وعن ابن عباس، قال: يلبي المقيم او المعتمر حتى يستلم الحجر). رواه ابو داود وقال: وروي موقوفا على ابن عباس. وَعَن ابنِ عبَّاسٍ، قَالَ: يُلَبِّي المقيمُ أَوِ المعتَمِرُ حَتَّى يستلمَ الْحَجَرَ). رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَقَالَ: وَرُوِيَ مَوْقُوفًا على ابنِ عبَّاس.
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، مقیم (مکے کا رہنے والا) یا عمرہ کرنے والا حجر اسود کے استلام تک تلبیہ پکارتا رہتا تھا۔ ابوداؤد۔ اور فرمایا: اور یہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ پر موقوف روایت کی گئی ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (1817) [والترمذي (919) و صححه] ٭ فيه محمد بن عبد الرحمٰن بن أبي ليلي، قال البيھقي: ’’رفعه خطأ و کان ابن أبي ليلي ھذا کثير الوھم و خاصة إذا روي عن عطأ فيخطئ کثيرًا، ضعفه أھل النقل مع کبر محله‘‘»
عن يعقوب بن عاصم بن عروة انه سمع الشريد يقول: افضت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فما مست قدماه الارض حتى اتى جمعا. رواه ابو داود عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُرْوَةَ أَنَّهُ سمع الشَّريدَ يَقُولُ: أَفَضْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا مَسَّتْ قَدَمَاهُ الْأَرْضَ حَتَّى أَتَى جمْعاً. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
یعقوب بن عاصم بن عروہ سے روایت ہے کہ انہوں نے شرید رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ میں عرفات سے مزدلفہ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ واپس آیا تو مزدلفہ پہنچنے تک آپ کے قدم مبارک زمین پر نہیں لگے۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سواری پر آئے) اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (1925 ب و تحفة الأشراف: 4842) و أحمد (389/4 ح 19694)»
وعن ابن شهاب قال: اخبرني سالم ان الحجاج بن يوسف عام نزل بابن الزبير سال عبد الله: كيف نصنع في الموقف يوم عرفة؟ فقال سالم إن كنت تريد السنة فهجر بالصلاة يوم عرفة فقال عبد الله بن عمر: صدق إنهم كانوا يجمعون بين الظهر والعصر في السنة فقلت لسالم: افعل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال سالم: وهل يتبعون في ذلك إلا سنته؟ رواه البخاري وَعَن ابنِ شهابٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ أَنَّ الْحَجَّاجَ بْنَ يُوسُفَ عَامَ نَزَلَ بِابْنِ الزُّبَيْرِ سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ: كَيْفَ نَصْنَعُ فِي الْمَوْقِفِ يَوْمَ عَرَفَةَ؟ فَقَالَ سَالِمٌ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ السُّنَّةَ فَهَجِّرْ بِالصَّلَاةِ يَوْمَ عَرَفَةَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: صَدَقَ إِنَّهُمْ كَانُوا يَجْمَعُونَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ فِي السُّنَّةِ فَقُلْتُ لِسَالِمٍ: أَفَعَلَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ سَالِمٌ: وَهل يتَّبعونَ فِي ذلكَ إِلا سنَّتَه؟ رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن شہاب بیان کرتے ہیں، سالم نے مجھے بتایا کہ جس سال حجاج بن یوسف، ابن زبیر کے مدمقابل آیا تو اس نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مسئلہ دریافت کیا، ہم عرفہ کے دن وقوف میں (نمازوں کا) کیا کریں؟ سالم نے کہا: اگر تم سنت کی اتباع کرنا چاہتے ہو تو پھر عرفہ کے دن نماز کو جلدی پڑھو، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس نے سچ کہا ہے، وہ ظہر و عصر کو سنت کے مطابق ہی جمع کیا کرتے تھے۔ میں نے سالم سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کیا؟ تو سالم نے کہا: وہ (صحابہ رضی اللہ عنہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہی کی اتباع کرتے ہیں۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (1662)»
عن جابر قال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم يرمي على راحلته يوم النحر ويقول: «لتاخذوا مناسككم فإني لا ادري لعلي لا احج بعد حجتي هذه» . رواه مسلم عَن جَابر قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي عَلَى رَاحِلَتِهِ يَوْمَ النَّحْرِ وَيَقُولُ: «لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَحُجُّ بعد حجتي هَذِه» . رَوَاهُ مُسلم
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے قربانی کے دن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو، اپنی سواری پر بیٹھے ہوئے کنکریاں مارتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے: ”تم اپنے حج کے طریقے سیکھ لو، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ شاید میں اپنے اس حج کے بعد حج نہ کر سکوں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1297/310)»
