عن مخلد بن خفاف قال: ابتعت غلاما فاستغللته ثم ظهرت منه على عيب فخاصمت فيه إلى عمر بن عبد العزيز فقضى لي برده وقضى علي برد غلته فاتيت عروة فاخبرته فقال: اروح إليه العشية فاخبره ان عائشة اخبرتني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى في مثل هذا: ان الخراج بالضمان فراح إليه عروة فقضى لي ان آخذ الخراج من الذي قضى به علي له. رواه في شرح السنة عَنْ مَخْلَدِ بْنِ خُفَافٍ قَالَ: ابْتَعْتُ غُلَامًا فَاسْتَغْلَلْتُهُ ثُمَّ ظَهَرْتُ مِنْهُ عَلَى عَيْبٍ فَخَاصَمْتُ فِيهِ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَقَضَى لِي بِرَدِّهِ وَقَضَى عَلَيَّ بِرَدِّ غَلَّتِهِ فَأَتَيْتُ عُرْوَةَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: أَرُوحُ إِلَيْهِ الْعَشِيَّةَ فَأُخْبِرُهُ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى فِي مِثْلِ هَذَا: أَنَّ الْخَرَاجَ بِالضَّمَانِ فَرَاحَ إِلَيْهِ عُرْوَةُ فَقَضَى لِي أَنْ آخُذَ الْخَرَاجَ مِنَ الَّذِي قَضَى بِهِ عَلَيِّ لَهُ. رَوَاهُ فِي شَرْحِ السُّنَّةِ
مخلد بن خُفاف بیان کرتے ہیں، میں نے ایک غلام خریدا تو میں نے اس سے آمدنی حاصل کی، پھر مجھے اس کے ایک نقص کا پتہ چلا تو میں اس کا مقدمہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کے پاس لے گیا تو انہوں نے اسے واپس کرنے کا فیصلہ میرے حق میں کیا اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی واپس لوٹانے کا فیصلہ میرے خلاف کیا، میں عروہ ؒ کے پاس گیا، اور انہیں سارا واقعہ بیان کیا تو انہوں نے فرمایا: میں پچھلے پہر ان کے پاس جاؤں گا اور انہیں بتاؤں گا کہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح کے معاملے کا فیصلہ کیا کہ خراج، ضمان کے بدلے میں ہے، عروہ ؒ پچھلے پہر ان کے پاس گئے (اور انہیں بتایا) تو انہوں نے میرے حق میں فیصلہ کیا کہ میں اس شخص سے وہ خراج کی رقم واپس لے لوں جو انہوں نے مجھ سے لے کر اسے دلوائی تھی۔ حسن، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه البغوي في شرح السنة (164/8 بعد ح 2119) [و أبو داود (3508) والترمذي (1285. 1286) و ابن ماجه (2242)]»
--. خریدنے اور بیچنے والے میں اختلاف ہو تو کیا کیا جائے
حدیث نمبر: 2880
اعراب
وعن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا اختلف البيعان فالقول قول البائع والمبتاع بالخيار» . رواه الترمذي وفي رواية ابن ماجه والدارمي قال: «البيعان إذا اختلفا والمبيع قائم بعينه وليس بينهما بينة فالقول ما قال البائع او يترادان البيع» وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ فَالْقَوْلُ قَوْلُ الْبَائِعِ وَالْمُبْتَاعُ بِالْخِيَارِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ مَاجَهْ وَالدَّارِمِيِّ قَالَ: «الْبَيِّعَانِ إِذَا اخْتَلَفَا وَالْمَبِيعُ قَائِمٌ بِعَيْنِهِ وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا بَيِّنَةٌ فَالْقَوْلُ مَا قَالَ الْبَائِعُ أَو يترادان البيع»
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب خریدو فروخت کرنے والوں کے درمیان اختلاف ہو جائے تو بیچنے والے کی بات معتبر ہو گی، جبکہ خریدار کو اختیار حاصل ہو گا۔ ترمذی، ابن ماجہ اور دارمی کی روایت میں ہے۔ فرمایا: ”جب خریدو فروخت کرنے والوں کے درمیان اختلاف ہو جائے جبکہ فروخت شدہ چیز ویسے ہی موجود ہو اور ان دونوں کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو تو بیچنے والے کی بات معتبر ہو گی، یا پھر وہ بیع واپس کر دیں گے۔ “ حسن، رواہ الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (1270) و ابن ماجه (2186) و الدارمي (250/2 ح 2552)»
وعن ابي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من اقال مسلما اقاله الله عثرته يوم القيامة» . رواه ابو داود وابن ماجه وفي «شرح السنة» بلفظ «المصابيح» عن شريح الشامي مرسلا وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا أقاله اللَّهُ عَثْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ وَفِي «شَرْحِ السُّنَّةِ» بِلَفْظِ «الْمَصَابِيحِ» عَن شُرَيْح الشَّامي مُرْسلا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی مسلمان کی بیع واپس کر دے تو روز قیامت اللہ تعالیٰ اس کی لغزشیں معاف فرما دے گا۔ “ ابوداؤد، ابن ماجہ۔ جبکہ شرح السنہ میں مصابیح کے الفاظ کے ساتھ شریح شامی ؒ سےمرسل روایت ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ و فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أبو داود (3460) و ابن ماجه (2199) والبغوي في شرح السنة (161/8 ح 2117) ٭ الأعمش مدلس و عنعن و للحديث شواھد ضعيفة.»
عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اشترى رجل ممن كان قبلكم عقارا من رجل فوجد الذي اشترى العقار في عقاره جرة فيها ذهب فقال له الذي اشترى العقار: خذ ذهبك عني إنما اشتريت العقار ولم ابتع منك الذهب. فقال بائع الارض: إنما بعتك الارض وما فيها فتحاكما إلى رجل فقال الذي تحاكما إليه: الكما ولد؟ فقال احدهما: لي غلام وقال الآخر: لي جارية. فقال: انكحوا الغلام الجارية وانفقوا عليهما منه وتصدقوا عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم: اشْترى رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ عَقَارًا مِنْ رَجُلٍ فَوَجَدَ الَّذِي اشْتَرَى الْعَقَارَ فِي عَقَارِهِ جَرَّةً فِيهَا ذَهَبٌ فَقَالَ لَهُ الَّذِي اشْتَرَى الْعَقَارَ: خُذْ ذَهَبَكَ عَنِّي إِنَّمَا اشْتَرَيْتُ الْعَقَارَ وَلَمْ أَبْتَعْ مِنْكَ الذَّهَبَ. فَقَالَ بَائِعُ الْأَرْضِ: إِنَّمَا بِعْتُكَ الْأَرْضَ وَمَا فِيهَا فَتَحَاكَمَا إِلَى رَجُلٍ فَقَالَ الَّذِي تَحَاكَمَا إِلَيْهِ: أَلَكُمَا وَلَدٌ؟ فَقَالَ أَحَدُهُمَا: لي غُلَام وَقَالَ الآخر: لي جَارِيَة. فَقَالَ: أَنْكِحُوا الْغُلَامَ الْجَارِيَةَ وَأَنْفِقُوا عَلَيْهِمَا مِنْهُ وَتَصَدَّقُوا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے زمانے میں ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے زمین خریدی تو جس شخص نے زمین خریدی تھی اس نے زمین میں ایک گھڑا پایا جس میں سونا تھا، جس شخص نے زمین خریدی تھی اس نے اسے کہا: تم اپنا سونا مجھ سے لے لو کیونکہ میں نے تو تم سے صرف زمین خریدی تھی، سونا نہیں خریدا تھا۔ زمین بیچنے والے نے کہا: میں نے زمین اور جو کچھ اس میں ہے سب تمہیں بیچ دیا تھا، وہ دونوں اپنا مقدمہ ایک آدمی کے پاس لے گئے، تو جس آدمی کے پاس وہ مقدمہ لے کر گئے تھے، اس نے کہا: کیا تمہاری اولاد ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا: میرا ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا: میری ایک لڑکی ہے، تو اس آدمی نے کہا: لڑکے کی لڑکی سے شادی کر دو، اور اس (مال) کو ان دونوں پر خرچ کر دو اور اس میں سے کچھ صدقہ کر دو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2472) و مسلم (1721/21)»
عن ابن عباس قال: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة وهم يسلفون في الثمار السنة والسنتين والثلاث فقال: «من سلف في شيء فليسلف في كيل معلوم ووزن معلوم إلى اجل معلوم» عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يُسْلِفُونَ فِي الثِّمَارِ السَّنَةَ وَالسَّنَتَيْنِ وَالثَّلَاثِ فَقَالَ: «مَنْ سلف فِي شَيْءٍ فَلْيُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُوم إِلَى أجل مَعْلُوم»
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہ لوگ پھلوں کے بارے میں، سال، دو سال اور تین سال کے لیے بیع سلم کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی چیز میں بیع سلم کرے تو وہ طے شدہ ناپ و وزن اور طے شدہ مدت کے لیے بیع سلم (کسی چیز کی پیشگی رقم دے کر) کرے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2239) و مسلم (127/ 1604)»
وعن عائشة قالت: اشترى رسول الله صلى الله عليه وسلم طعاما من يهودي إلى اجل ورهنه درعا له من حديد وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتِ: اشْتَرَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا من يَهُودِيٍّ إِلَى أَجَلٍ وَرَهَنَهُ دِرْعًا لَهُ مِنْ حَدِيد
