وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ثلاث لا ترد الوسائد والدهن واللبن» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب قيل: اراد بالدهن الطيب وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ثَلَاثٌ لَا تُرَدُّ الْوَسَائِدُ وَالدُّهْنُ وَاللَّبَنُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ قِيلَ: أَرَادَ بالدهن الطّيب
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں واپس نہیں کی جانی چاہییں، تکیہ، تیل اور دودھ۔ ترمذی اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ کہا گیا کہ تیل سے خوشبو مراد ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (2790)»
وعن ابي عثمان النهدي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا اعطى احدكم الريحان فلا يرده فإنه خرج من الجنة» . رواه الترمذي مرسلا وَعَن أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدَيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِذا أعْطى أحدكُم الرَّيْحَانَ فَلَا يَرُدُّهُ فَإِنَّهُ خَرَجَ مِنَ الْجَنَّةِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ مُرْسلا
ابوعثمان نہدی ؒ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی شخص کو خوشبو پیش کی جائے تو وہ اسے واپس نہ کرے، کیونکہ وہ جنت سے آئی ہے۔ “ ترمذی، روایت مرسل ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2791) ٭ السند مرسل و فيه علل أخري.»
عن جابر قال: قالت امراة بشير: انحل ابني غلامك واشهد لي رسول الله صلى الله عليه وسلم فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إن ابنة فلان سالتني ان انحل ابنها غلامي وقالت: اشهد لي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «اله إخوة؟» قال: نعم قال: «افكلهم اعطيتهم مثل ما اعطيته؟» قال: لا قال: «فليس يصلح هذا وإني لا اشهد إلا على حق» . رواه مسلم عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَتِ امْرَأَةُ بَشِيرٍ: انْحَلِ ابْنِي غُلَامَكَ وَأَشْهِدْ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ ابْنَةَ فُلَانٍ سَأَلَتْنِي أَنْ أَنْحَلَ ابْنَهَا غُلَامِي وَقَالَتْ: أَشْهِدْ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَلَهُ إِخْوَةٌ؟» قَالَ: نَعَمْ قَالَ: «أَفَكُلَّهُمْ أَعْطَيْتَهُمْ مِثْلَ مَا أَعْطَيْتَهُ؟» قَالَ: لَا قَالَ: «فَلَيْسَ يَصْلُحُ هَذَا وَإِنِّي لَا أَشْهَدُ إِلَّا على حق» . رَوَاهُ مُسلم
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، بشیر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے کہا: میرے بیٹے کو اپنا غلام ہبہ کر دو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پر گواہ بناؤ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے تو عرض کیا: فلاں کی بیٹی (یعنی میری اہلیہ) نے مجھ سے مطالبہ کیا ہے کہ میں اس کے بیٹے کو اپنا غلام ہبہ کروں اور اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گواہ بناؤں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے اور بھی بھائی ہیں؟“ انہوں نے عرض کیا، جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے جو اس لڑکے کو دیا ہے وہ ان سب کو بھی دیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا، نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو مناسب نہیں، اور میں تو صرف حق بات پر ہی گواہی دیتا ہوں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1624/19)»
--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل کا تحفہ کیسے قبول کیا
حدیث نمبر: 3032
اعراب
وعن ابي هريرة قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اتي بباكورة الفاكهة وضعها على عينيه وعلى شفتيه وقال: «اللهم كما اريتنا اوله فارنا آخره» ثم يعطيها من يكون عنده من الصبيان. رواه البيهقي في الدعوات الكبير وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِبَاكُورَةِ الْفَاكِهَةِ وَضَعَهَا عَلَى عَيْنَيْهِ وَعَلَى شَفَتَيْهِ وَقَالَ: «اللَّهُمَّ كَمَا أَرَيْتَنَا أَوَّلَهُ فَأَرِنَا آخِرَهُ» ثُمَّ يُعْطِيهَا مَنْ يَكُونُ عِنْدَهُ مِنَ الصِّبْيَانِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي الدَّعْوَات الْكَبِير
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب پہلا پہلا پھل آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے اپنی آنکھوں اور ہونٹوں پر لگاتے اور دعا فرماتے: ”اے اللہ! جس طرح تو نے ہمیں اس کا آغاز دکھایا ہے اسی طرح ہمیں اس کا اختتام بھی دکھانا۔ پھر آپ اسے اپنے پاس بیٹھے ہوئے کسی بچے کو دے دیتے۔ ضعیف، رواہ البیھقی فی الدعوات الکبیر۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه البيھقي في الدعوات الکبير (234/2 ح 463) ٭ فيه عبد الرحمٰن بن يحيي بن سعيد العذري: متروک فالسند ضعيف جدًا، و خالفه عبد الله بن وھب فرواه عن يونس بن يزيد الأيلي عن الزھري مرسلاً وھو الصواب.»
