وعن انس: ان النبي صلى الله عليه وسلم وابا بكر وعمر رضي الله عنهما كانوا يفتتحون الصلاة ب «الحمد لله رب العالمين» ) رواه مسلم وَعَنْ أَنَسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبا بكر وَعمر رَضِي الله عَنْهُمَا كَانُوا يَفْتَتِحُونَ الصَّلَاةَ بِ «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالمين» ) رَوَاهُ مُسلم
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ (الحمدللہ رب العلمین) سے نماز شروع کیا کرتے تھے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (52/ 399)»
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا امن الإمام فامنوا فإنه من وافق تامينه تامين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه) وفي رواية قال: إذا قال الإمام: (غير المغضوب عليهم ولا الضالين) فقولوا: آمين فإنه من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه. هذا لفظ البخاري ولمسلم نحوه وفي اخرى للبخاري قال: «إذا امن القارئ فامنوا فإن الملائكة تؤمن فمن وافق تامينه تامين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تقدم من ذَنبه) وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ: إِذَا قَالَ الْإِمَامُ: (غَيْرِ المغضوب عَلَيْهِم وَلَا الضَّالّين) فَقُولُوا: آمِينَ فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. هَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ وَلِمُسْلِمٍ نَحْوُهُ وَفِي أُخْرَى لِلْبُخَارِيِّ قَالَ: «إِذَا أَمَّنَ الْقَارِئُ فَأَمِّنُوا فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُؤَمِّنُ فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ غفر لَهُ مَا تقدم من ذَنبه»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام آمین کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق (ساتھ) ہو گئی اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ “ بخاری، مسلم۔ اور ایک روایت میں ہے: ”جب امام (غیر المغضوب علیھم ولا الضالین) کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ جس کا قول فرشتوں کے قول کے موافق ہو گیا، اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ “ یہ الفاظ بخاری کے ہیں اور مسلم کی روایت بھی اسی طرح ہے۔ متفق علیہ۔ اور بخاری کی دوسری روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب قاری (امام) آمین کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ “
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (780) و مسلم (72 / 410) والرواية الثانية للبخاري (642) و مسلم (76/ 410) والرواية الثالثة للبخاري (782)»
وعن ابي موسى الاشعري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا صليتم فاقيموا صفوفكم ثم ليؤمكم احدكم فإذا كبر فكبروا وإذ قال (غير المغضوب عليهم ولا الضالين) فقولوا آمين يجبكم الله فإذا كبر وركع فكبروا واركعوا فإن الإمام يركع قبلكم ويرفع قبلكم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فتلك بتلك» قال: «وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا اللهم ربنا لك الحمد يسمع الله لكم» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ فَإِذَا كَبَّرَ فكبروا وَإِذ قَالَ (غير المغضوب عَلَيْهِم وَلَا الضَّالّين) فَقُولُوا آمِينَ يُجِبْكُمُ اللَّهُ فَإِذَا كَبَّرَ وَرَكَعَ فَكَبِّرُوا وَارْكَعُوا فَإِنَّ الْإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قبلكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَتِلْكَ بِتِلْكَ» قَالَ: «وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ يسمع الله لكم» . رَوَاهُ مُسلم
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو صفیں درست کرو، پھر تم میں سے تمہیں کوئی نماز پڑھائے، پس جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم اللہ اکبر کہو، اور جب وہ (غیر المغضوب علیھم ولا الضالین) کہے تو تم آمین کہو، اللہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا، جب وہ اللہ اکبر کہے اور رکوع کرے تو تم اللہ اکبر کہو اور رکوع کرو، کیونکہ امام تم سے پہلے رکوع کرتا ہے اور تم سے پہلے (رکوع سے) اٹھتا ہے۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ (پہلے سر اٹھانا) اس کے (پہلے رکوع جانے) کا بدلہ ہے، اور جب وہ کہے: ((سمع اللہ لمن حمدہ))”اللہ نے سن لیا جس نے اس کی تعریف کی“، تو تم کہو: اے اللہ! ہر قسم کی حمد تیرے ہی لیے ہے، اللہ تمہاری دعا سنتا اور قبول فرماتا ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (62/ 404)»
