صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
20. بَابُ مَوْعِظَةِ الإِمَامِ لِلْخُصُومِ:
20. باب: فریقین کو امام کا نصیحت کرنا۔
(20) Chapter. The advice of the Imam (ruler) to the litigants.
حدیث نمبر: 7169
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن هشام، عن ابيه، عن زينب بنت ابي سلمة، عن ام سلمة رضي الله عنها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إنما انا بشر وإنكم تختصمون إلي، ولعل بعضكم ان يكون الحن بحجته من بعض، فاقضي على نحو ما اسمع، فمن قضيت له من حق اخيه شيئا فلا ياخذه، فإنما اقطع له قطعة من النار".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَأَقْضِي عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلَا يَأْخُذْهُ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے زینب بنت ابی سلمہ نے اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلاشبہ میں ایک انسان ہوں، تم میرے پاس اپنے جھگڑے لاتے ہو ممکن ہے تم میں سے بعض اپنے مقدمہ کو پیش کرنے میں فریق ثانی کے مقابلہ میں زیادہ چرب زبان ہو اور میں تمہاری بات سن کر فیصلہ کر دوں تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی (فریق مخالف) کا کوئی حق دلا دوں، چاہئے کہ وہ اسے نہ لے کیونکہ یہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو میں اسے دیتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Um Salama: Allah's Apostle said, "I am only a human being, and you people (opponents) come to me with your cases; and it may be that one of you can present his case eloquently in a more convincing way than the other, and I give my verdict according to what I hear. So if ever I judge (by error) and give the right of a brother to his other (brother) then he (the latter) should not take it, for I am giving him only a piece of Fire." (See Hadith No. 638, Vol. 3).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 281


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
21. بَابُ الشَّهَادَةِ تَكُونُ عِنْدَ الْحَاكِمِ فِي وِلاَيَتِهِ الْقَضَاءِ أَوْ قَبْلَ ذَلِكَ لِلْخَصْمِ:
21. باب: اگر قاضی خود عہدہ قضاء حاصل ہونے کے بعد یا اس سے پہلے ایک امر کا گواہ ہو تو کیا اس کی بنا پر فیصلہ کر سکتا ہے؟
(21) Chapter. If a judge has to witness in favour of a litigant when he is a judge or he had it before he became a judge (can he pass a judgement in his favour accordingly or should he refer the case to another judge before whom he would bear witness?).
حدیث نمبر: Q7170
Save to word اعراب English
وقال شريح القاضي وساله إنسان الشهادة، فقال: ائت الامير حتى اشهد لك، وقال عكرمة، قال عمر لعبد الرحمن بن عوف: لو رايت رجلا على حد زنا او سرقة وانت امير، فقال: شهادتك شهادة رجل من المسلمين، قال: صدقت، قال عمر: لولا ان يقول الناس زاد عمر في كتاب الله لكتبت آية الرجم بيدي واقر ماعز عند النبي صلى الله عليه وسلم بالزنا اربعا، فامر برجمه ولم يذكر ان النبي صلى الله عليه وسلم اشهد من حضره، وقال حماد إذا اقر مرة عند الحاكم رجم، وقال الحكم اربعاوَقَالَ شُرَيْحٌ الْقَاضِي وَسَأَلَهُ إِنْسَانٌ الشَّهَادَةَ، فَقَالَ: ائْتِ الْأَمِيرَ حَتَّى أَشْهَدَ لَكَ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ، قَالَ عُمَرُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ: لَوْ رَأَيْتَ رَجُلًا عَلَى حَدٍّ زِنًا أَوْ سَرِقَةٍ وَأَنْتَ أَمِيرٌ، فَقَالَ: شَهَادَتُكَ شَهَادَةُ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ عُمَرُ: لَوْلَا أَنْ يَقُولَ النَّاسُ زَادَ عُمَرُ فِي كِتَابِ اللَّهِ لَكَتَبْتُ آيَةَ الرَّجْمِ بِيَدِي وَأَقَرَّ مَاعِزٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالزِّنَا أَرْبَعًا، فَأَمَرَ بِرَجْمِهِ وَلَمْ يُذْكَرْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْهَدَ مَنْ حَضَرَهُ، وَقَالَ حَمَّادٌ إِذَا أَقَرَّ مَرَّةً عِنْدَ الْحَاكِمِ رُجِمَ، وَقَالَ الْحَكَمُ أَرْبَعًا