عن زيد بن خالد قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فساله عن اللقطة فقال: «اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة فإن جاء صاحبها وإلا فشانك بها» . قال: فضالة الغنم؟ قال: «هي لك او لاخيك او للذئب» قال: فضالة الإبل؟ قال: «مالك ولها؟ معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتاكل الشجر حتى يلقاها ربها» . متفق عليه. وفي رواية لمسلم: فقال: «عرفها سنة ثم اعرف وكاءها وعفاصها ثم استنفق بها فإن جاء ربها فادها إليه» عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنِ اللُّقَطَةِ فَقَالَ: «اعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَشَأْنُكَ بِهَا» . قَالَ: فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟ قَالَ: «هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ» قَالَ: فَضَالَّةُ الْإِبِل؟ قَالَ: «مَالك وَلَهَا؟ مَعَهَا سِقَاؤُهَا وَحِذَاؤُهَا تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: فَقَالَ: «عَرِّفْهَا سَنَةً ثُمَّ اعْرِفْ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا ثُمَّ اسْتَنْفِقَ بِهَا فَإِنْ جَاءَ رَبهَا فأدها إِلَيْهِ»
زید بن خالد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے آپ سے لقطہ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس (ملنے والی چیز) کی تھیلی اور اسے باندھنے والی رسی کی پہچان رکھ، پھر ایک سال تک اس کا اعلان کر، اگر اس کا مالک آ جائے تو ٹھیک ورنہ تو اسے اپنے استعمال میں لے آ۔ “ اس نے گم شدہ بکری کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا تو فرمایا: ”(اسے پکڑ لے) وہ تیرے لیے ہے یا تیرے کسی بھائی کے لیے یا پھر بھیڑیے کے لیے۔ “ اس نے گم شدہ اونٹ کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے اس سے کیا سروکار؟ (پانی کا) مشکیزہ اس کے پاس اور پاؤں اس کے مضبوط ہیں (پیاس لگنے پر) گھاٹ پر آئے گا اور درخت کے پتے کھائے گا حتی کہ اس کا مالک اس تک پہنچ جائے گا۔ “ متفق علیہ۔ اور مسلم کی روایت میں ہے: ”آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال تک اس کا اعلان کر۔ پھر اس چیز کو باندھنے والی رسی اور اس کی تھیلی کی پہچان رکھ، پھر اسے استعمال میں لا۔ البتہ اگر اس کا مالک آ جائے تو پھر اسے اتنی قیمت ادا کر۔ “
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2429) و مسلم (1722/142)»
--. کسی گری پڑی چیز ملنے پر اس کا اعلان کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 3034
اعراب
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من آوى ضالة فهو ضال ما لم يعرفها» . رواه مسلم وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ آوَى ضَالَّةً فَهُوَ ضَالٌّ مَا لم يعرفهَا» . رَوَاهُ مُسلم
زید بن خالد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی گم شدہ چیز کو پناہ دے اور اس کا اعلان نہ کرے تو وہ خود گمراہ ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1725/12)»
وعن عبد الرحمن بن عثمان التيمي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن لقطة الحاج. رواه مسلم وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ التَّيَمِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَن لقطَة الْحَاج. رَوَاهُ مُسلم
عبدالرحمٰن بن عثمان تیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاجیوں کی گری پڑی چیز اٹھانے سے منع فرمایا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1724/11)»
--. غیر آباد زمین میں گری پڑی چیز یا مدفون خزانے کا حکم
حدیث نمبر: 3036
اعراب
عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه سئل عن الثمر المعلق فقال: «من اصاب منه من ذي حاجة غير متخذ خبنة فلا شيء عليه ومن خرج بشيء منه فعليه غرامة مثليه والعقوبة ومن سرق منه شيئا بعد ان يؤويه الجرين فبلغ ثمن المجن فعليه القطع» وذكر في ضالة الإبل والغنم كما ذكر غيره قال: وسئل عن اللقطة فقال: «ما كان منها في الطريق الميتاء والقرية الجامعة فعرفها سنة فإن جاء صاحبها فادفعها إليه وإن لم يات فهو لك وما كان في الخراب العادي ففيه وفي الركاز الخمس» . رواه النسائي وروى ابو داود عنه من قوله: وسئل عن اللقطة إلى آخره عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ فَقَالَ: «مَنْ أَصَابَ مِنْهُ مِنْ ذِي حَاجَةٍ غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ وَمَنْ خَرَجَ بِشَيْءٍ مِنْهُ فَعَلَيْهِ غَرَامَةُ مِثْلَيْهِ وَالْعُقُوبَةُ وَمَنْ سَرَقَ مِنْهُ شَيْئًا بَعْدَ أَنْ يُؤْوِيَهُ الْجَرِينَ فَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَعَلَيْهِ الْقَطْعُ» وَذَكَرَ فِي ضَالَّة الْإِبِل وَالْغنم كَمَا ذكر غَيْرُهُ قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ فَقَالَ: «مَا كَانَ مِنْهَا فِي الطَّرِيقِ الْمِيتَاءِ وَالْقَرْيَةِ الْجَامِعَةِ فَعَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ وَإِنْ لَمْ يَأْتِ فَهُوَ لَكَ وَمَا كَانَ فِي الْخَرَابِ الْعَادِيِّ فَفِيهِ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ» . رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَرَوَى أَبُو دَاوُدَ عَنْهُ مِنْ قَوْله: وَسُئِلَ عَن اللّقطَة إِلَى آخِره
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ سے درخت پر لٹکے ہوئے پھل کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کوئی ضرورت مند شخص، جو کہ کپڑے میں ڈال کر لے جانے والا نہ ہو، وہاں سے کھا لے تو اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں، اور جو شخص وہاں سے کچھ ساتھ لے آئے تو اس پر دو گناہ تاوان اور سزا ہے، اور جو شخص جنس کے ڈھیر لگ جانے کے بعد وہاں سے ڈھال کی قیمت کے برابر چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ “ اور گم شدہ اونٹ اور گم شدہ بکری کے بارے میں بھی دوسری چیزوں کی طرح ہی ذکر کیا گیا ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں، آپ سے لقطہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ شارع عام اور بڑی بستی سے ملے تو پھر تو ایک سال تک اس کا اعلان کر، اگر اس کا مالک آ جائے تو وہ اس کے حوالے کر، اور اگر کوئی مالک نہ آئے تو پھر وہ تیری ہے۔ اور اگر وہ کسی بے آباد قدیم جگہ سے ملے تو پھر اس میں اور مدفون خزینے میں پانچواں حصہ ہے۔ “ نسائی۔ ابوداؤد ؒ نے بھی انہی سے روایت کیا ہے اور وہ حدیث: سُئِلَ عَنِ اللُّقْطَۃِ سے آخر تک مروی ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ النسائی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه النسائي (85/8 ح 4961) و أبو داود (1710)»
وعن ابي سعيد الخدري: ان علي بن ابي طالب رضي الله عنه وجد دينارا فاتى به فاطمة رضي الله عنها فسال عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هذا رزق الله» فاكل منه رسول الله صلى الله عليه وسلم واكل علي وفاطمة رضي الله عنهما فلما كان بعد ذلك اتت امراة تنشد الدينار فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا علي اد الدينار» . رواه ابو داود وَعَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ: أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجَدَ دِينَارًا فَأتى بِهِ فَاطِمَة رَضِي الله عَنْهَا فَسَأَلَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذَا رِزْقُ اللَّهِ» فَأَكَلَ مِنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأكل عَليّ وَفَاطِمَة رَضِي الله عَنْهُمَا فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَتِ امْرَأَةٌ تَنْشُدُ الدِّينَارَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عَلِيُّ أَدِّ الدِّينَارَ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو ایک دینار ملا وہ اسے فاطمہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آئے اور اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو اللہ کا رزق ہے۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کھایا۔ جب اگلا روز ہوا تو ایک عورت دینار کا اعلان کرتی ہوئی آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”علی! دینار واپس کرو۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (1714)»
وعن الجارود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ضالة المسلم حرق النار» . رواه ابو داود وَعَنِ الْجَارُودِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ضَالَّةُ الْمُسْلِمِ حَرَقُ النَّارِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
جارود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کی گم شدہ چیز (اگر وہ اعلان کیے بغیر اٹھا لی جائے تو وہ) آگ کا شعلہ ہے۔ “ صحیح، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الدارمي (266/2 ح 2604، نسخة محققة: 2643 وسنده حسن لذاته) [و أحمد (80/5) و النسائي في الکبري (5792)] ٭ و للحديث طرق کثيرة.»