وعن ابي رافع قال: تزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم ميمونة وهو حلال وبنى بها وهو حلال وكنت انا الرسول بينهما. رواه احمد والترمذي وقال: هذا حديث حسن وَعَن أبي رافعٍ قَالَ: تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ حَلَالٌ وَبَنَى بِهَا وَهُوَ حَلَالٌ وَكُنْتُ أَنَا الرَّسُولَ بَيْنَهُمَا. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ
ابورافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میمونہ رضی اللہ عنہ سے شادی کی تو آپ حالت احرام میں نہیں تھے، اور جب آپ نے ان سے خلوت کی تب بھی آپ حالت احرام میں نہیں تھے، اور میں دونوں کے درمیان قاصد و واسطہ تھا۔ احمد، ترمذی۔ اور فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔ صحیح، رواہ احمد و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أحمد (392/6. 393 ح 27739) والترمذي (841)»
عن الصعب بن جثامة انه اهدى رسول الله صلى الله عليه وسلم حمارا وحشيا وهو بالابواء او بودان فرد عليه فلما راى ما في وجهه قال: «إنا لم نرده عليك إلا انا حرم» عَن الصعب بن جثامة أَنه أهْدى رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِمَارًا وَحْشِيًّا وَهُوَ بِالْأَبْوَاءِ أَوْ بِوَدَّانَ فَرَدَّ عَلَيْهِ فَلَمَّا رأى مَا فِي وَجْهَهُ قَالَ: «إِنَّا لَمْ نَرُدَّهُ عَلَيْكَ إِلَّا أنَّا حُرُمٌ»
صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے مقام ابواء یا مقام ودان پر ایک جنگلی گدھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا آپ نے اسے قبول نہ فرمایا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے چہرے پر افسردگی کے آثار دیکھے تو فرمایا: ”ہم نے اس لیے تمہیں واپس کیا ہے کہ ہم حالت احرام میں ہیں۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1825) و مسلم (1193/50)»
وعن ابي قتادة انه خرج مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فتخلف مع بعض اصحابه وهم محرمون وهو غير محرم فراوا حمارا وحشيا قبل ان يراه فلما راوه تركوه حتى رآه ابو قتادة فركب فرسا له فسالهم ان يناولوه سوطه فابوا فتناوله فحمل عليه فعقره ثم اكل فاكلوا فندموا فلما ادركوا رسول الله صلى الله عليه وسلم سالوه. قال: «هل معكم منه شيء؟» قالوا: معنا رجله فاخذها النبي صلى الله عليه وسلم فاكلها وفي رواية لهما: فلما اتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «امنكم احد امره ان يحمل عليها؟ او اشار إليها؟» قالوا: لا قال: «فكلوا ما بقي من لحمها» وَعَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَخَلَّفَ مَعَ بَعْضِ أَصْحَابِهِ وَهُمْ مُحْرِمُونَ وَهُوَ غَيْرُ مُحْرِمٍ فَرَأَوْا حِمَارًا وَحْشِيًّا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ فَلَمَّا رَأَوْهُ تَرَكُوهُ حَتَّى رَآهُ أَبُو قَتَادَةَ فَرَكِبَ فَرَسًا لَهُ فَسَأَلَهُمْ أَنْ يُنَاوِلُوهُ سَوْطَهُ فَأَبَوْا فَتَنَاوَلَهُ فَحَمَلَ عَلَيْهِ فَعَقَرَهُ ثُمَّ أَكَلَ فَأَكَلُوا فَنَدِمُوا فَلَمَّا أَدْرَكُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلُوهُ. قَالَ: «هَلْ مَعَكُمْ مِنْهُ شَيْءٌ؟» قَالُوا: مَعَنَا رِجْلُهُ فَأَخَذَهَا النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم فَأكلهَا وَفِي رِوَايَةٍ لَهُمَا: فَلَمَّا أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَمِنْكُمْ أَحَدٌ أَمَرَهُ أَنْ يَحْمِلَ عَلَيْهَا؟ أَوْ أَشَارَ إِلَيْهَا؟» قَالُوا: لَا قَالَ: «فَكُلُوا مَا بَقِيَ مِنْ لَحمهَا»
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (حدیبیہ کے سال) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے تو وہ اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے، وہ حالت احرام میں تھے جبکہ وہ خود حالت احرام میں نہیں تھے، انہوں نے میرے دیکھنے سے پہلے ایک جنگلی گدھا دیکھا، جب انہوں نے اسے دیکھا تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا حتی کہ ابوقتادہ نے اسے دیکھ لیا، وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور ان (اپنے ساتھیوں) سے مطالبہ کیا کہ وہ اسے اس کا کوڑا پکڑا دیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا، انہوں نے خود اسے لیا اور اس پر حملہ کر دیا اور اسے زخمی کر دیا، پھر انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے اسے کھایا، لیکن انہیں ندامت و پریشانی ہوئی، جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اس کا کوئی حصہ تمہارے پاس ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: اس کا ایک پاؤں ہمارے پاس ہے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے لیا اور اسے کھایا۔ اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی دوسری روایت میں ہے: جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کسی نے اسے کہا تھا کہ اس پر حملہ کرو؟ یا اس کی طرف اشارہ کیا ہو؟“ انہوں نے عرض کیا، نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا جو گوشت باقی بچا ہے اسے کھاؤ۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2854) و مسلم (57. 1196/58)»