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک یہودی سے ایک مدت کے لیے غلہ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی لوہے کی زرہ اس کے پاس گروی رکھی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2068) و مسلم (1603/126)»
--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ گروی رکھی ہوئی تھی
حدیث نمبر: 2885
اعراب
وعنها قالت: توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم ودرعه مرهونة عند يهودي بثلاثين صاعا من شعير. رواه البخاري وَعَنْهَا قَالَتْ: تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدِرْعُهُ مَرْهُونَةٌ عِنْدَ يَهُودِيٍّ بِثَلَاثِينَ صَاعا من شعير. رَوَاهُ البُخَارِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو آپ کی زرہ تیس صاع جو کے عوض ایک یہودی کے پاس گروی تھی۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2916)»
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الظهر يركب بنفقته إذا كان مرهونا ولبن الدر يشرب بنفقته إذا كان مرهونا وعلى الذي يركب ويشرب النفقة» . رواه البخاري وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الظَّهْرُ يُرْكَبُ بِنَفَقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا وَلَبَنُ الدَّرِّ يُشْرَبُ بِنَفَقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا وَعَلَى الَّذِي يركب وَيشْرب النَّفَقَة» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب سواری کا جانور گروی ہو تو بقدر خرچ اس پر سواری کی جاسکتی ہے اور اگر دودھ والا جانور گروی ہو تو بقدر خرچ اس کا دودھ پیا جا سکتا ہے، اور جو شخص سواری کرتا ہے اور دودھ پیتا ہے، اسی کے ذمہ خرچہ ہے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2512)»
--. گروی رکھی ہوئی چیز کے نفع و نقصان کا بیان، بروایت دارقطنی
حدیث نمبر: 2887
اعراب
عن سعيد بن المسيب ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يغلق الرهن الرهن من صاحبه الذي رهنه له غنمه وعليه غرمه» . رواه الشافعي مرسلا عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَغْلَقُ الرَّهْنُ الرَّهْنَ مِنْ صَاحِبِهِ الَّذِي رَهَنَهُ لَهُ غنمه وَعَلِيهِ غرمه» . رَوَاهُ الشَّافِعِي مُرْسلا
سعد بن مسیّب ؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”رہن، مرہونہ چیز کو اس کے مالک سے، جس نے اسے رہن رکھا ہے، نہیں روک سکتا، اس کا فائدہ بھی اسی (مالک) کو ہو گا اور اس کا نقصان بھی اسی کو ہو گا۔ “ امام شافعی ؒ نے اسے مرسل روایت کیا ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ الشافعی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الشافعي في الأم (186/3. 167) ٭ السند مرسل و انظر الحديث الآتي (2888)»
--. گروی رکھی ہوئی چیز کے نفع و نقصان کا بیان، بروایت الحاکم
حدیث نمبر: 2888
اعراب
وروي مثله او مثل معناه لا يخالف عنه عن ابي هريرة متصلا وَرُوِيَ مثله أَو مثل مَعْنَاهُ لَا يُخَالف عَنهُ عَن أبي هُرَيْرَة مُتَّصِلا
اس روایت کی مثل یا اس کے معنی کا مثل جو اس کے مخالف نہیں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے متصل روایت بھی ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه ابن ماجه (2441) ٭ الزھري مدلس و عنعن فالسند غير متصل و انظر الحديث السابق (2887)»