وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا قام احدكم من الليل فليفتح الصلاة بركعتين خفيفتين. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ مِنَ اللَّيْلِ فَلْيَفْتَحِ الصَّلَاة بِرَكْعَتَيْنِ خفيفتين. رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ��یں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی رات کو قیام کرے تو دو ہلکی رکعتوں سے آغاز کرے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (198/ 768)»
وعن ابن عباس قال: بت عند خالتي ميمونة ليلة والنبي صلى الله عليه وسلم عندها فتحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم مع اهله ساعة ثم رقد فلما كان ثلث الليل الآخر او بعضه قعد فنظر إلى السماء فقرا: (إن في خلق السماوات والارض واختلاف الليل والنهار لآيات لاولي الالباب حتى ختم السورة ثم قام إلى القربة فاطلق شناقها ثم صب في الجفنة ثم توضا وضوءا حسنا بين الوضوءين لم يكثر وقد ابلغ فقام فصلى فقمت وتوضات فقمت عن يساره فاخذ باذني فادارني عن يمينه فتتامت صلاته ثلاث عشرة ركعة ثم اضطجع فنام حتى نفخ وكان إذا نام نفخ فآذنه بلال بالصلاة فصلى ولم يتوضا وكان في دعائه: «اللهم اجعل في قلبي نورا وفي بصري نورا وفي سمعي نورا وعن يميني نورا وعن يساري نورا وفوقي نورا وتحتي نورا وامامي نورا وخلفي نورا واجعل لي نورا» وزاد بعضهم: «وفي لساني نورا» وذكر: وعصبي ولحمي ودمي وشعري وبشري) وفي رواية لهما: «واجعل في نفسي نورا واعظم لي نورا» وفي اخرى لمسلم: «اللهم اعطني نورا» وَعَن ابْن عَبَّاس قَالَ: بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ لَيْلَةً وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا فَتَحَدَّثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَهْلِهِ سَاعَةً ثُمَّ رَقَدَ فَلَمَّا كَانَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ أَوْ بَعْضُهُ قَعَدَ فَنَظَرَ إِلَى السَّمَاءِ فَقَرَأَ: (إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْل وَالنَّهَار لآيَات لأولي الْأَلْبَاب حَتَّى خَتَمَ السُّورَةَ ثُمَّ قَامَ إِلَى الْقِرْبَةِ فَأَطْلَقَ شِنَاقَهَا ثُمَّ صَبَّ فِي الْجَفْنَةِ ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءًا حَسَنًا بَيْنَ الْوُضُوءَيْنِ لَمْ يُكْثِرْ وَقَدْ أَبْلَغَ فَقَامَ فَصَلَّى فَقُمْتُ وَتَوَضَّأْتُ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَأَخَذَ بِأُذُنِي فَأَدَارَنِي عَنْ يَمِينِهِ فَتَتَامَّتْ صَلَاتُهُ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً ثُمَّ اضْطَجَعَ فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ وَكَانَ إِذَا نَامَ نَفَخَ فَآذَنَهُ بِلَالٌ بِالصَّلَاةِ فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ وَكَانَ فِي دُعَائِهِ: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا وَفِي بَصَرِي نُورًا وَفِي سَمْعِي نُورًا وَعَنْ يَمِينِي نُورًا وَعَنْ يَسَارِي نُورًا وَفَوْقِي نُورًا وتحتي نورا وأمامي نورا وَخَلْفِي نُورًا وَاجْعَلْ لِي نُورًا» وَزَادَ بَعْضُهُمْ: «وَفِي لِسَانِي نُورًا» وَذُكِرَ: وَعَصَبِي وَلَحْمِي وَدَمِي وَشِعَرِي وبشري) وَفِي رِوَايَةٍ لَهُمَا: «وَاجْعَلْ فِي نَفْسِي نُورًا وَأَعْظِمْ لِي نُورًا» وَفِي أُخْرَى لِمُسْلِمٍ: «اللَّهُمَّ أَعْطِنِي نورا»
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہ کے ہاں ایک رات بسر کی، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاں تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ کچھ دیر بات چیت کی اور پھر سو گئے، جب آخری تہائی رات یا کچھ رات باقی رہ گئی تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے، اور آسمان کی طرف نظر اٹھا کر یہ آیت تلاوت فرمائی: ”بے شک زمین و آسمان کی تخلیق میں اور شب و روز کے آنے جانے میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ “ حتیٰ کہ آپ نے سورت مکمل فرمائی، پھر آپ مشکیزے کی طرف گئے، پھر اس کا منہ کھول کر ٹب میں پانی لیا اور افراط و تفریط کے بغیر خوب اچھی طرح وضو کیا، پھر آپ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، میں بھی کھڑا ہوا اور وضو کر کے آپ کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپ نے مجھے کان سے پکڑ کر گھما کر اپنے دائیں جانب کر لیا، آپ نے تیرہ رکعت نماز مکمل کی، پھر آپ لیٹ گئے، اور سو گئے حتیٰ کہ آپ خراٹے بھرنے لگے، اور جب آپ سو جاتے تو خراٹے بھرتے، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز کی اطلاع دی، پس آپ نے اور وضو نہ کیا اور آپ یہ دعا کیا کرتے تھے: ”اے اللہ! میرے دل میں، میری آنکھوں میں، میرے کانوںمیں، میرے دائیں، میرے بائیں، میرے اوپر، میرے نیچے، میرے آگے اور میرے پیچھے اور میرے لیے نور کر دے۔ “ اور ان میں سے بعض نے یہ اضافہ نقل کیا ہے: ”میری زبان میں نور کر دے۔ “ اور یہ بھی ذکر کیا ہے: ”میرے پٹھے، گوشت، میرا خون، میرے بال اور میرا بدن نورانی بنا دے۔ “ متفق علیہ۔ اور صحیحین کی روایت میں ہے: ”اور میرے نفس میں نور اور بہت ہی نور بخش۔ “ اور ایک دوسری روایت میں جو مسلم میں ہے: ”اے اللہ! تو مجھے نور عطا فرما۔ “
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6316) ومسلم (181 / 763) [والرواية الأولٰي 189/ 763] ٭ الرواية الثانية عند مسلم (191/ 763)»
وعنه: انه رقد عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستيقظ فتسوك وتوضا وهو يقول: (إن في خلق السماوات والارض...) حتى ختم السورة ثم قام فصلى ركعتين اطال فيهما القيام والركوع والسجود ثم انصرف فنام حتى نفخ ثم فعل ذلك ثلاث مرات ست ركعات كل ذلك يستاك ويتوضا ويقرا هؤلاء الآيات ثم اوتر بثلاث. رواه مسلم وَعَنْهُ: أَنَّهُ رَقَدَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَيْقَظَ فَتَسَوَّكَ وَتَوَضَّأَ وَهُوَ يَقُول: (إِن فِي خلق السَّمَاوَات وَالْأَرْض...) حَتَّى خَتَمَ السُّورَةَ ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ أَطَالَ فِيهِمَا الْقِيَامَ وَالرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ ثُمَّ انْصَرَفَ فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ ثُمَّ فَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ سِتَّ رَكَعَاتٍ كُلُّ ذَلِكَ يَسْتَاكُ وَيَتَوَضَّأُ وَيَقْرَأُ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ ثُمَّ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ. رَوَاهُ مُسلم
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں سوئے، آپ بیدار ہوئے، مسواک کی اور وضو کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے: ”بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں،،،،،۔ “ آخر سورت تک۔ پھر آپ کھڑے ہوئے دو رکعتیں پڑھیں ان میں قیام اور رکوع و سجود لمبا کیا، پھر آپ آ کر سو گئے حتیٰ کہ آپ خراٹے بھرنے لگے، پھر آپ نے تین مرتبہ ایسے کرتے ہوئے چھ رکعتیں پڑھیں، آپ ہر مرتبہ مسواک کرتے، وضو کرتے اور ان آیات کی تلاوت فرماتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین وتر پڑھے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (191/ 763)»
وعن زيد بن خالد الجهني انه قال: لارمقن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم الليلة فصلى ركعتين خفيفتين ثم صلى ركعتين طويلتين طويلتين طويلتين ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما [ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما] ثم اوتر فذلك ثلاث عشرة ركعة. رواه مسلم قوله: ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما اربع مرات هكذا في صحيح مسلم وافراده من كتاب الحميدي وموطا مالك وسنن ابي داود وجامع الاصول وَعَن زيد بن خَالِد الْجُهَنِيّ أَنَّهُ قَالَ: لَأَرْمُقَنَّ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّيْلَةَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا [ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا] ثُمَّ أَوْتَرَ فَذَلِكَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً. رَوَاهُ مُسْلِمٌ قَوْله: ثمَّ صلى رَكْعَتَيْنِ وهما دون اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا أَرْبَعَ مَرَّاتٍ هَكَذَا فِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ وأفراده من كتاب الْحميدِي وموطأ مَالك وَسنَن أبي دَاوُد وجامع الْأُصُول
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں آج رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز تہجد ملاحظہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو ہلکی سی رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں بہت ہی لمبی پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو پہلی دو سے قدرے مختصر تھیں، پھر دو رکعتیں ان سے کم لمبی پڑھیں، پھر دو رکعتیں ان سے کم لمبی پڑھیں، پھر آپ نے وتر پڑھا، یہ تیرہ رکعتیں ہوئیں۔ رواہ مسلم و مالک و ابوداؤد۔ امام مسلم ؒ نے زید رضی اللہ عنہ کا یہ قول: ”آپ نے رکعتیں پڑھیں اور وہ پہلی دو سے قدرے مختصر تھیں۔ “ چار مرتبہ ذکر کیا ہے، اور صحیح مسلم میں اور افراد مسلم میں کتاب الحمیدی اور موطا مالک، سنن ابی داؤد اور جامع الاصول میں اسی طرح مذکور ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (195/ 765) و مالک في الموطأ (1/ 122 ح 265) و أبو داود (1366) و ذکره ابن الأثير في جامع الأصول (52/7 ح 4192)»
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: لما بدن رسول الله صلى الله عليه وسلم وثقل كان اكثر صلاته جالسا وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: لَمَّا بَدَّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَقُلَ كَانَ أَكْثَرُ صَلَاتِهِ جَالِسًا
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمر رسیدہ اور بوجھل ہو گئے تو آپ زیادہ تر بیٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1118) و مسلم (117/ 732)»
وعن عبد الله بن مسعود قال: لقد عرفت النظائر التي كان النبي صلى الله عليه وسلم يقرن بينهن فذكر عشرين سورة من اول المفصل على تاليف ابن مسعود سورتين في ركعة آخرهن (حم الدخان) و (عم يتساءلون) وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَقَدْ عَرَفْتُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرِنُ بَيْنَهُنَّ فَذَكَرَ عِشْرِينَ سُورَةً مِنْ أَوَّلِ الْمُفَصَّلِ عَلَى تَأْلِيفِ ابْنِ مَسْعُودٍ سُورَتَيْنِ فِي رَكْعَةٍ آخِرُهُنَّ (حم الدُّخان) و (عَم يتساءلون)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں ان ایک جیسی سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملا کر پڑھا کرتے تھے۔ ان میں سے آخری دو سورتیں حم الدخان اور عم یتساءلون ہیں۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4996) و مسلم (275/ 822)»
عن حذيفة: انه راى النبي صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل وكان يقول: «الله اكبر» ثلاثا «ذو الملكوت والجبروت والكبرياء والعظمة» ثم استفتح فقرا البقرة ثم ركع فكان ركوعه نحوا من قيامه فكان يقول في ركوعه: «سبحان ربي العظيم» ثم رفع راسه من الركوع فكان قيامه نحوا من ركوعه يقول: «لربي الحمد» ثم سجد فكان سجوده نحوا من قيامه فكان يقول في سجوده: «سبحان ربي الاعلى» ثم رفع راسه من السجود وكان يقعد فيما بين السجدتين نحوا من سجوده وكان يقول: «رب اغفر لي رب اغفر لي» فصلى اربع ركعات قرا فيهن (البقرة وآل عمران والنساء والمائدة او الانعام) شك شعبة) رواه ابو داود عَنْ حُذَيْفَةَ: أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ وَكَانَ يَقُولُ: «الله أكبر» ثَلَاثًا «ذُو الْمَلَكُوتِ وَالْجَبَرُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ» ثُمَّ اسْتَفْتَحَ فَقَرَأَ الْبَقَرَةَ ثُمَّ رَكَعَ فَكَانَ رُكُوعُهُ نَحْوًا مِنْ قِيَامِهِ فَكَانَ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ» ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَكَانَ قِيَامُهُ نَحْوًا مِنْ رُكُوعِهِ يَقُولُ: «لِرَبِّيَ الْحَمْدُ» ثُمَّ سَجَدَ فَكَانَ سُجُودُهُ نَحْوًا مِنْ قِيَامِهِ فَكَانَ يَقُولُ فِي سُجُودِهِ: «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى» ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ وَكَانَ يَقْعُدُ فِيمَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ نَحْوًا مِنْ سُجُودِهِ وَكَانَ يَقُولُ: «رَبِّ اغْفِرْ لِي رَبِّ اغْفِرْ لِي» فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ قَرَأَ فِيهِنَّ (الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ وَالنِّسَاءَ وَالْمَائِدَةَ أَوِ الْأَنْعَامَ) شَكَّ شُعْبَة) رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تہجد پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ نے تین بار اللہ اکبر کہا اور پھر دعا پڑھی، پھر آپ نے رکوع کیا تو آپ کا رکوع قیام کی طرح (طویل) تھا، آپ اپنے رکوع میں یہ دعا کیا کرتے تھے: ”پاک ہے میرا رب عظمت والا۔ “ پھر آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو آپ کا قیام رکوع کی طرح تھا، آپ وہاں یہ دعا کرتے تھے: ”میرے رب کے لیے ہر قسم کی حمد ہے۔ “ پھر آپ نے سجدہ کیا، آپ کے سجود بھی آپ کے قیام کے برابر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سجود میں یہ دعا کیا کرتے تھے، ”پاک ہے میرا رب بہت بلند۔ “ پھر آپ نے سجود سے سر اٹھایا، آپ اپنے سجدوں کے درمیان اپنے سجود کے برابر ہی بیٹھتے تھے، اور یہ دعا کیا کرتے تھے: ”میرے رب! مجھے بخش دے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار رکعتیں پڑھیں اور آپ نے ان میں سورۃ البقرہ، آل عمران، النسا، المائدہ یا الانعام تلاوت فرمائیں۔ شعبہ کو المائدہ یا الانعام میں شک ہوا ہے۔ صحیح، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (874) [وابن ماجه (897) والنسائي (2/ 199. 200 ح 1070)]»
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قام بعشر آيات لم يكتب من الغافلين ومن قام بمائة آية كتب من القانتين ومن قام بالف آية كتب من المقنطرين» . رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَامَ بِعَشْر آيَاتٍ لَمْ يُكْتَبْ مِنَ الْغَافِلِينَ وَمَنْ قَامَ بِمِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْقَانِتِينَ وَمَنْ قَامَ بِأَلْفِ آيَةٍ كُتِبَ من المقنطرين» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص دس آیات کا اہتمام کرتا ہے وہ غافلین میں نہیں لکھا جاتا، جو سو آیات (کی تلاوت و حفظ اور عمل) کا اہتمام کرتا ہے تو وہ اطاعت گزاروں میں لکھ دیا جاتا ہے اور جو شخص ہزار آیات کا اہتمام کرتا ہے تو وہ ڈھیروں اجر و ثواب پانے والوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (1398) [و صححه ابن خزيمة (1144) و ابن حبان (662)]»
وعن ابي هريرة قال: كان قراءة النبي صلى الله عليه وسلم بالليل يرفع طورا ويخفض طورا. رواه ابو داود وَعَن أبي هُرَيْرَة قَالَ: كَانَ قِرَاءَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ يَرْفَعُ طَوْرًا وَيَخْفِضُ طَوْرًا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تہجد میں قراءت کرتے وقت کبھی اپنی آواز بلند کرتے اور کبھی پست کرتے تھے۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (1328) [و صححه ابن خزيمة (1159) و ابن حبان (657) و الحاکم (310/1) ووافقه الذهبي.]»
وعن ابن عباس قال: كانت قراءة النبي صلى الله عليه وسلم على قدر ما يسمعه من في الحجرة وهو في البيت. رواه ابو داود وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَتْ قِرَاءَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَدْرِ مَا يَسْمَعُهُ مَنْ فِي الْحُجْرَةِ وَهُوَ فِي الْبَيْتِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قدر بلند آواز سے قراءت کرتے تھے کہ آپ گھر کے اندر قراءت کرتے تو صحن میں موجود شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قراءت سن سکتا تھا۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (1327) [والترمذي في الشمائل: 321]»