‏‏‏‏ اور شریح (مکہ کے قاضی) سے ایک آدمی (نام نامعلوم) نے کہا تم اس مقدمہ میں گواہی دو۔ انہوں نے کہا تو بادشاہ کے پاس جا کر کہنا تو میں وہاں دوں گا۔ اور عکرمہ کہتے ہیں عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اگر تو خود اپنی آنکھ سے کسی کو زنا یا چوری کا جرم کرتے دیکھے اور تو امیر ہو تو کیا اس کو حد لگا دے گا۔ عبدالرحمٰن نے کہا کہ نہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آخر تیری گواہی ایک مسلمان کی گواہی کی طرح ہو گی یا نہیں۔ عبدالرحمٰن نے کہا بیشک سچ کہتے ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اگر لوگ یوں نہ کہیں کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اپنی طرف سے بڑھا دیا تو میں رجم کی آیت اپنے ہاتھ سے مصحف میں لکھ دیتا۔ اور ماعز اسلمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چار بار زنا کا اقرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا اور یہ منقول نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اقرار پر حاضرین کو گواہ کیا ہو۔ اور حماد بن ابی سلیمان (استاد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ) نے کہا اگر زنا کرنے والا حاکم کے سامنے ایک بار بھی اقرار کر لے تو وہ سنگسار کیا جائے گا اور حکم بن عتیبہ نے کہا، جب تک چار بار اقرار نہ کر لے سنگسار نہیں ہو سکتا۔
حدیث نمبر: 7170
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن يحيى، عن عمر بن كثير، عن ابي محمد مولى ابي قتادة، ان ابا قتادة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين:" من له بينة على قتيل قتله فله سلبه، فقمت لالتمس بينة على قتيلي فلم ار احدا يشهد لي، فجلست ثم بدا لي، فذكرت امره إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رجل من جلسائه: سلاح هذا القتيل الذي يذكر عندي، قال: فارضه منه، فقال ابو بكر: كلا لا يعطه اصيبغ من قريش ويدع اسدا من اسد الله يقاتل عن الله ورسوله، قال: فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاداه إلي، فاشتريت منه خرافا، فكان اول مال تاثلته، قال لي عبد الله، عن الليث، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فاداه إلي، وقال اهل الحجاز: الحاكم لا يقضي بعلمه شهد بذلك في ولايته او قبلها، ولو اقر خصم عنده لآخر بحق في مجلس القضاء فإنه لا يقضي عليه في قول بعضهم حتى يدعو بشاهدين فيحضرهما إقراره، وقال بعض اهل العراق: ما سمع او رآه في مجلس القضاء قضى به وما كان في غيره لم يقض إلا بشاهدين، وقال آخرون منهم: بل يقضي به لانه مؤتمن، وإنما يراد من الشهادة معرفة الحق، فعلمه اكثر من الشهادة، وقال بعضهم: يقضي بعلمه في الاموال ولا يقضي في غيرها، وقال القاسم: لا ينبغي للحاكم ان يمضي قضاء بعلمه دون علم غيره مع ان علمه اكثر من شهادة غيره ولكن فيه تعرضا لتهمة نفسه عند المسلمين وإيقاعا لهم في الظنون، وقد كره النبي صلى الله عليه وسلم الظن، فقال: إنما هذه صفية".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ:" مَنْ لَهُ بَيِّنَةٌ عَلَى قَتِيلٍ قَتَلَهُ فَلَهُ سَلَبُهُ، فَقُمْتُ لِأَلْتَمِسَ بَيِّنَةً عَلَى قَتِيلِي فَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَشْهَدُ لِي، فَجَلَسْتُ ثُمَّ بَدَا لِي، فَذَكَرْتُ أَمْرَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ: سِلَاحُ هَذَا الْقَتِيلِ الَّذِي يَذْكُرُ عِنْدِي، قَالَ: فَأَرْضِهِ مِنْهُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: كَلَّا لَا يُعْطِهِ أُصَيْبِغَ مِنْ قُرَيْشٍ وَيَدَعَ أَسَدًا مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، قَالَ: فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَدَّاهُ إِلَيَّ، فَاشْتَرَيْتُ مِنْهُ خِرَافًا، فَكَانَ أَوَّلَ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ، قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ، عَنِ اللَّيْثِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَدَّاهُ إِلَيَّ، وَقَالَ أَهْلُ الْحِجَازِ: الْحَاكِمُ لَا يَقْضِي بِعِلْمِهِ شَهِدَ بِذَلِكَ فِي وِلَايَتِهِ أَوْ قَبْلَهَا، وَلَوْ أَقَرَّ خَصْمٌ عِنْدَهُ لِآخَرَ بِحَقٍّ فِي مَجْلِسِ الْقَضَاءِ فَإِنَّهُ لَا يَقْضِي عَلَيْهِ فِي قَوْلِ بَعْضِهِمْ حَتَّى يَدْعُوَ بِشَاهِدَيْنِ فَيُحْضِرَهُمَا إِقْرَارَهُ، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِرَاقِ: مَا سَمِعَ أَوْ رَآهُ فِي مَجْلِسِ الْقَضَاءِ قَضَى بِهِ وَمَا كَانَ فِي غَيْرِهِ لَمْ يَقْضِ إِلَّا بِشَاهِدَيْنِ، وَقَالَ آخَرُونَ مِنْهُمْ: بَلْ يَقْضِي بِهِ لِأَنَّهُ مُؤْتَمَنٌ، وَإِنَّمَا يُرَادُ مِنَ الشَّهَادَةِ مَعْرِفَةُ الْحَقِّ، فَعِلْمُهُ أَكْثَرُ مِنَ الشَّهَادَةِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: يَقْضِي بِعِلْمِهِ فِي الْأَمْوَالِ وَلَا يَقْضِي فِي غَيْرِهَا، وَقَالَ الْقَاسِمُ: لَا يَنْبَغِي لِلْحَاكِمِ أَنْ يُمْضِيَ قَضَاءً بِعِلْمِهِ دُونَ عِلْمِ غَيْرِهِ مَعَ أَنَّ عِلْمَهُ أَكْثَرُ مِنْ شَهَادَةِ غَيْرِهِ وَلَكِنَّ فِيهِ تَعَرُّضًا لِتُهَمَةِ نَفْسِهِ عِنْدَ الْمُسْلِمِينَ وَإِيقَاعًا لَهُمْ فِي الظُّنُونِ، وَقَدْ كَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظَّنَّ، فَقَالَ: إِنَّمَا هَذِهِ صَفِيَّةُ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے عمر بن کثیر نے، ان سے ابوقتادہ کے غلام ابو محمد نافع نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کی جنگ کے دن فرمایا جس کے پاس کسی مقتول کے بارے میں جسے اس نے قتل کیا ہو گواہی ہو تو اس کا سامان اسے ملے گا۔ چنانچہ میں مقتول کے لیے گواہ تلاش کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو میرے لیے گواہی دے سکے، اس لیے میں بیٹھ گیا۔ پھر میرے سامنے ایک صورت آئی اور میں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو وہاں بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے کہا کہ اس مقتول کا سامان جس کا ابوقتادہ ذکر کر رہے ہیں، میرے پاس ہے۔ انہیں اس کے لیے راضی کر دیجئیے (کہ وہ یہ ہتھیار وغیرہ مجھے دے دیں) اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہرگز نہیں۔ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نظر انداز کر کے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کرتا ہے وہ قریش کے معمولی آدمی کو ہتھیار نہیں دیں گے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور انہوں نے ہتھیار مجھے دے دئیے اور میں نے اس سے ایک باغ خریدا۔ یہ پہلا مال تھا جو میں نے (اسلام کے بعد) حاصل کیا تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے عبداللہ بن صالح نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان دلا دیا، اور اہل حجاز، امام مالک وغیرہ نے کہا کہ حاکم کو صرف اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا درست نہیں۔ خواہ وہ معاملہ پر عہدہ قضاء حاصل ہونے کے بعد گواہ ہوا ہو یا اس سے پہلے اور اگر کسی فریق نے اس کے سامنے دوسرے کے لیے مجلس قضاء میں کسی حق کا اقرار کیا تو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس بنیاد پر وہ فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ دو گواہوں کو بلا کر ان کے سامنے اقرار کرائے گا۔ اور بعض اہل عراق نے کہا ہے کہ جو کچھ قاضی نے عدالت میں دیکھا یا سنا اس کے مطابق فیصلہ کرے گا لیکن جو کچھ عدالت کے باہر ہو گا اس کی بنیاد پر دو گواہوں کے بغیر فیصلہ نہیں کر سکتا اور انہیں میں سے دوسرے لوگوں نے کہا کہ اس کی بنیاد پر بھی فیصلہ کر سکتا ہے کیونکہ وہ امانت دار ہے۔ شہادت کا مقصد تو صرف حق کا جاننا ہے پس قاضی کا ذاتی علم گواہی سے بڑھ کر ہے۔ اور بعض ان میں سے کہتے ہیں کہ اموال کے بارے میں تو اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا اور اس کے سوا میں نہیں کرے گا اور قاسم نے کہا کہ حاکم کے لیے درست نہیں کہ وہ کوئی فیصلہ صرف اپنے علم کی بنیاد پر کرے اور دوسرے کے علم کو نظر انداز کر دے گو قاضی کا علم دوسرے کی گواہی سے بڑھ کر ہے لیکن چونکہ عام مسلمانوں کی نظر میں اس صورت میں قاضی کے مہتمم ہونے کا خطرہ ہے اور مسلمانوں کو اس طرح بدگمانی میں مبتلا کرنا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدگمانی کو ناپسند کیا تھا اور فرمایا تھا کہ یہ صفیہ میری بیوی ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Qatada: Allah's Apostle said on the Day of (the battle of) Hunain, "Whoever has killed an infidel and has a proof or a witness for it, then the salb (arms and belongings of that deceased) will be for him." I stood up to seek a witness to testify that I had killed an infidel but I could not find any witness and then sat down. Then I thought that I should mention the case to Allah's Apostle I (and when I did so) a man from those who were sitting with him said, "The arms of the killed person he