وعن ابي سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يكون امتي فرقتين فيخرج من بينهما مارقة يلي قتلهم اولاهم بالحق» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ أُمَّتِي فِرْقَتَيْنِ فَيَخْرُجُ مِنْ بَيْنِهِمَا مَارِقَةٌ يَلِي قَتْلَهُمْ أولاهم بِالْحَقِّ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صل�� اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت دو گروہوں میں منقسم ہو جائے گی اور ان دونوں کے بیچ سے ایک خارجی جماعت رونما ہو گی، ان کا خاتمہ وہ لوگ کریں گے جو حق کے زیادہ قریب ہونگے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1064/151)»
وعن جرير قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع: «لا ترجعن بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض» وَعَنْ جَرِيرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: «لَا تَرْجِعُنَّ بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَاب بعض»
جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: ”میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر کافر نہ بن جانا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (7080) و مسلم (65/118)»
وعن ابي بكرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا التقى المسلمان حمل احدهما على اخيه السلاح فهما في جرف جهنم فإذا قتل احدهما صاحبه دخلاها جميعا» . وفي رواية عنه: قال: «إذا التقى المسلمان بسيفهما فالقاتل والمقتول في النار» قلت: هذا القاتل فما بال المقتول؟ قال: «إنه كان حريصا على قتل صاحبه» وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ حَمَلَ أَحَدُهُمَا عَلَى أَخِيهِ السِّلَاحَ فَهُمَا فِي جُرُفِ جَهَنَّمَ فَإِذَا قَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ دَخَلَاهَا جَمِيعًا» . وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ: قَالَ: «إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بسيفهما فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ» قُلْتُ: هَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ: «إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ»
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان ملیں اور ان میں سے ایک اپنے بھائی پر اسلحہ تان لے تو وہ دونوں جہنم کے کنارے پر ہوتے ہیں، جب ان میں سے کوئی اپنے مقابل کو قتل کر دیتا ہے تو وہ دونوں اکٹھے جہنم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ “ اور ان سے ایک دوسری روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان اپنی تلواریں سونت کر سامنے آ جاتے ہیں تو قاتل اور مقتول جہنمی ہیں۔ “ میں نے عرض کیا: قاتل تو ہے لیکن مقتول کس وجہ سے؟ (کہ وہ مظلوم ہونے کے باوجود جہنمی ہے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیونکہ وہ اپنے ساتھی (مد مقابل) کو قتل کرنے پر حریص تھا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6875 الرواية الثانية) و مسلم (2888/16، الرواية الأولٰي، 2888/14، الرواية الثانية)»
وعن انس قال: قدم على النبي صلى الله عليه وسلم نفر من عكل فاسلموا فاجتووا المدينة فامرهم ان ياتوا إبل الصدقة فيشربوا من ابوالها والبانها ففعلوا فصحوا فارتدوا وقتلوا رعاتها واستاقوا الإبل فبعث في آثارهم فاتي بهم فقطع ايديهم وارجلهم وسمل اعينهم ثم لم يحسمهم حتى ماتوا. وفي رواية: فسمروا اعينهم وفي رواية: امر بمسامير فاحميت فكحلهم بها وطرحهم بالحرة يستسقون فما يسقون حتى ماتوا وَعَن أَنَسٍ قَالَ: قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفَرٌ مِنْ عُكْلٍ فَأَسْلَمُوا فَاجْتَوَوُا الْمَدِينَةَ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَأْتُوا إِبِلَ الصَّدَقَةِ فَيَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا فَفَعَلُوا فَصَحُّوا فَارْتَدُّوا وَقَتَلُوا رُعَاتَهَا وَاسْتَاقُوا الْإِبِلَ فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمْ فَأُتِيَ بِهِمْ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَلَ أَعْيُنَهُمْ ثُمَّ لَمْ يَحْسِمْهُمْ حَتَّى مَاتُوا. وَفِي رِوَايَةٍ: فَسَمَّرُوا أَعْيُنَهُمْ وَفِي رِوَايَةٍ: أَمَرَ بِمَسَامِيرَ فَأُحْمِيَتْ فَكَحَّلَهُمْ بِهَا وَطَرَحَهُمْ بِالْحَرَّةِ يَسْتَسْقُونَ فَمَا يُسْقَوْنَ حَتَّى مَاتُوا
