کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب النكاح
--. حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ
حدیث نمبر: 3300
اعراب
وروى ابو داود وابن ماجه والدارمي عن سليمان بن يسار عن سلمة بن صخر نحوه قال: كنت امرا اصيب من النساء ما لا يصيب غيري وفي روايتهما اعني ابو داود والدارمي: «فاطعم وسقا من تمر بين ستين مسكينا» وروى أَبُو دَاوُد وابنُ مَاجَه والدارمي عَن سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ نحوَه قَالَ: كنتُ امْرأ أُصِيبُ مِنَ النِّسَاءِ مَا لَا يُصِيبُ غَيْرِي وَفِي روايتهِما أَعنِي أَبُو دَاوُدَ وَالدَّارِمِيَّ: «فَأَطْعِمْ وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ بَيْنَ سِتِّينَ مِسْكينا»
ابوداؤد، ابن ماجہ اور دارمی نے سلیمان بن یسار کے طریق سے سلمہ بن صخر سے اسی طرح روایت کیا ہے، انہوں نے کہا: مجھے جس قدر عورتوں سے لگاؤ تھا اتنا لگاؤ میرے سوا کسی کو نہ تھا۔ اور ان دونوں یعنی ابوداؤد اور دارمی کی روایت میں ہے: ایک وسق (ساٹھ صاع) کھجوریں ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ۔ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ و الدارمی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده ضعيف، رواه أبو داود (2213) و ابن ماجه (2062) والدارمي (162/2. 163 ح 2278)
٭ ابن إسحاق مدلس و عنعن.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف
--. ظہار کا کفارہ ہے
حدیث نمبر: 3301
اعراب
وعن سليمان بن يسار عن سلمة بن صخر عن النبي صلى الله عليه وسلم في المظاهر يواقع قبل ان يكفر قال: «كفارة واحدة» . رواه الترمذي وابن ماجه وَعَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُظَاهِرِ يُوَاقِعُ قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ قَالَ: «كَفَّارَة وَاحِدَة» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه
سلیمان بن یسار، سلمہ بن صخر کی سند سے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے، ظہار کرنے والے کے متعلق جو کفارہ دینے سے پہلے جماع کر لے، روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک ہی کفارہ ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده ضعيف، رواه الترمذي (1198 و قال: حسن غريب) و ابن ماجه (2064)
٭ سليمان بن يسار لم يسمع من سلمة بن صخر رضي الله عنه.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف
--. ظہار کا کفارہ ادا کرنے سے پہلے ازدواجی تعلقات قائم کرنا
حدیث نمبر: 3302
اعراب
عن عكرمة عن ابن عباس: ان رجلا ظاهر من امراته فغشيها قبل ان يكفر فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له فقال: «ما حملك على ذلك؟» قال: يا رسول الله رايت بياض حجليها في القمر فلم املك نفسي ان وقعت عليها فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم وامره ان لا يقربها حتى يكفر. رواه ابن ماجه. وروى الترمذي نحوه وقال: هذا حديث حسن صحيح غريب وروى ابو داود والنسائي نحوه مسندا ومرسلا وقال النسائي: المرسل اولى بالصواب من المسند عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَجُلًا ظَاهَرَ مِنِ امْرَأَتِهِ فَغَشِيَهَا قَبْلَ أَنْ يَكَفِّرَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: «مَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ؟» قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْتُ بَيَاضَ حِجْلَيْهَا فِي الْقَمَرِ فَلَمْ أَمْلِكْ نَفْسِي أَنْ وَقَعَتُ عَلَيْهَا فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَهُ أَنْ لَا يَقْرَبَهَا حَتَّى يُكَفِّرَ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ. وَرَوَى التِّرْمِذِيُّ نَحْوَهُ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَرَوَى أَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ نَحْوَهُ مُسْنَدًا وَمُرْسَلًا وَقَالَ النَّسَائِيُّ: المُرسل أوْلى بالصَّوابِ من المسْندِ
عکرمہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تو اس نے کفارہ ادا کرنے سے پہلے اس سے جماع کر لیا، پھر وہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اس کے متعلق آپ کو بتایا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں کس چیز نے اس پر آمادہ کیا؟ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے چاندنی رات میں اس کی پازیب کی سفیدی دیکھی تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اس سے ہم بستر ہو گیا۔ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا دیے اور اسے حکم فرمایا کہ وہ کفارہ ادا کرنے سے پہلے اس کے قریب نہ جائے۔ ابن ماجہ۔ اور امام ترمذی نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے، اور فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ اور امام ابوداؤد اور امام نسائی نے اسی مثل مسند اور مرسل روایت کیا ہے، اور امام نسائی نے فرمایا: مرسل درست ہونے میں، مسند سے اولیٰ ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ ابن ماجہ و الترمذی و ابوداؤد و النسائی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه ابن ماجه (2065) و الترمذي (1199) و أبو داود (2221) و النسائي (167/6 ح 3487 مسندًا و ح 3488 مرسلاً)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. ایک مومنہ لونڈی کا قصہ
حدیث نمبر: 3303
اعراب
عن معاوية بن الحكم قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله إن جارية كانت لي ترعى غنما لي فجئتها وقد فقدت شاة من الغنم فسالتها عنها فقالت: اكلها الذئب فاسفت عليها وكنت من بني آدم فلطمت وجهها وعلي رقبة افاعتقها؟ فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اين الله؟» فقالت: في السماء فقال: «من انا؟» فقالت: انت رسول الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اعتقها» . رواه مالك وفي رواية مسلم قال: كانت لي جارية ترعى غنما لي قبل احد والجوانية فاطلعت ذات يوم فإذا الذئب قد ذهب بشاة من غنمنا وانا رجل من بني آدم آسف كما ياسفون لكن صككتها صكة فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعظم ذلك علي قلت: يا رسول الله افلا اعتقها؟ قال: «ائتني بها؟» فاتيته بها فقال لها: «اين الله؟» قالت: في السماء قال: «من انا؟» قالت: انت رسول الله قال: «اعتقها فإنها مؤمنة» عَن مُعَاوِيَة بنِ الحكمِ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ جَارِيَةً كَانَتْ لِي تَرْعَى غَنَمًا لِي فَجِئْتُهَا وَقَدْ فَقَدَتْ شَاةً مِنَ الْغَنَمِ فَسَأَلْتُهَا عَنْهَا فَقَالَتْ: أَكَلَهَا الذِّئْبُ فَأَسِفْتُ عَلَيْهَا وَكُنْتُ مَنْ بَنِي آدَمَ فَلَطَمْتُ وَجْهَهَا وَعَلَيَّ رَقَبَةٌ أَفَأُعْتِقُهَا؟ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيْنَ اللَّهُ؟» فَقَالَتْ: فِي السَّمَاءِ فَقَالَ: «مَنْ أَنَا؟» فَقَالَتْ: أَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعْتِقْهَا» . رَوَاهُ مَالِكٌ وَفِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ قَالَ: كَانَتْ لِي جَارِيَةٌ تَرْعَى غَنَمًا لِي قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ يَوْمٍ فَإِذَا الذِّئْبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْ غَنَمِنَا وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي آدَمَ آسَفُ كَمَا يَأْسَفُونَ لَكِنْ صَكَكْتُهَا صَكَّةً فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَظَّمَ ذَلِكَ عَلَيَّ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أفَلا أُعتِقُها؟ قَالَ: «ائتِني بهَا؟» فأتيتُه بِهَا فَقَالَ لَهَا: «أَيْنَ اللَّهُ؟» قَالَتْ: فِي السَّمَاءِ قَالَ: «مَنْ أَنَا؟» قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ الله قَالَ: «أعتِقْها فإنَّها مؤْمنةٌ»
معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، اللہ کے رسول! میری ایک لونڈی میری بکریاں چراتی تھی، میں اس کے پاس آیا تو میں نے ایک بکری نہ پائی، میں نے اس کے متعلق اس سے پوچھا تو اس نے کہا: اسے بھیڑیے نے کھا لیا ہے، میں اس سے ناراض ہوا، چونکہ میں اولاد آدم سے ہوں، میں نے اس کے چہرے پر تھپڑ مار دیا، (اور کسی وجہ سے) غلام آزاد کرنا مجھ پر واجب ہے، کیا میں اسے آزاد کر دوں؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس لونڈی سے پوچھا: اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا: آسمان میں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں کون ہوں؟ اس نے عرض کیا، آپ اللہ کے رسول ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے آزاد کر دو۔ یہ مالک کی روایت ہے۔ اور مسلم کی روایت میں ہے: انہوں (معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ) نے کہا: میری ایک لونڈی تھی جو اُحد اور جوانیہ کی طرف میری بکریاں چرایا کرتی تھی، ایک روز میں نے دیکھا کہ بھیڑیا ہماری بکریوں میں سے ایک بکری لے گیا، چونکہ میں ا��دم کی اولاد سے ہوں، میں بھی ناراض ہوتا ہوں جیسے وہ ناراض ہوتے ہیں، اس لیے میں نے اسے ایک تھپڑ مار دیا پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (اور سارا واقعہ سنایا) آپ نے میری اس حرکت کو بڑا جرم قرار دیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں اسے آزاد نہ کر دوں؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے میرے پاس لاؤ۔ میں اسے آپ کے پاس لے آیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے پوچھا: اللہ کہاں ہے؟ اس نے عرض کیا: آسمان میں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں کون ہوں؟ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے آزاد کر دو کیونکہ یہ مسلمان ہے۔ صحیح، رواہ مالک و مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«صحيح، رواه مالک (776/2. 777 ح 1550 ببعض الاختلاف) و مسلم (537/33)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ کے لعان کا واقعہ
حدیث نمبر: 3304
اعراب
عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنه قال: إن عويمر العجلاني قال: يا رسول الله ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا ايقتله فيقتلونه؟ ام كيف افعل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «قد انزل فيك وفي صاحبتك فاذهب فات بها» قال سهل: فتلاعنا في المسجد وانا مع الناس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما فرغا قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إن امسكتها فطلقتها ثلاثا ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: انظروا فإن جاءت به اسحم ادعج العينين عظيم الاليتين خدلج الساقين فلا احسب عويمر إلا قد صدق عليها وإن جاءت به احيمر كانه وحرة فلا احسب عويمرا إلا قد كذب عليها فجاءت به على النعت الذي نعت رسول الله صلى الله عليه وسلم من تصديق عويمر فكان بعد ينسب إلى امه عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ: إِن عُوَيْمِر الْعَجْلَانِيَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ رَجُلًا وجدَ معَ امرأتِهِ رجُلاً أيقْتُلُه فيَقْتُلُونه؟ أمْ كَيفَ أفعل؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قدْ أُنْزِلُ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا» قَالَ سَهْلٌ: فَتَلَاعَنَا فِي الْمَسْجِدِ وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَا قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رسولَ اللَّهِ إِن أَمْسكْتُها فطلقتها ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: انْظُرُوا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْحَمَ أَدْعَجَ الْعَيْنَيْنِ عَظِيمَ الْأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ فَلَا أَحسب عُوَيْمِر إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أُحَيْمِرَ كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ فَلَا أَحْسِبُ عُوَيْمِرًا إِلَّا قَدْ كَذَبَ عَلَيْهَا فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الَّذِي نَعْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ تَصْدِيقِ عُوَيْمِرٍ فَكَانَ بَعْدُ يُنْسَبُ إِلَى أمه
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عویمر عجلانی نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اس شخص کے بارے میں بتائیں جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے، کیا وہ اسے قتل کر دے، اس صورت میں وہ (مقتول کے ورثاء) اس کو قتل کر دیں گے یا اسے کیا کرنا چاہیے؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرے اور تیری بیوی کے بارے میں حکم نازل ہو چکا ہے، تم اسے لے کر آؤ۔ سہل بیان کرتے ہیں، ان دونوں نے مسجد میں لعان کیا، اور میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس تھا، جب وہ دونوں فارغ ہوئے تو عویمر نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں اسے رکھ لوں تو اس کا مطلب ہو گا میں نے اس پر جھوٹ باندھا، اس نے اسے تین طلاقیں دے دیں، پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انتظار کرو اور دیکھو اگر وہ سیاہ رنگ، موٹی موٹی اور خوب سیاہ آنکھوں والے، سرین بڑے بڑے اور موٹی موٹی پنڈلیوں والے بچے کو جنم دے تو پھر میں سمجھوں گا کہ عویمر نے اس کے متعلق سچ کہا ہے، اور اگر وہ سرخ رنگ کا ہوا، گویا کہ وہ زہریلی چھپکلی ہے تو میں سمجھوں گا کہ عویمر نے اس عورت پر جھوٹ باندھا ہے۔ اس عورت نے اس طرح کے بچے کو جنم دیا جس طرح کی صفات رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عویمر کی تصدیق کے متعلق بیان فرمائی تھیں، اس کے بعد اس بچے کو اس کی ماں کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (4745) و مسلم (1492/1)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. لعان سے پہلے مرد اور عورت کو نصیحت
حدیث نمبر: 3305
اعراب
وعن ابن عمر رضي الله عنهما ان النبي صلى الله عليه وسلم لاعن بين رجل وامراته فانتقى من ولدها ففرق بينهما والحق الولد بالمراة. متفق عليه. وفي حديثه لهما ان رسول الله صلى الله عليه وسلم وعظه وذكره واخبره ان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة ثم دعاها فوعظها وذكرها واخبرها ان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَاعن بَين رجل وَامْرَأَته فانتقى مِنْ وَلَدِهَا فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْمَرْأَةِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي حَدِيثِهِ لَهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَظَهُ وَذَكَّرَهُ وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ ثُمَّ دَعَاهَا فَوَعَظَهَا وَذَكَّرَهَا وَأَخْبَرَهَا أَنَّ عَذَاب الدُّنْيَا أَهْون من عَذَاب الْآخِرَة
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے شوہر اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا، اس (آدمی) نے اس کے بچے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تو آپ نے ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دی اور بچے کو عورت کے حوالے کر دیا۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کی صحیحین کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پہلے شوہر کو وعظ و نصیحت کی اور اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہلکا ہے، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس عورت کو بلایا اور اسے بھی وعظ و نصیحت کی اور اسے بھی بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہلکا ہے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (5315) و مسلم (1494/8، 1493/4)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. لعان کے بعد مہر واپس نہیں ملے گا
حدیث نمبر: 3306
اعراب
وعنه ان النبي صلى الله عليه وسلم قال للمتلاعنين: «حسابكما على الله احدكما كاذب لا سبيل لك عليها» قال: يا رسول الله مالي قال: «لا مال لك إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها وإن كنت كذبت عليها فذاك ابعد وابعد لك منها» وَعَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْمُتَلَاعِنَيْنِ: «حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ لَا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا» قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَالِي قَالَ: «لَا مَالَ لَكَ إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا فَذَاكَ أَبْعَدُ وَأبْعد لَك مِنْهَا»
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لعان کرنے والوں سے فرمایا: تمہارا حساب اللہ کے ذمہ ہے، تم دونوں میں سے ایک جھوٹا ہے، اب تمہارا اس (عورت) پر کوئی حق نہیں۔ اس (آدمی) نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرا مال (جو مہر میں دیا تھا)؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں مال کا کوئی حق نہیں، اگر تم نے اس کے متعلق سچی بات کی ہے تو وہ (مال) اس کا بدل ہے جو تم نے اس سے ہمبستری کی ہے، اور اگر تم نے اس کے متعلق جھوٹی بات کی ہے تو پھر اس (مہر) کا لوٹنا تمہارے لیے بعید ہے اور تیرا اس سے مطالبہ کرنا بھی بعید ہے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (5350) و مسلم (1493/5)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. گواہیوں کے بغیر حد جاری نہیں ہو گی
حدیث نمبر: 3307
اعراب
