مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
علم کا بیان
1.09. علماء کے اٹھنے سے بربادی ہو گی
حدیث نمبر: 206
Save to word اعراب
‏‏‏‏وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا فسئلوا فافتوا بغير علم فضلوا واضلوا» ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فضلوا وأضلوا»
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ علم کو بندوں کے سینوں سے نہیں نکالے گا بلکہ وہ علماء کی روحیں قبض کر کے علم کو اٹھا لے گا، حتیٰ کہ جب وہ کسی عالم کو باقی نہیں رکھے گا تو لوگ جہلا کو رئیس بنا لیں گے، جب ان سے مسئلہ دریافت کیا جائے گا تو وہ علم کے بغیر فتویٰ دیں گے، وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو گمراہ کریں گے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (100) و مسلم (13/ 2673)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
1.1. روزانہ وعظ و نصیحت سے گریز
حدیث نمبر: 207
Save to word اعراب
‏‏‏‏وعن شقيق: كان عبد الله يذكر الناس في كل خميس فقال له رجل يا ابا عبد الرحمن لوددت انك ذكرتنا كل يوم قال اما إنه يمنعني من ذلك اني اكره ان املكم وإني اتخولكم بالموعظة كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتخولنا بها مخافة السآمة علينا ‏‏‏‏وَعَن شَقِيق: كَانَ عبد الله يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذكرتنا كُلِّ يَوْمٍ قَالَ أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا
شقیق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات لوگوں کو وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے، کسی آدمی نے ان سے کہا: ابوعبدالرحمٰن! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہر روز ہمیں وعظ و نصیحت کیا کریں، انہوں نے فرمایا: سن لو! ہر روز وعظ و نصیحت کرنے سے مجھے یہی امر مانع ہے کہ میں تمہیں اکتاہٹ میں ڈالنا ناپسند کرتا ہوں، میں وعظ و نصیحت کے ذریعے تمہارا ویسے ہی خیال رکھتا ہوں جیسے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس اندیشے کے پیش نظر کے ہم اکتا نہ جائیں، ہمارا خیال رکھا کرتے تھے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (68) و مسلم (82/ 2821)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 208
Save to word اعراب
‏‏‏‏وعن انس قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا تكلم بكلمة اعادها ثلاثا حتى تفهم عنه وإذا اتى على قوم فسلم عليهم سلم عليهم ثلاثا". رواه البخاري ‏‏‏‏وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا حَتَّى تُفْهَمَ عَنْهُ وَإِذَا أَتَى عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثَلَاثًا". رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ جب نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوئی گفتگو فرماتے تو آپ ایک جملے کوتین مرتبہ دہراتے حتیٰ کہ اسے سمجھ اور یاد کر لیا جائے، اور جب آپ کسی قوم کے پاس تشریف لاتے اور انہیں سلام کرنے کا ارادہ فرماتے تو تین مرتبہ سلام کرتے۔  اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (95)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
1.11. کار خیر کی طرف رہنمائی کرنے والے کے لئے اجر و ثواب
حدیث نمبر: 209
Save to word اعراب
‏‏‏‏عن ابي مسعود الانصاري قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال إني ابدع بي فاحملني فقال ما عندي فقال رجل يا رسول الله انا ادله على من يحمله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من دل على خير فله مثل اجر فاعله» . رواه مسلم ‏‏‏‏عَن أبي مَسْعُود الْأَنْصَارِيِّ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي أُبْدِعَ بِي فَاحْمِلْنِي فَقَالَ مَا عِنْدِي فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا أَدُلُّهُ عَلَى مَنْ يَحْمِلُهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مثل أجر فَاعله» . رَوَاهُ مُسلم
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا: میری سواری ہلاک ہو گئی ہے، آپ مجھے سواری عنایت فرما دیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے پاس تو کوئی سواری نہیں۔ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اسے ایسے آدمی کے متعلق بتاتا ہوں جو اسے سواری دے دے گا۔ تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خیرو بھلائی کی طرف راہنمائی کرنے والے کو، اس بھلائی کو سرانجام دینے والے کی مثل اجرو ثواب ملے گا۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (133/ 1893)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 210