وعن ابي قتادة قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يقرا في الظهر في الاوليين بام الكتاب وسورتين وفي الركعتين الاخريين بام الكتاب ويسمعنا الآية احيانا ويطول في الركعة الاولى ما لا يطول في الركعة الثانية وهكذا في العصر وهكذا في الصبح وَعَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقْرَأ فِي الظُّهْرِ فِي الْأُولَيَيْنِ بِأُمِّ الْكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ وَفِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُخْرَيَيْنِ بِأُمِّ الْكِتَابِ وَيُسْمِعُنَا الْآيَةَ أَحْيَانًا وَيطول فِي الرَّكْعَة الأولى مَا لَا يطول فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ وَهَكَذَا فِي الْعَصْرِ وَهَكَذَا فِي الصُّبْح
ابوقتادہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور دو سورتیں جبکہ دوسری دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ پڑھا کرتے تھے اور کبھی کبھار آپ ہمیں کوئی آیت سنا دیا کرتے تھے، آپ جس قدر پہلی رکعت میں قراءت لمبی کیا کرتے تھے اس قدر دوسری میں لمبی نہیں کیا کرتے تھے، اور آپ اسی طرح عصر میں اور اسی طرح فجر میں کیا کرتے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (776) و مسلم (154/ 451)»
وعن ابي سعيد الخدري قال: كنا نحزر قيام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الظهر والعصر فحزرنا قيامه في الركعتين الاوليين من الظهر قدر قراءة (الم تنزيل) السجدة-وفي رواية: في كل ركعة در ثلاثين آية-وحزرنا قيامه في الاخريين قدر النصف من ذلك وحزرنا قيامه في الركعتين الاوليين من العصر على قدر قيامه في الاخريين من الظهر وفي الاخريين من العصر على النصف من ذلك. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: كُنَّا نَحْزُرُ قِيَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ فَحَزَرْنَا قِيَامَهُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ قَدْرَ قِرَاءَةِ (الم تَنْزِيلُ) السَّجْدَةِ-وَفِي رِوَايَةٍ: فِي كُلِّ رَكْعَةٍ َدْرَ ثَلَاثِينَ آيَةً-وَحَزَرْنَا قِيَامَهُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ قَدْرَ النّصْف من ذَلِك وحزرنا قِيَامَهُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ مِنَ الْعَصْرِ عَلَى قَدْرِ قِيَامِهِ فِي الْأُخْرَيَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ وَفِي الْأُخْرَيَيْنِ مِنَ الْعَصْرِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ ذَلِكَ. رَوَاهُ مُسلم
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نماز ظہر و عصر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قیام کا اندازہ لگایا کرتے تھے، پس ہم نے ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قیام کا اندازہ سورۂ سجدہ کی قراءت کے برابر لگایا، اور ایک دوسری روایت میں ہے ہر رکعت میں تیس آیات کے برابر تھا، اور ہم نے آخری دو رکعتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قیام کا اندازہ لگایا تو وہ اس سے نصف تھا، ہم نے عصر کی پہلی دو رکعتوں کا اندازہ لگایا تو وہ ظہر کی آخری دو رکعتوں کے قیام کے برابر تھا جبکہ عصر کی آخری دو رکعتیں اس کی (پہلی دو رکعتوں) سے نصف تھیں۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (156/ 452)»
وعن جابر بن سمرة قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يقرا في الظهر ب (الليل إذا يغشى) وفي رواية ب (سبح اسم ربك الاعلى) وفي العصر نحو ذلك وفي الصبح اطول من ذلك. رواه مسلم وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ ب (اللَّيْل إِذا يغشى) وَفِي رِوَايَةٍ بِ (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) وَفِي الْعَصْرِ نَحْوَ ذَلِكَ وَفِي الصُّبْحِ أَطْوَلَ من ذَلِك. رَوَاهُ مُسلم