وعن ابن عباس: ان هلال بن امية قذف امراته عند النبي صلى الله عليه وسلم بشريك بن سحماء فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «البينة او حدا في ظهرك» فقال: يا رسول الله إذا راى احدنا على امراته رجلا ينطلق يلتمس البينة؟ فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «البينة وإلا حد في ظهرك» فقال هلال: والذي بعثك بالحق إني لصادق فلينزلن الله ما يبرئ ظهري من الحد فنزل جبريل وانزل عليه: (والذين يرمون ازواجهم) فقرا حتى بلغ (إن كان من الصادقين) فجاء هلال فشهد والنبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن الله يعلم ان احدكما كاذب فهل منكما تائب؟» ثم قامت فشهدت فلما كانت عند الخامسة وقفوها وقالوا: إنها موجبة فقال ابن عباس: فتلكات ونكصت حتى ظننا انها ترجع ثم قالت: لا افضح قومي سائر اليوم فمضت وقال النبي صلى الله عليه وسلم: «ابصروها فإن جاءت به اكحل العينين سابغ الاليتين خدلج الساقين فهو لشريك بن سحماء» فجاءت به كذلك فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «لولا ما مضى من كتاب الله لكان لي ولها شان» . رواه البخاري وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرِيكِ بْنِ سَحْمَاءَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْبَيِّنَةَ أَوْ حَدًّا فِي ظَهْرِكَ» فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا رَأَى أَحَدُنَا عَلَى امْرَأَتِهِ رَجُلًا يَنْطَلِقُ يَلْتَمِسُ الْبَيِّنَةَ؟ فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الْبَيِّنَةَ وَإِلَّا حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ» فَقَالَ هِلَالٌ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنِّي لَصَادِقٌ فَلْيُنْزِلَنَّ اللَّهُ مَا يُبَرِّئُ ظَهْرِي مِنَ الْحَدِّ فَنَزَلَ جِبْرِيلُ وَأنزل عَلَيْهِ: (وَالَّذين يرْمونَ أَزوَاجهم) فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ (إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ) فَجَاءَ هِلَالٌ فَشَهِدَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟» ثُمَّ قَامَتْ فَشَهِدَتْ فَلَمَّا كَانَتْ عِنْدَ الْخَامِسَةِ وَقَفُوهَا وَقَالُوا: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَتَلَكَّأَتْ وَنَكَصَتْ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهَا تَرْجِعُ ثُمَّ قَالَتْ: لَا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ فَمَضَتْ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبْصِرُوهَا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقِينَ فَهُوَ لِشَرِيكِ بْنِ سَحْمَاءَ» فَجَاءَتْ بِهِ كَذَلِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْلَا مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْن» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہلال بن امیہ نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ثبوت پیش کرو، ورنہ تیری پشت پر حد قائم ہو گی۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب ہم میں سے کوئی اپنی بیوی کو حالت زنا میں دیکھے تو کیا وہ گواہ تلاش کرنے چلا جائے؟ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پشت پر حد قائم کی جائے گی۔ ہلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! میں یقیناً سچا ہوں اللہ ایسا حکم ضرور نازل فرمائے گا جو مجھے حد سے بچا لے گا۔ پس جبریل ؑ تشریف لائے اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر یہ آیات نازل فرمائیں: جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں ......... اگر وہ سچوں میں سے ہے۔ ہلال آئے تو انہوں نے گواہی دی (یعنی لعان کیا) جبکہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرما رہے تھے: یقیناً تم میں سے ایک جھوٹا ہے تو کیا وہ توبہ کرنے کے لیے تیار ہے؟ پھر عورت کھڑی ہوئی تو اس نے گواہی دی (لعان کیا) جب وہ پانچویں گواہی پر پہنچی تو انہوں نے اسے روکا اور انہوں نے کہا کہ یہ (پانچویں گواہی) واجب کرنے والی ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس نے توقف کیا اور خاموشی اختیار کی حتی کہ ہم نے سمجھا کہ وہ (اپنے مؤقف سے) رجوع کر لے گی، پھر اس نے کہا: میں ہمیشہ کے لیے اپنی قوم کو رسوا نہیں کروں گی۔ چنانچہ اس نے پانچویں گواہی بھی دے دی تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے دیکھو اگر یہ سرمئی آنکھوں والے، بڑے سرین والے اور موٹی پنڈلیوں والے بچے کو جنم دے تو پھر وہ شریک بن سحماء کا ہے۔ اس نے اسی طرح کے بچے کو جنم دیا تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر اللہ کا حکم (کہ لعان کے بعد حد جاری نہیں کی جائے گی) پہلے سے نہ آیا ہوتا تو میں اسے ضرور سزا دیتا۔ رواہ البخاری۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (4747)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ غیرت والا ہے