Save to word اعراب
وعن جرير قال: (كنا في صدر النهارعند رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاءه قوم عراة مجتابي النمار او العباء متقلدي السيوف عامتهم من مضر بل كلهم من مضر -[73]- فتمعر وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم لما راى بهم من الفاقة فدخل ثم خرج فامر بلالا فاذن واقام فصلى ثم خطب فقال: (يا ايها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة) ‏‏‏‏إلى آخر الآية (إن الله كان عليكم رقيبا) ‏‏‏‏والآية التي في الحشر (اتقوا الله ولتنظر نفس ما قدمت لغد) ‏‏‏‏تصدق رجل من ديناره من درهمه من ثوبه من صاع بره من صاع تمره حتى قال ولو بشق تمرة قال فجاء رجل من الانصار بصرة كادت كفه تعجز عنها بل قد عجزت قال ثم تتابع الناس حتى رايت كومين من طعام وثياب حتى رايت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم يتهلل كانه مذهبة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سن في الإسلام سنة حسنة فله اجرها واجر من عمل بها من بعده من غير ان ينقص من اجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير ان ينقص من اوزارهم شيء» . رواه مسلم ‏‏‏‏ وَعَن جرير قَالَ: (كُنَّا فِي صدر النهارعند رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَهُ قَوْمٌ عُرَاةٌ مُجْتَابِي النِّمَارِ أَوِ الْعَبَاءِ مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ بَلْ كُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ -[73]- فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا رَأَى بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ فَصَلَّى ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ) ‏‏‏‏إِلَى آخَرِ الْآيَةِ (إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رقيبا) ‏‏‏‏وَالْآيَةُ الَّتِي فِي الْحَشْرِ (اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ) ‏‏‏‏تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ مِنْ دِرْهَمِهِ مِنْ ثَوْبِهِ مِنْ صَاعِ بُرِّهِ مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ حَتَّى قَالَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ قَالَ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجَزُ عَنْهَا بل قد عجزت قَالَ ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّى رَأَيْتُ كَوْمَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِيَابٍ حَتَّى رَأَيْتُ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ كَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْء» . رَوَاهُ مُسلم ‏‏‏‏ 
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم دن کے پہلے پہر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک قوم آپ کے پاس آئی ان کے بدن ننگے تھے، انہوں نے اونی دھاری دار یا عام چادریں پہن رکھی تھیں اور وہ تلواریں حمائل کیے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک زیادہ تر، بلکہ سب کے سب مضر قبیلہ کے تھے، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان پر فاقہ کے آثار دیکھے تو غم کی وجہ سے آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپ گھر تشریف لے گئے پھر باہر آئے۔ آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے اذان دی اور اقامت کہی، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز پڑھائی، پھر خطبہ ارشاد فرمایا: لوگو! اپنے رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں نفس واحد سے پیدا فرمایا، اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں کی نسل سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اور اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابت داری (کے تعلقات منقطع کرنے) سے ڈرو، یقین جانو کہ اللہ تم پر نگران ہے۔ اور سورۃ الحشر کی آیت تلاوت فرمائی: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور چاہیے کہ ہر متنفس دیکھ لے کہ وہ کل کے لیے کیا کچھ آگے بھیجتا ہے، اور تم اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ پس کسی نے دینار صدقہ کیا، کسی نے درہم، کسی نے کپڑا، کسی نے گندم کا صاع اور کسی نے ایک صاع کھجوریں صدقہ کیں، حتیٰ کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خواہ کھجور کا ٹکڑا صدقہ کرو۔ راوی بیان کرتے ہیں: انصار میں سے ایک آدمی ایک تھیلی اٹھائے ہوئے آیا قریب تھا کہ اس کا ہاتھ اسے اٹھانے سے عاجز آ جاتا، بلکہ عاجز ہی آ گیا، پھر لوگ مسلسل آنے لگے، حتیٰ کہ میں نے اناج اور کپڑوں کے دو ڈھیر دیکھے، حتیٰ کہ میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہ چہرہ مبارک کو سونے کی طرح دمکتا ہوا دیکھا، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا تو اسے اس کا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ملتا ہے، اور ان کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی، اور جس شخص نے اسلام میں کوئی برا طریقہ شروع کیا تو اس کو اس کا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ملتا ہے اور ان کے گناہ میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (69/ 1017)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 211
Save to word اعراب
‏‏‏‏وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تقتل نفس ظلما إلا كان على ابن آدم الاول كفل من دمها لانه اول من سن القتل» . وسنذكر حديث معاوية: «لا يزال من امتي» في باب ثواب هذه الامة إن شاء الله تعالى ‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ» . وَسَنَذْكُرُ حَدِيثَ مُعَاوِيَةَ: «لَا يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي» فِي بَابِ ثَوَابِ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِنْ شَاءَ الله تَعَالَى
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس شخص کو ناجائز قتل کیا جاتا ہے تو اس کے قتل کا کچھ حصہ آدم ؑ کے پہلے بیٹے پر ہوتا ہے، کیونکہ اس نے قتل کا طریقہ ایجاد کیا تھا۔ ہم حدیث معاویہ رضی اللہ عنہ «لا يزال من امتي» باب ثواب ھذا الامۃ میں ذکر کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (3335) و مسلم (27 / 1677)
حديث معاوية، يأتي (6276)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
ب. الفصل الثاني
حدیث نمبر: Q212
Save to word اعراب
1.12. اہل علم کی فضیلت
حدیث نمبر: 212
Save to word اعراب
‏‏‏‏عن كثير بن قيس قال كنت جالسا مع ابي الدرداء في مسجد دمشق فجاءه رجل فقال يا ابا الدرداء إني جئتك من مدينة الرسول صلى الله عليه وسلم ما جئت لحاجة قال فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به طريقا من طرق الجنة وإن الملائكة لتضع اجنحتها رضا لطالب العلم وإن العالم يستغفر له من في السموات ومن في الارض والحيتان في جوف الماء وإن فضل العالم على العابد كفضل القمر ليلة البدر على سائر الكواكب وإن العلماء ورثة الانبياء وإن الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما وإنما ورثوا العلم فمن اخذه اخذ بحظ وافر". رواه احمد والترمذي وابو داود وابن ماجه والدارمي وسماه الترمذي قيس بن كثير ‏‏‏‏عَن كثير بن قيس قَالَ كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فِي مَسْجِد دمشق فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ إِنِّي جِئْتُكَ مِنْ مَدِينَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا جِئْتُ لِحَاجَةٍ قَالَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ يسْتَغْفر لَهُ من فِي السَّمَوَات وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالْحِيتَانُ فِي جَوْفِ الْمَاءِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَإِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ". رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ وَالدَّارِمِيُّ وَسَمَّاهُ التِّرْمِذِيُّ قَيْسَ بن كثير