وعن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: خمس لا جناح على من قتلهن في الحل والإحرام: الفارة والغراب والحداة والعقرب والكلب العقور وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَمْسٌ لَا جُنَاحَ عَلَى من قتلَهُنّ فِي الْحل وَالْإِحْرَامِ: الْفَأْرَةُ وَالْغُرَابُ وَالْحِدَأَةُ وَالْعَقْرَبُ وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ
ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ چیزیں ایسی ہیں جنہیں حرم میں حالت احرام میں قتل کر دینے پر کوئی گناہ نہیں: چوہیا، کوّا، چیل، بچھو اور کاٹنے والا کتا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3315) و مسلم (72/ 1199)»
وعن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: خمس فواسق يقتلن في الحل والحرم: الحية والغراب الابقع والفارة والكلب العقور والحديا وَعَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَمْسٌ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِي الْحِلِّ وَالْحَرَمِ: الْحَيَّةُ وَالْغُرَابُ الْأَبْقَعُ وَالْفَأْرَةُ وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ وَالْحُدَيَّا
عائشہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ قسم کے جانور فاسق (نقصان دہ) ہیں، انہیں حل و حرم ہر حالت میں قتل کیا جائے گا، سانپ، کوّا جو سیاہ و سفید ہو، چوہیا، کاٹنے والا کتا اور چیل۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3314) و مسلم (1198/67)»
عن جابر رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لحم الصيد لكم في الإحرام حلال ما لم تصيدوه او يصاد لكم» . رواه ابو داود والترمذي والنسائي عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَحْمُ الصَّيْدِ لَكُمْ فِي الْإِحْرَامِ حَلَالٌ مَا لَمْ تَصِيدُوهُ أَوْ يُصَادُ لَكُمْ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيّ وَالنَّسَائِيّ
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس شکار کا گوشت تمہارے لیے حالت احرام میں حلال ہے جسے تم نے شکار کیا ہو نہ وہ تمہاری خاطر شکار کیا گیا ہو۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد و الترمذی و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (1851) والترمذي (846) و النسائي (187/5ح 2830) ٭ المطلب: لم يسمع من جابر رضي الله عنه کما قال أبو حاتم الرازي (المراسيل ص 210)»
وعن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الجراد من صيد البحر» . رواه ابو داود والترمذي وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْجَرَادُ مِنْ صَيْدِ الْبَحْرِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ٹڈی (مکڑی) سمندری شکار کے زمرے میں ہے۔ “ حسن، رواہ ابوداؤد و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (1853 وسنده حسن، 1854 و سنده ضعيف جدًا، فيه أبو المھزم: متروک) والترمذي (850 وقال: غريب، وسنده ضعيف جدًا، فيه أبو المھزم)»
وعن ابي سعيد الخدري عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «يقتل المحرم السبع العادي» . رواه الترمذي وابو داود وابن ماجه وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَقْتُلُ الْمُحْرِمُ السَّبُعَ الْعَادِيَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مُحرِم چیر پھاڑ کرنے والے درندے کو مار سکتا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (838 و قال: حسن) و أبو داود (1848) و ابن ماجه (3089) ٭ يزيد بن أبي زياد: ضعيف.»
وعن عبد الرحمن بن ابي عمار قال: سالت جابر بن عبد الله عن الضبع اصيد هي؟ فقال: نعم فقلت: ايؤكل؟ فقال: نعم فقلت: سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم. رواه الترمذي والنسائي والشافعي وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِيِ عَمَّارٍ قَالَ: سَأَلت جابرَ بنَ عبدِ اللَّهِ عَنِ الضَّبُعِ أَصَيْدٌ هِيَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ فَقُلْتُ: أَيُؤْكَلُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ فَقُلْتُ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حديثٌ حسنٌ صَحِيح
عبدالرحمٰن بن ابی عمار بیان کرتے ہیں، میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بجو کے بارے میں سوال کیا وہ شکار ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے کہا: کیا وہ کھایا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے کہا: آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، ترمذی، نسائی، شافعی۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ صحیح، رواہ الترمذی و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (851) و النسائي (191/5 ح 2839، 200/7 ح 4328) والشافعي في الأم (193/2)»
وعن جابر قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الضبع؟ قال: «هو صيد ويجعل فيه كبشا إذا اصابه المحرم» . رواه ابو داود وابن ماجه والدارمي وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الضَّبُعِ؟ قَالَ: «هُوَ صَيْدٌ وَيُجْعَلُ فِيهِ كَبْشًا إِذَا أَصَابَهُ الْمُحْرِمُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه والدارمي
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے بجو کھانے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شکار ہے، اور جب مُحرِم اس کا شکار کرے تو اس کے بدلے اس پر ایک مینڈھا ہے۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (3801) و ابن ماجه (3085) و الدارمي (74/2، 75 ح 1948)»