وعن طلق بن علي الحنفي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا ينظر الله عز وجل إلى صلاة عبد لا يقيم فيها صلبه بين ركوعها وسجودها» . رواه احمد وَعَن طلق بن عَليّ الْحَنَفِيّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَنْظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى صَلَاةِ عَبْدٍ لَا يُقِيمُ فِيهَا صُلْبَهُ بَيْنَ ركوعها وسجودها» . رَوَاهُ أَحْمد
طلق بن علی حنفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل اس بندے کی نماز کی طرف دیکھتا بھی نہیں جو دوران نماز رکوع و سجود میں اپنی کمر سیدھی نہیں کرتا۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أحمد (4/ 22 ح 16393) ٭ السند منقطع و عکرمة بن عمار عنعن.»
وعن نافع ان ابن عمر كان يقول: من وضع جبهته بالارض فليضع كفيه على الذي وضع عليه جبهته ثم إذا رفع فليرفعهما فإن اليدين تسجدان كما يسجد الوجه. رواه مالك وَعَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ: مَنْ وَضَعَ جَبْهَتَهُ بِالْأَرْضِ فَلْيَضَعْ كَفَّيْهِ عَلَى الَّذِي وَضَعَ عَلَيْهِ جَبْهَتَهُ ثُمَّ إِذَا رَفَعَ فَلْيَرْفَعْهُمَا فَإِنَّ الْيَدَيْنِ تَسْجُدَانِ كَمَا يَسْجُدُ الْوَجْهُ. رَوَاهُ مَالك
نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: جو شخص اپنی پیشانی زمین پر رکھے تو وہ اپنے ہاتھ بھی اسی جگہ رکھے جہاں اس نے اپنی پیشانی رکھی تھی، پھر جب وہ (پیشانی) اٹھائے ��و دونوں ہاتھوں کو بھی اٹھالے، کیونکہ ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں جس طرح چہرہ سجدہ کرتا ہے۔ صحیح، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه مالک (163/1 ح 390) [و شطر الحديث رواه أبو داود (892) مرفوعًا و سنده صحيح، دون قوله: ’’من وضع جبھته... عليه جبھته‘‘]»
عن ابن عمر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قعد في التشهد وضع يده اليسرى على ركبته اليسرى ووضع يده اليمنى على ركبته اليمنى وعقد ثلاثا وخمسين واشار بالسبابة عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدَ فِي التَّشَهُّدِ وَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُمْنَى وَعَقَدَ ثَلَاثًا وَخمسين وَأَشَارَ بالسبابة
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشہد کے لیے بیٹھتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے دائیں گھٹنے پر اور دایاں ہاتھ اپنے دائیں گھٹنے پر رکھتے اور ترپن کی گرہ بنا کر انگشت شہادت سے اشارہ فرماتے تھے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (115/ 580)»
وفي رواية: كان إذا جلس في الصلاة وضع يديه على ركبتيه ورفع اصبعه اليمنى التي تلي الإبهام يدعو بها ويده اليسرى على ركبته باسطها عليها. رواه مسلم وَفِي رِوَايَةٍ: كَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَرَفَعَ أُصْبُعَهُ الْيُمْنَى الَّتِي تلِي الْإِبْهَام يَدْعُو بِهَا وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ بَاسِطَهَا عَلَيْهَا. رَوَاهُ مُسلم
اور ایک روایت میں ہے: جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں (تشہد کے لیے) بیٹھتے تو آپ اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت بلند کرتے اور اس کے ساتھ اشارہ فرماتے جبکہ بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر کھلا رکھتے تھے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (114/ 580)»
وعن عبد الله بن الزبير قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قعد يدعو وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى ويده اليسرى على فخذه اليسرى واشار باصبعه السبابة ووضع إبهامه على اصبعه الوسطى ويلقم كفه اليسرى ركبته. رواه مسلم وَعَن عبد الله بن الزبير قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدَ يَدْعُو وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ السَّبَّابَةِ وَوَضَعَ إِبْهَامَهُ عَلَى أُصْبُعِهِ الْوُسْطَى ويلقم كَفه الْيُسْرَى ركبته. رَوَاهُ مُسلم
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشہد کے لیے بیٹھتے تو دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر اور بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھتے اور انگشت شہادت سے اشارہ فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا انگوٹھا اپنی درمیانی انگلی پر رکھتے اور اپنے بائیں ہاتھ سے اپنے گھٹنے کو لقمے کی طرح پکڑ لیتے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (112/ 579)»