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، عکل کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہ آئی تو آپ نے انہیں صدقہ کے اونٹوں کے پاس جانے کا حکم فرمایا تاکہ وہاں وہ ان کا دودھ اور پیشاب پیئیں، انہوں نے ایسے کیا اور وہ صحت یاب ہو گئے، اس کے بعد وہ مرتد ہو گئے اور ان کے چرواہوں کو قتل کر کے اونٹ ہانک کر لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے تعاقب میں آدمی بھیجے تو وہ انہیں پکڑ کر لے آئے، آپ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے اور ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دی گئیں، پھر ان کا خون بہتا رہا حتی کہ وہ فوت ہو گئے۔ ایک دوسری روایت میں ہے: ”انہوں نے ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دیں۔ “ اور ایک روایت میں ہے: ”آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلائیوں کے متعلق حکم فرمایا تو انہیں گرم کیا گیا اور انہیں ان کی آنکھوں میں پھیر کر انہیں دھوپ میں پھینک دیا گیا وہ پانی طلب کرتے رہے مگر انہیں پانی نہ دیا گیا حتی کہ وہ فوت ہو گئے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6803، الرواية الأولٰي، 1501، الثانية، 3018، الثالثة) و مسلم (1671/9، الرواية الأولي، 1671/10، الثانية)»
عن عمران بن حصين قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحثنا على الصدقة وينهانا عن المثلة. رواه ابو داود عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحُثُّنَا عَلَى الصَّدَقَةِ وَيَنْهَانَا عَنِ الْمُثْلَةِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں صدقہ دینے پر آمادہ کیا کرتے تھے اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أبو داود (2667) ٭ قتادة مدلس و عنعن و حديث أحمد (20/5) يغني عن ھذا الحديث.»
وعن عبد الرحمن بن عبد الله عن ابيه قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فانطلق لحاجته فراينا حمرة معها فرخان فاخذنا فرخيها فجاءت الحمرة فجعلت تفرش فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «من فجع هذه بولدها؟ ردوا ولدها إليها» . وراى قرية نمل قد حرقناها قال: «من حرق هذه؟» فقلنا: نحن قال: «إنه لا ينبغي ان يعذب بالنار إلا رب النار» . رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهِ فَرَأَيْنَا حُمْرَةً مَعَهَا فَرْخَانِ فَأَخَذْنَا فَرْخَيْهَا فَجَاءَتِ الْحُمْرَةُ فَجَعَلَتْ تَفْرُشُ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِوَلَدِهَا؟ رُدُّوا وَلَدَهَا إِلَيْهَا» . وَرَأَى قَرْيَةَ نَمْلٍ قَدْ حَرَّقْنَاهَا قَالَ: «مَنْ حَرَّقَ هَذِهِ؟» فَقُلْنَا: نَحْنُ قَالَ: «إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ يُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلاَّ ربُّ النَّار» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبدالرحمٰن بن عبداللہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک چڑیا (سرخ رنگ کی چڑیا) دیکھی، اس کے ساتھ اس کے دو بچے تھے، ہم نے اس کے بچے پکڑ لیے تو وہ پھڑ پھڑانے لگی، اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کس شخص نے اسے، اس کے بچوں کی وجہ سے بے قرار کر دیا؟ اس کے بچے اسے واپس کرو۔ “ اور آپ نے چیونٹیوں کا ایک مسکن دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کس نے جلایا ہے؟“ ہم نے عرض کیا: ہم نے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”آگ کا عذاب دینا صرف آگ کے رب کے لائق ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (2675)»
