وعن الفضل بن عباس قال: اتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن في بادية لنا ومعه عباس فصلى في صحراء ليس بين يديه سترة وحمارة لنا وكلبة تعبثان بين يديه فما بالى ذلك. رواه ابو داود وللنسائي نحوه وَعَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي بَادِيَةٍ لَنَا وَمَعَهُ عَبَّاسٌ فَصَلَّى فِي صَحْرَاءَ لَيْسَ بَيْنَ يَدَيْهِ سُتْرَةٌ وَحِمَارَةٌ لَنَا وَكَلْبَةٌ تعبثان بَين يَدَيْهِ فَمَا بالى ذَلِك. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وللنسائي نَحوه
فضل بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم جنگل میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عباس رضی اللہ عنہ کی معیت میں ہمارے پاس تش��یف لائے آپ نے سترہ کے بغیر صحرا میں نماز ادا کی، جبکہ ہماری گدھی اور کتیا آپ کے آگے کھیل رہی تھیں، آپ نے اسے کوئی اہمیت نہ دی۔ ابوداؤد، نسائی کی روایت بھی اسی طرح ہے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (718) و النسائي (2/ 65 ح 754) ٭ عباس بن عبيد الله لم يدرک عمه الفضل بن عباس رضي الله عنه فالسند منقطع.»
وعن ابي سعيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يقطع الصلاة شيء وادرؤوا ما استطعتم فإنما هو شيطان» . رواه ابو داود وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَقْطَعُ الصَّلَاةَ شَيْء وادرؤوا مَا اسْتَطَعْتُمْ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی چیز نماز کو نہیں توڑتی، پس مقدور بھر اسے روکو، کیونکہ وہ (گزرنے والا) شیطان ہے۔ “ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (719) [و للحديث شاھد قوي عند الدارقطني (1/ 367)]»
عن عائشة قالت: كنت انام بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجلاي في قبلته فإذا سجد غمزني فقبضت رجلي وإذا قام بسطتهما قالت: والبيوت يومئذ ليس فيها مصابيح عَن عَائِشَة قَالَتْ: كُنْتُ أَنَامُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرِجْلَايَ فِي قِبْلَتِهِ فَإِذَا سَجَدَ غَمَزَنِي فَقَبَضْتُ رِجْلِيَ وَإِذَا قَامَ بَسَطْتُهُمَا قَالَتْ: وَالْبُيُوتُ يَوْمَئِذٍ لَيْسَ فِيهَا مَصَابِيحُ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے سو جایا کرتی تھی، جبکہ میرے پاؤں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سجدہ کی جگہ پر ہوتے تھے، جب آپ سجدہ کرتے تو آپ مجھے ہاتھ سے دبا دیتے تو میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو جاتے تو میں انہیں پھیلا دیتی، انہوں نے بتایا: ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوا کرتے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (513) و مسلم (272 / 512)»
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو يعلم احدكم ما له في ان يمر بين يدي اخيه معترضا في الصلاة كان لان يقيم مائة عام خير له من الخطوة التي خطا» . رواه ابن ماجه وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ يَعْلَمُ أَحَدُكُمْ مَا لَهُ فِي أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْ أَخِيهِ مُعْتَرِضًا فِي الصَّلَاةِ كَانَ لَأَنْ يُقِيمَ مِائَةَ عَامٍ خَيْرٌ لَهُ مِنَ الْخُطْوَةِ الَّتِي خَطَا» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم میں کسی کو، نماز میں مشغول اپنے بھائی کے آگے سے گزرنے کا گناہ معلوم ہو تو اس کے لیے سو برس کھڑے رہنا ایک قدم اٹھانے سے بہتر ہوتا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه ابن ماجه (946) ٭ عبيد الله بن عبد الرحمٰن بن موھب: و ثقه الجمھور و عمه حسن الحديث.»
وعن كعب الاحبار قال: لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه لكان ان يخسف به خيرا من ان يمر بين يديه. وفي رواية: اهون عليه. رواه مالك وَعَنْ كَعْبِ الْأَحْبَارِ قَالَ: لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يُخْسَفَ بِهِ خَيْرًا مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ: أَهْوَنَ عَلَيْهِ. رَوَاهُ مَالِكٌ
کعب احبار ؒ بیان کرتے ہیں، اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو پتہ چل جاتا کہ اسے اس پر کتنا گناہ ملے گا تو وہ سمجھتا کہ اسے دھنسا دیا جائے تو یہ اس کے لیے، اس کے آگے سے گزرنے سے بہتر ہوتا۔ اور ایک روایت میں ہے: اس پر آسان ہوتا۔ صحیح، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه مالک (1/ 155 ح 363) ٭ زيد بن أسلم برئ من التدليس کما حققته في الفتح المبين تحقيق کتاب المدلسين لابن حجر (ص 23 ت 1/11) ٭ قوله: ’’أھون عليه‘‘لم أجده والله أعلم.»