حدیث نمبر: 3308
اعراب
وعن ابي هريرة قال: قال سعد بن عبادة: لو وجدت مع اهلي رجلا لم امسه حتى آتي باربعة شهداء؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نعم» قال: كلا والذي بعثك بالحق إن كنت لاعاجله بالسيف قبل ذلك قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اسمعوا إلى ما يقول سيدكم إنه لغيور وانا اغير منه والله اغير مني» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: لَوْ وَجَدْتُ مَعَ أَهْلِي رَجُلًا لَمْ أَمَسَّهُ حَتَّى آتِيَ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ» قَالَ: كَلَّا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنْ كُنْتُ لَأُعَاجِلُهُ بِالسَّيْفِ قَبْلَ ذَلِكَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْمَعُوا إِلَى مَا يَقُولُ سَيِّدُكُمْ إِنَّهُ لَغَيُورٌ وَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ وَالله أغير مني» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اگر میں کسی آدمی کو اپنی بیوی کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں پاؤں تو کیا میں اس (آدمی) کو ہاتھ نہ لگاؤں ح��ی کہ میں چار گواہ لاؤں؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں! انہوں نے عرض کیا، ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! اگر میرے ساتھ ایسا ہوا تو میں اس (گواہی) سے پہلے ہی تلوار کے ذریعے اس کا کام تمام کر دوں گا۔ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے سردار کی بات غور سے سنو، کیونکہ وہ غیور شخص ہے، اور میں اس سے زیادہ غیور ہوں جبکہ اللہ مجھ سے زیادہ غیور ہے۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (1498/16)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ میں سرداروں والی صفات
حدیث نمبر: 3309
اعراب
وعن المغيرة قال: قال سعد بن عبادة: لو رايت رجلا مع امراتي لضربته بالسيف غير مصفح فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «اتعجبون من غيرة سعد؟ والله لانا اغير منه والله اغير مني ومن اجل غيرة الله حرم الله الفواحش ما ظهر منها وما بطن ولا احد احب إليه العذر من الله من اجل ذلك بعث المنذرين والمبشرين ولا احد احب إليه المدحة من الله ومن اجل ذلك وعد الله الجنة» وَعَنِ الْمُغِيرَةَ قَالَ: قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرَ مُصْفِحٍ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ؟ وَاللَّهِ لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ وَاللَّهُ أَغْيَرُ مِنِّي وَمِنْ أَجْلِ غَيْرَةِ اللَّهِ حَرَّمَ اللَّهُ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ بَعَثَ الْمُنْذِرِينَ وَالْمُبَشِّرِينَ وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمِدْحَةُ مِنَ اللَّهِ وَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ وَعَدَ اللَّهُ الْجَنَّةَ»
مغیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی آدمی کو (حالتِ زنا میں) دیکھ لوں تو میں تلوار کی دھار کے ساتھ اسے قتل کر دوں۔ یہ بات رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم سعد کی غیرت سے تعجب کرتے ہو؟ اللہ کی قسم! میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے، اور اللہ نے اپنی غیرت ہی کے باعث ظاہری اور باطنی بے حیائی کو حرام قرار دیا ہے، اور اللہ سے زیادہ کوئی شخص عذر پسند نہیں کرتا اسی لیے تو اس نے آگاہ کرنے والے اور خوشخبری سنانے والے (انبیاء ؑ) مبعوث فرمائے، اور اللہ سے بڑھ کر کوئی شخص مدح کو پسند نہیں کرتا، اسی لیے تو اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (7416) و مسلم (1499/17)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

Previous    19    20    21    22    23    24    25    26    27    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.