو داود (4380) و النسائي (67/8 ح 4881) و ابن ماجه (2597) والدارقطني (173/2 ح 2308) ٭ أبو المنذر لا يعرف و في الباب حديث النسائي (89/8. 90 ح 4980) وسنده صحيح و صححه الحاکم (380/4) وھو يغني عنه.»
عن انس ان النبي صلى الله عليه وسلم ضرب في الخمر بالجريد والنعال وجلد ابو بكر رضي الله عنه اربعين عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ فِي الْخَمْرِ بِالْجَرِيدِ والنِّعالِ وجلَدَ أَبُو بكرٍ رَضِي الله عَنهُ أربعينَ
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شراب نوشی پر کھجور کی ٹہنیاں اور جوتے مارے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چالیس کوڑے مارے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6773) و مسلم (1706/36)»