وعن عبد الله بن مسعود قال: كنا إذا صلينا مع النبي صلى الله عليه وسلم قلنا السلام على الله قبل عباده السلام على جبريل السلام على ميكائيل السلام على فلان وفلان فلما انصرف النبي صلى الله عليه وسلم اقبل علينا بوجهه قال: «لا تقولوا السلام على الله فإن الله هو السلام فإذا جلس احدكم في الصلاة فليقل التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين فإنه إذا قال ذلك اصاب كل عبد صالح في السماء والارض اشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله ثم ليتخير من الدعاء اعجبه إليه فيدعوه» وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ قبل عباده السَّلَام على جِبْرِيل السَّلَام على مِيكَائِيل السَّلَام على فلَان وَفُلَان فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ قَالَ: «لَا تَقُولُوا السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ فَإِذَا جَلَسَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ فَلْيَقُلِ التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ فَإِنَّهُ إِذَا قَالَ ذَلِكَ أَصَابَ كُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ثُمَّ لْيَتَخَيَّرْ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ فيدعوه»
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم کہتے: اللہ پر اس کے بندوں کی طرف سے سلام ہو، جبرائیل ؑ اور میکائیل ؑ پر سلام ہو، فلاں پر سلام ہو، جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنا رخ انور ہماری طرف کر کے فرمایا: ”تم ایسے نہ کہو: اللہ پر سلام ہو، کیونکہ اللہ تو خود سلام ہے، جب تم میں سے کوئی (تشہد کے لیے) نماز میں بیٹھے تو وہ یوں کہے: ”(میری ساری) قولی، بدنی، اور مالی عبادات صرف اللہ کے لیے خاص ہیں، اے نبی آپ پر اللہ کی رحمت، سلامتی اور برکتیں ہوں اور ہم پر اور اللہ کے دوسرے نیک بندوں پر بھی سلامتی ہو، کیونکہ جب وہ ایسے کہے گا تو یہ دعا زمین و آسمان کے ہر بندہ صالح کو پہنچ جائے گی، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، پھر وہ اپنی پسندیدہ دعا کرے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6230) [و 6265 بلفظ: وھو بين ظھر انينا فلما قبض قلنا: السلام يعني علٰي النبي ﷺ] و مسلم (55/ 402)»
وعن عبد الله بن عباس انه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا التشهد كما يعلمنا السورة من القرآن فكان يقول: «التحيات المباركات الصلوات الطيبات لله السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين اشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان محمدا رسول الله» . رواه مسلم ولم اجد في الصحيحين ولا في الجمع بين الصحيحين: «سلام عليك» و «سلام علينا» بغير الف ولام ولكن رواه صاحب الجامع عن الترمذي وَعَن عبد الله بن عَبَّاس أَنَّهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا التَّشَهُّدَ كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ فَكَانَ يَقُولُ: «التَّحِيَّاتُ الْمُبَارَكَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ لِلَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَلَمْ أَجِدْ فِي الصَّحِيحَيْنِ وَلَا فِي الْجَمْعِ بَين الصَّحِيحَيْنِ: «سَلام عَلَيْك» و «سَلام عَلَيْنَا» بِغَيْرِ أَلْفٍ وَلَامٍ وَلَكِنْ رَوَاهُ صَاحِبُ الْجَامِع عَن التِّرْمِذِيّ
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں تشہد (اس اہتمام کے ساتھ) سکھاتے تھے جیسے ہمیں قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ”(میری ساری) قولی، بدنی اور مالی عبادات اللہ کے لیے خاص ہیں، اے نبی! آپ پر اللہ کی رحمت، سلامتی اور برکتیں ہوں، اور ہم پر اور اللہ کے دوسرے نیک بندوں پر بھی سلامتی ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ “ رواہ مسلم۔ اور میں نے صحیحین میں اور حمیدی میں الف لام کے بغیر ((سلام علیک)) اور ((سلام علینا)) نہیں پایا، لیکن صاحب الجامع (ابن اثیر)نے امام ترمذی سے اسے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (60/ 403) والترمذي (290 و قال: حسن صحيح غريب.)»
وعن وائل بن حجر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ثم جلس فافترش رجله اليسرى ووضع يده اليسرى على فخذه اليسرى وحد مرفقه اليمنى على فخذه اليمنى وقبض ثنتين وحلق حلقة ثم رفع اصبعه فرايته يحركها يدعو بها. رواه ابو داود والدارمي وَعَن وَائِلِ بْنِ حَجَرٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى وَحَدَّ مِرْفَقَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى وَقَبَضَ ثِنْتَيْنِ وَحَلَّقَ حَلْقَةً ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بهَا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد والدارمي
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (تشہد کے لیے) بیٹھے آپ نے اپنا بایاں پاؤں بچھایا، بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا، دائیں کہنی کو دائیں ران سے اٹھا کر رکھا، دو انگلیوں کو بند کیا اور درمیانی انگلی اور انگوٹھے کو ملا کر حلقہ بنایا، پھر اپنی انگشت شہادت کو اٹھایا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اس کو حرکت دیتے اور اس کے ساتھ اشارہ کرتے تھے۔ صحیح، رواہ ابوداؤد و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (957) والدارمي (1/ 314، 315 ح 1364) [والنسائي (3/ 37 ح 1269 واللفظ نحوه) وابن ماجه (867)] ٭ و أعله بعض المعاصرين بعلة باطلة والحديث صحيح، لا شک فيه.»
وعن عبد الله بن الزبير قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يشير باصبعه إذا دعا ولا يحركها. رواه ابو داود والنسائي وزاد ابو داود ولا يجاوز بصره إشارته وَعَن عبد الله بن الزبير قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ إِذَا دَعَا وَلَا يُحَرِّكُهَا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيّ وَزَاد أَبُو دَاوُد وَلَا يُجَاوز بَصَره إِشَارَته
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا کرتے تو اپنی انگلی سے اشارہ کرتے اور آپ اس کو حرکت نہیں دیتے تھے۔ ابوداؤد، نسائی، امام ابوداؤد نے یہ اضافہ نقل کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر آپ کے اشارے سے آگے نہیں جاتی تھی۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (989) والنسائي (3/ 37، 38 ح 1271) ٭ محمد بن عجلان مدلس و لم أجد تصريح سماعه في لفظ: ’’ولا يحرکھا‘‘.»
وعن ابي هريرة قال: إن رجلا كان يدعو باصبعيه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «احد احد» . رواه الترمذي والنسائي والبيهقي في الدعوات الكبير وَعَن أبي هُرَيْرَة قَالَ: إِنَّ رَجُلًا كَانَ يَدْعُو بِأُصْبُعَيْهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحِّدْ أَحِّدْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّعَوَاتِ الْكَبِير
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی اپنی دونوں انگلیوں کے ساتھ اشارہ کرتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ایک کے ساتھ، ایک کے ساتھ۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (3557 وقال: حسن غريب.) والنسائي (3/ 38 ح 1273) والبيھقي في الدعوات الکبير (36/2 ح 265) [و صححه الحاکم 1/ 536 ووافقه الذھبي.] ٭ محمد بن عجلان مدلس و عنعن.»