وعن ابي سعيد الخدري وانس بن مالك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: سيكون في امتي اختلاف وفرقة قوم يحسنون القيل ويسيئون الفعل يقرؤون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الدين مروق السهم في الرمية لا يرجعون حتى يرتد السهم على فوقه هم شر الخلق والخليقة طوبى لمن قتلهم وقتلوه يدعون إلى كتاب الله وليسوا منا في شيء من قاتلهم كان اولى بالله منهم قالوا: يا رسول الله ما سيماهم؟ قال: «التحليق» . رواه ابو داود وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي اخْتِلَافٌ وَفُرْقَةٌ قَوْمٌ يُحسِنونَ القيلَ ويُسيئونَ الفِعلَ يقرؤون الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُروقَ السَّهمِ فِي الرَّمِيَّةِ لَا يَرْجِعُونَ حَتَّى يَرْتَدَّ السَّهْمُ عَلَى فُوقِهِ هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ طُوبَى لِمَنْ قَتَلَهُمْ وَقَتَلُوهُ يَدْعُونَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَلَيْسُوا منَّا فِي شيءٍ مَنْ قاتلَهم كَانَ أَوْلَى بِاللَّهِ مِنْهُمْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا سِيمَاهُمْ؟ قَالَ: «التَّحْلِيقُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں عنقریب اختلاف و افتراق ہو گا۔ ایک گروہ باتیں اچھی اچھی لیکن کام برے کرے گا۔ وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل (کر پار ہو) جاتا ہے۔ وہ دین کی طرف نہیں پلٹیں گے حتی کہ تیر اپنے سوفار (چٹکی جہاں کمان کا تانت ٹکتا ہے) پر واپس آ جائے۔ وہ تمام مخلوق سے بدتر ہیں۔ اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جو ان کو قتل کرتا ہے اور جسے وہ قتل کر دیں، وہ (بظاہر) اللہ کی کتاب کی طرف دعوت دیں گے۔ لیکن وہ کسی چیز میں بھی ہم میں سے نہیں ہوں گے، جس نے ان سے قتال کیا وہ ان (باقی امتیوں) سے اللہ کے زیادہ قریب ہے۔ “ صحابہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! ان کی علامت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سر منڈانا۔ “ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أبو داود (4765) ٭ قتادة عنعن.»
وعن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يحل دم امرئ مسلم يشهد ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله إلا بإحدى ثلاث زنا بعد إحصان فإنه يرجم ورجل خرج محاربا لله ورسوله فإنه يقتل او يصلب او ينفى من الارض او يقتل نفسا فيقتل بها» . رواه ابو داود وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ زِنا بعدَ إِحْصانٍ فإِنَّهُ يُرجَمُ ورجلٌ خرَجَ مُحارِباً للَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِنَّهُ يُقْتَلُ أَوْ يُصْلَبُ أَوْ يُنْفَى مِنَ الْأَرْضِ أَوْ يَقْتُلُ نَفْسًا فَيُقْتَلُ بِهَا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اسے صرف تین وجوہات میں سے کسی ایک وجہ سے قتل کرنا جائز ہے: شادی کے بعد زنا والے کو رجم کیا جائے گا، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرے (یعنی ڈاکو) ہو، اسے قتل کیا جائے گا یا سولی پر چڑھایا جائے گا یا جلا وطن کیا جائے گا۔ یا کوئی شخص کسی جان کو قتل کر دے تو اس کے بدلے میں اسے قتل کیا جائے گا۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4353)»
وعن ابن ابي ليلى قال: حدثنا اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم انهم كانوا يسيرون مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فنام رجل منهم فانطلق بعضهم إلى حبل معه فاخذه ففزع فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يحل لمسلم ان يروع مسلما» . رواه ابو داود وَعَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: حَدَّثَنَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ كَانُوا يَسِيرُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَانْطَلَقَ بَعْضُهُمْ إِلَى حَبْلٍ مَعَه فَأَخذه فَفَزعَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن ابی لیلی بیان کرتے ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے ہمیں حدیث بیان کی کہ وہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے، ان میں سے ایک آدمی سو گیا تو کسی شخص نے اپنی رسی لی اور اس کی طرف گیا اور اسے رسی کے ساتھ باندھ دیا تو وہ (سونے والا شخص) گھبرا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کے لیے یہ لائق نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو خوف زدہ کرے۔ “ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (5004)»