وعن ابن عباس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا صلى احدكم إلى غير السترة فإنه يقطع صلاته الحمار والخنزير واليهودي والمجوسي والمراة وتجزئ عنه إذا مروا بين يديه على قذفة بحجر» . رواه ابو داود وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى غَيْرِ السُّتْرَةِ فَإِنَّهُ يَقْطَعُ صَلَاتَهُ الْحِمَارُ وَالْخِنْزِيرُ وَالْيَهُودِيُّ وَالْمَجُوسِيُّ وَالْمَرْأَةُ وَتُجْزِئُ عَنْهُ إِذَا مَرُّوا بَيْنَ يَدَيْهِ عَلَى قَذْفَةٍ بِحَجَرٍ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص سترہ کے بغیر نماز پڑھے تو گدھا، خنزیر، یہودی، مجوسی اور عورت گزر کر اس کی نماز توڑ دیتے ہیں، اور اگر وہ پتھر پھینکنے کے فاصلے کے برابر اس کے آگے سے گزر جائیں تو پھر اس کی نماز ہو جائے گی۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (704) ٭ شک الراوي في اتصاله بقوله: أحسبه.»
عن ابي هريرة رضي الله عنه: ان رجلا دخل المسجد ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس في ناحية المسجد فصلى ثم جاء فسلم عليه فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «وعليك السلام ارجع فصل فإنك لم تصل» . فرجع فصلى ثم جاء فسلم فقال: «وعليك السلام ارجع فصل فإنك لم تصل» فقال في الثالثة او في التي بعدها علمني يا رسول الله فقال: «إذا قمت إلى الصلاة فاسبغ الوضوء ثم استقبل القبلة فكبر ثم اقرا بما تيسر معك من القرآن ثم اركع حتى تطمئن راكعا ثم ارفع حتى تستوي قائما ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا ثم ارفع حتى تطمئن جالسا ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا ثم ارفع حتى تطمئن جالسا» . وفي رواية: «ثم ارفع حتى تستوي قائما ثم افعل ذلك في صلاتك كلها» عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَصَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «وَعَلَيْك السَّلَام ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ» . فَرَجَعَ فَصَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ فَقَالَ: «وَعَلَيْكَ السَّلَامُ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ» فَقَالَ فِي الثَّالِثَةِ أَوْ فِي الَّتِي بَعْدَهَا عَلِّمْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ: «إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغِ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ فَكَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ بِمَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِّيَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا» . وَفِي رِوَايَةٍ: «ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا ثمَّ افْعَل ذَلِك فِي صَلَاتك كلهَا»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد میں آیا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد کہ ایک جانب تشریف فرما تھے، پس اس نے نماز پڑھی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے سلام کا جواب دے کر فرمایا: ”واپس جا کر نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی، پس وہ گیا اور نماز دھرائی، پھر آ کر سلام عرض کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام کا جواب دے کر فرمایا: ”واپس جا کر نماز پڑھ کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ “ پس تیسری یا چوتھی مرتبہ اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! مجھے سکھا دیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو تو خوب اچھی طرح وضو کرو، پھر قبلہ رخ کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہو، پھر جس قدر قرآن تمہیں یاد ہو پڑھو، پھر اطمینان کے ساتھ رکوع کرو، پھر سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو، پھر اٹھو حتیٰ کہ اطمینان کے ساتھ بیٹھ جاؤ، پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو، پھر اٹھو حتیٰ کہ اطمینان کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ “ اور ایک دوسری روایت میں ہے: ”پھر اٹھو حتیٰ کہ تم اطمینان کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ، پھر اپنی تمام (فرض و نفل) نمازوں میں ایسے ہی کیا کرو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (757) و مسلم (45/ 397)»
وعن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يستفتح الصلاة بالتكبير والقراءة ب (الحمد لله رب العالمين) وكان إذا ركع لم يشخص راسه ولم يصوبه ولكن بين ذلك وكان إذا رفع راسه من الركوع لم يسجد حتى يستوي قائما وكان إذا رفع راسه من السجدة لم يسجد حتى يستوي جالسا وكان يقول في كل ركعتين التحية وكان يفرش رجله اليسرى وينصب رجله اليمنى وكان ينهى عن عقبة الشيطان وينهى ان يفترش الرجل ذراعيه افتراش السبع وكان يختم الصلاة بالتسليم. رواه مسلم وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ بِ (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يُشْخِصْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُصَوِّبْهُ وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ جَالِسًا وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ وَكَانَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عُقْبَةِ الشَّيْطَانِ وَيَنْهَى أَنْ يَفْتَرِشَ الرَّجُلُ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ السَّبُعِ وَكَانَ يخْتم الصَّلَاة بِالتَّسْلِيمِ. رَوَاهُ مُسلم