کثیر بن قیس بیان کرتے ہیں، میں سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور اس نے کہا: ابودرداء! میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے شہر سے ایک حدیث کی خاطر تمہارے پاس آیا ہوں، مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ اسے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے (براہ راست) بیان کرتے ہیں۔ میں کسی اور کام کے لیے نہیں آیا، انہوں نے بیان کیا، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص طلب علم کے لیے سفر کرتا ہے تو اللہ اسے جنت کی راہ پر گامزن کر دیتا ہے، فرشتے طالب علم کی رضامندی کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں، زمین و آسمان کی ہر چیز اور پانی کی گہرائی میں مچھلیاں طالب علم کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں، بے شک عالم کی عابد پر اس طرح فضیلت ہے جس طرح چودھویں رات کے چاند کو باقی ستاروں پر برتری ہے، بے شک علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔ اور انبیاء علیہم السلام درہم و دینار نہیں چھوڑ کر جاتے بلکہ وہ تو صرف علم چھوڑ کر جاتے ہیں، پس جس نے اسے حاصل کر لیا اس نے وافر حصہ حاصل کر لیا۔ امام ترمذی نے راوی کا نام قیس بن کثیر ذکر کیا ہے۔ اس حدیث کو احمد، ترمذی، ابوداؤد ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے راوی کا نام قیس بن کثیر بتایا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده ضعيف، رواه أحمد (5/ 196 ح 22058) والترمذي (2682 وقال: وليس إسناده عندي بمتصل.) و أبو داود (3641) و ابن ماجه (223) والدارمي (1/ 99 ح 349) [و ابن حبان، الموارد: 80]
٭ داود بن جميل و کثير بن قيس ضعيفان وللحديث شواهد ضعيفة و حديث مسلم (السابق: 204) يغني عنه.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف
حدیث نمبر: 213
Save to word اعراب
‏‏‏‏وعن ابي امامة الباهلي قال:" ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم رجلان احدهما عابد والآخر عالم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فضل العالم على العابد كفضلي على ادناكم» ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله وملائكته واهل السماوات والارض حتى النملة في جحرها وحتى الحوت ليصلون على معلم الناس الخير» . رواه الترمذي وقال حسن غريب ‏‏‏‏وَعَن أبي أُمَامَة الْبَاهِلِيّ قَالَ:" ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا عَابِدٌ وَالْآخَرُ عَالِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ» ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى معلم النَّاس الْخَيْر» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَقَالَ حسن غَرِيب
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک عابد اور دوسرا عالم ہے، تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عالم کی عابد پر اس طرح فضیلت ہے جس طرح میری فضیلت تمہارے ادنی آدمی پر ہے۔ پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ، اس کے فرشتے، زمین و آسمان کی مخلوق حتیٰ کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلیاں، لوگوں کو خیر و بھلائی کی تعلیم دینے والے کے لیے دعائے خیر کرتی ہیں۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«حسن، رواه الترمذي (2685 وقال: غريب) و له شواھد وھو بھا حسن.»

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
حدیث نمبر: 214
Save to word اعراب
‏‏‏‏ورواه الدارمي عن مكحول مرسلا ولم يذكر: رجلان وقال: فضل العالم على العابد كفضلي على ادناكم ثم تلا هذه الآية: (إنما يخشى الله من عباده العلماء) ‏‏‏‏وسرد الحديث إلى آخره ‏‏‏‏ ‏‏‏‏وَرَوَاهُ الدَّارِمِيُّ عَنْ مَكْحُولٍ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ: رَجُلَانِ وَقَالَ: فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: (إِنَّمَا يخْشَى الله من عباده الْعلمَاء) ‏‏‏‏وسرد الحَدِيث إِلَى آخِره ‏‏‏‏ 
دارمی نے مکحول سے مرسل روایت بیان کی ہے۔ اور انہوں نے دو آدمیوں کا ذکر نہیں کیا اور انہوں (مکحول) نے کہا: عالم کی عابد پر اس طرح فضیلت ہے جس طرح میری فضیلت تمہارے ادنی آدمی پر ہے۔ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی!اس کے بندوں میں سے صرف علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔ اور پھر مکمل حدیث بیان کی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه الدارمي (1/ 88 ح 295)
٭ السند مرسل وله شواھد دون قوله: ’’ثم تلا ھذه الآية: ﴿و إنما يخشي الله من عباده العلماء﴾‘‘ فھو ضعيف والباقي حسن، انظر الحديث السابق (213) فائدة: قال رسول الله ﷺ لطالب العلم: مرحبًا بطالب العلم! إن طالب العلم لتحف به الملائکة و تظله بأجنحتھا و يرکب بعضھا بعضًا حتي يبلغوا السماء الدنيا من حبھم لما طلب. (الجرح والتعديل 13/2، وسنده حسن)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.