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ظہر میں (واللیل اذا یغشیٰ،،،،) اور ایک دوسری روایت میں ہے، (سبح اسم ربک الاعلٰی،،،،) اور عصر میں اسی طرح، جبکہ نماز فجر میں اس سے زیادہ لمبی قراءت کیا کرتے تھے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (170 / 459)»
وعن جبير بن مطعم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرا في المغرب ب «الطور» وَعَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِ «الطُّورِ»
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز مغرب میں سورۂ طور پڑھتے ہوئے سنا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (765) و مسلم (174 / 463)»
وعن ام الفضل بنت الحارث قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرا في المغرب ب (المرسلات عرفا) وَعَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يقْرَأ فِي الْمغرب ب (المرسلات عرفا)
ام فضل بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز مغرب میں (والمرسلات عرفاً،،،،) پڑھتے ہوئے سنا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (763) و مسلم (173/ 462)»
وعن جابر قال: كان معاذ يصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم ياتي فيؤم قومه فصلى ليلة مع النبي صلى الله عليه وسلم العشاء ثم اتى قومه فامهم فافتتح بسورة البقرة فانحرف رجل فسلم ثم صلى وحده وانصرف فقالوا له انافقت يا فلان قال لا والله ولآتين رسول الله صلى الله عليه وسلم فلاخبرنه فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إنا اصحاب نواضح نعمل بالنهار وإن معاذا صلى معك العشاء ثم اتى قومه فافتتح بسورة البقرة فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على معاذ فقال: يا معاذ افتان؟ انت اقرا: (الشمس وضحاها (والضحى) (والليل إذا يغشى) و (وسبح اسم ربك الاعلى) وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ مُعَاذُ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يَأْتِي فَيَؤُمُّ قَوْمَهُ فَصَلَّى لَيْلَةً مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ ثُمَّ أَتَى قَوْمَهُ فَأَمَّهُمْ فَافْتَتَحَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ فَانْحَرَفَ رَجُلٌ فَسَلَّمَ ثُمَّ صَلَّى وَحْدَهُ وَانْصَرَفَ فَقَالُوا لَهُ أَنَافَقَتْ يَا فُلَانُ قَالَ لَا وَاللَّهِ وَلَآتِيَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فلأخبرنه فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا أَصْحَابُ نَوَاضِحَ نَعْمَلُ بِالنَّهَارِ وَإِنَّ مُعَاذًا صَلَّى مَعَكَ الْعِشَاءَ ثُمَّ أَتَى قَوْمَهُ فَافْتَتَحَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ فَأَقْبَلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مُعَاذٍ فَقَالَ: يَا مُعَاذُ أَفَتَّانٌ؟ أَنْتَ اقْرَأ: (الشَّمْس وَضُحَاهَا (وَالضُّحَى) (وَاللَّيْل إِذا يغشى) و (وَسبح اسْم رَبك الْأَعْلَى)
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز (عشاء) پڑھا کرتے تھے، پھر جا کر اپنی قوم کی امامت کراتے تھے، ایک رات انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز عشاء پڑھی، پھر اپنی قوم کے پاس گئے اور انہیں نماز پڑھائی تو انہوں نے سورۂ بقرہ شروع کر دی، ایک آدمی نے الگ ہو کر سلام پھیر دیا، پھر اکیلے ہی نماز پڑھ کر چلا گیا تو صحابہ نے اسے کہا: اے فلاں! کیا تو منافق ہو گیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے شکایت کروں گا، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خد��ت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم اونٹوں پر پانی لا کر کھیتوں اور باغات کو سیراب کرنے والے لوگ ہیں، دن بھر کام کاج کرتے ہیں، اور یہ معاذ ہیں کہ انہوں نے آپ کے ساتھ نماز عشاء ادا کی، پھر اپنی قوم کے پاس آئے تو انہوں نے سورۂ بقرہ شروع کر دی، پس (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاذ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہو؟ تم (والشمس وضحھا،،،،)، (واللیل اذا یغشیٰ،،،،) اور (سبح اسم ربک الاعلیٰ،،،،) پڑھا کرو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (705) و مسلم (178/ 465)»