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز اللہ اکبر سے اور قراءت ((الحمدللہ رب العالمین)) سے شروع کیا کرتے تھے، جب آپ رکوع کرتے تو اپنا سر مبارک اوپر اٹھاتے تھے نہ نیچے جھکاتے تھے، بلکہ ان دونوں صورتوں کے درمیان (برابر) رکھتے تھے، جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بالکل سیدھا کھڑے ہوتے اور پھر سجدہ کرتے، جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو پھر اطمینان سے بیٹھ جاتے اور پھر دوسرا سجدہ کرتے، آپ ہر دو رکعتوں کے بعد التحیات پڑھتے تھے۔ آپ بائیں پاؤں کو بچھا دیتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے تھے، آپ شیطان کی طرح بیٹھنے (سرین کے بل بیٹھ کر ٹانگیں کھڑی کر لینا اور ہاتھ زمین پر لگا دینا) سے اور درندوں کی طرح بازو بچھا کر سجدہ کرنے سے منع کیا کرتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ”السلام علیکم و رحمۃ اللہ“ پر نماز ختم کیا کرتے تھے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (240 / 498) و أعل بما لا يقدح.»
وعن ابي حميد الساعدي قال: في نفر من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: انا احفظكم لصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم رايته إذا كبر جعل يديه حذاء منكبيه وإذا ركع امكن يديه من ركبتيه ثم هصر ظهره فإذا رفع راسه استوى حتى يعود كل فقار مكانه فإذا سجد وضع يديه غير مفترش ولا قابضهما واستقبل باطراف اصابع رجليه القبلة فإذا جلس في الركعتين جلس على رجله اليسرى ونصب اليمنى وإذا جلس في الركعة الآخرة قدم رجله اليسرى ونصب الاخرى وقعد على مقعدته. رواه البخاري وَعَن أبي حميد السَّاعِدِيّ قَالَ: فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا أَحْفَظُكُمْ لِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُهُ إِذَا كَبَّرَ جَعَلَ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرَهُ فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ اسْتَوَى حَتَّى يَعُودَ كُلُّ فَقَارٍ مَكَانَهُ فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِهِمَا وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ الْقِبْلَةَ فَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ جَلَسَ على رجله الْيُسْرَى وَنصب الْيُمْنَى وَإِذا جَلَسَ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ قَدَّمَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَنَصَبَ الْأُخْرَى وَقَعَدَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت میں فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے متعلق میں تم سب سے زیادہ جانتا ہوں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نے اللہ اکبر کہا تو اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر کر لیے، جب آپ نے رکوع کیا تو اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھے، پھر اپنی کمر کو جھکایا، جب رکوع سے سر اٹھایا تو بالکل سیدھے کھڑے ہو گئے حتیٰ کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آ گئی، جب سجدہ کیا تو آپ نے ہاتھ رکھے جو کہ بچھے ہوئے تھے نہ سمٹے ہوئے تھے اور آپ نے پاؤں کی انگلیوں کے کناروں کو قبلہ کی طرف کیا تھا، جب آپ دو رکعتوں میں بیٹھے تو آپ اپنے بائیں پاؤں پر بیٹھے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کیا، اور جب آخری رکعت میں بیٹھے تو بائیں پاؤں کو آگے بڑھا کر سرین پر بیٹھ گئے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کیا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (828)»
وعن ابن عمر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه حذو منكبيه إذا افتتح الصلاة وإذا كبر للركوع وإذا رفع راسه من الركوع رفعهما كذلك وقال: سمع الله لمن حمده ربنا لك الحمد وكان لا يفعل ذلك في السجود وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ وَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ وَكَانَ لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز شروع کرتے، رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کیا کرتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (رکوع سے اٹھتے وقت) فرماتے: ”اللہ نے سن لی جس نے اس کی حمد بیان کی، ہمارے رب تمام حمدو ستائش تیرے ہی لیے ہے۔ “ اور آپ سجدوں کے مابین یہ (رفع الیدین) نہیں کیا کرتے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (735) و مسلم (21/ 390)»