وعنه قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم رمى الجمرة بمثل حصى الخذف. رواه مسلم وَعَنْهُ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَى الْجَمْرَةَ بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ. رَوَاهُ مُسلم
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چٹکی میں لے کر چلائی جانے والی کنکری کے برابر کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1299/313)»
وعنه قال: رمى رسول الله صلى الله عليه وسلم الجمرة يوم النحر ضحى واما بعد ذلك فإذا زالت الشمس وَعَنْهُ قَالَ: رَمَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَمْرَةَ يَوْمَ النَّحْرِ ضُحًى وَأَمَّا بَعْدَ ذَلِكَ فَإِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ
جابر رضی ا��لہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے دن چاشت کے وقت کنکریاں ماریں، جبکہ اس کے بعد سورج ڈھل جانے کے بعد ماریں۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (الحج باب 134 قبل ح 1746 تعليقًا عن جابر رضي الله عنه.) و مسلم (1300/314)»
وعن عبد الله بن مسعود: انه انتهى إلى الجمرة الكبرى فجعل البيت عن يساره ومنى عن يمينه ورمى بسبع حصيات يكبر مع كل حصاة ثم قال: هكذا رمى الذي انزلت عليه سورة البقرة وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ: أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى فَجَعَلَ الْبَيْتَ عَنْ يَسَارِهِ وَمِنًى عَنْ يَمِينِهِ وَرَمَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَمَى الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ جمرہ کبری (بڑے شیطان) کے پاس پہنچے، بیت اللہ کو اپنی دائیں جانب اور منیٰ کو اپنی بائیں جانب رکھا اور سات کنکریاں ماریں، وہ ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے تھے، پھر انہوں نے فرمایا: جس ذاتِ اقدس پر سورۂ بقرہ نازل ہوئی تھی، انہوں نے بھی اسی طرح کنکریاں ماریں تھیں۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1747) و مسلم (305. 309/ 1296)»
وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الاستجمار تو ورمي الجمار تو والسعي بين الصفا والمروة تو والطواف تو وإذا استجمر احدكم فليستجمر بتو» . رواه مسلم وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الِاسْتِجْمَارُ تَوٌّ وَرَمْيُ الْجِمَارِ توٌّ وَالسَّعْيُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ تَوٌّ وَالطَّوَافُ تَوٌّ وَإِذَا اسْتَجْمَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْتَجْمِرْ بِتَوٍّ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”استنجا کے لیے ڈھیلے استعمال کرنے کی تعداد طاق ہے، کنکریاں مارنا طاق ہے، صفا مروہ کے درمیان سعی طاق ہے اور طواف طاق ہے، جب تم میں سے کوئی استنجا کے لیے ڈھیلے استعمال کرے تو وہ طاق عدد میں ڈھیلے استعمال کرے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1300/315)»
عن قدامة بن عبد الله بن عمار قال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم يرمي الجمرة يوم النحر على ناقة صهباء ليس ضرب ولا طرد وليس قيل: إليك إليك. رواه الشافعي والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي عَنْ قُدَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي الْجَمْرَةَ يَوْمَ النَّحْرِ عَلَى نَاقَةٍ صَهْبَاءَ لَيْسَ ضَرْبٌ وَلَا طَرْدٌ وَلَيْسَ قِيلُ: إِلَيْكَ إِليك. رَوَاهُ الشَّافِعِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَالدَّارِمِيُّ
قدامہ بن عبداللہ بن عمار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قربانی کے دن اپنی سرخی مائل سفید اونٹنی پر بیٹھ کر کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا، وہاں کسی کو روکا جا رہا تھا نہ ہٹایا جا رہا تھا اور نہ ہی یہ کہا جا رہا تھا کہ ہٹ جاو ٔ! ہٹ جاؤ! حسن، رواہ الشافعی و الترمذی و النسائی و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، تقدم: 2583، رواه الشافعي في الأم (213/2) و الترمذي (903 وقال: حسن صحيح) و النسائي (270/5 ح 3063) و ابن ماجه (3035) والدرامي (62/2ح 1907)»
وعن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إنما جعل رمي الجمار والسعي بين الصفا والمروة لإقامة ذكر الله» . رواه الترمذي والدارمي وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح وَعَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّمَا جُعِلَ رَمْيُ الْجِمَارِ وَالسَّعْيُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللَّهِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
عائشہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کنکریاں مارنا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا اللہ کا ذکر قائم کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ “ ترمذی، دارمی۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (902) والدارمي (50/2 ح 1860)»