has mentioned, are with me, so please satisfy him on my behalf." Abu Bakr said, "No, he will not give the arms to a bird of Quraish and deprive one of Allah's lions of it who fights for the cause of Allah and His Apostle." Allah's Apostle I stood up and gave it to me, and I bought a garden with its price, and that was my first property which I owned through the war booty. The people of Hijaz said, "A judge should not pass a judgment according to his knowledge, whether he was a witness at the time he was the judge or before that" And if a litigant gives a confession in favor of his opponent in the court, in the opinion of some scholars, the judge should not pass a judgment against him till the latter calls two witnesses to witness his confession. And some people of Iraq said, "A judge can pass a judgement according to what he hears or witnesses (the litigant's confession) in the court itself, but if the confession takes place outside the court, he should not pass the judgment unless two witnesses witness the confession." Some of them said, "A judge can pass a judgement depending on his knowledge of the case as he is trust-worthy, and that a witness is Required just to reveal the truth. The judge's knowledge is more than the witness." Some said, "A judge can judge according to his knowledge only in cases involving property, but in other cases he cannot." Al-Qasim said, "A judge ought not to pass a judgment depending on his knowledge if other people do not know what he knows, although his knowledge is more than the witness of somebody else because he might expose himself to suspicion by the Muslims and cause the Muslims to have unreasonable doubt. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 282


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 7171
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله الاويسي، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابن شهاب، عن علي بن حسين، ان النبي صلى الله عليه وسلم، اتته صفية بنت حيي، فلما رجعت انطلق معها، فمر به رجلان من الانصار، فدعاهما، فقال: إنما هي صفية، قالا: سبحان الله، قال:" إن الشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم"، رواه شعيب، وابن مسافر، وابن ابي عتيق، وإسحاق بن يحيى، عن الزهري، عن علي يعني ابن حسين، عن صفية، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأُوَيْسِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَتَتْهُ صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ، فَلَمَّا رَجَعَتِ انْطَلَقَ مَعَهَا، فَمَرَّ بِهِ رَجُلَانِ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَدَعَاهُمَا، فَقَالَ: إِنَّمَا هِيَ صَفِيَّةُ، قَالَا: سُبْحَانَ اللَّهِ، قَالَ:" إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ"، رَوَاهُ شُعَيْبٌ، وَابْنُ مُسَافِرٍ، وابْنُ أَبِي عَتِيقٍ، وإسحاق بن يحيى، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ يَعْنِي ابْنَ حُسَيْنٍ، عَنْ صَفِيَّةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے جناب زین العابدین علی بن حسین رحمہ اللہ نے کہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا (رات کے وقت) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں (اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف تھے) جب وہ واپس آنے لگیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ آئے۔ اس وقت دو انصاری صحابی ادھر سے گزرے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ یہ صفیہ ہیں۔ ان دونوں انصاریوں نے کہا، سبحان اللہ (کیا ہم آپ پر شبہ کریں گے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان انسان کے اندر اس طرح دوڑتا ہے جیسے خون دوڑتا ہے۔ اس کی روایت شعیب، ابن مسافر، ابن ابی عتیق اور اسحاق بن یحییٰ نے زہری سے کی ہے، ان سے علی بن حسین نے اور ان سے صفیہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی واقعہ نقل کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Ali bin Husain: Safiya bint (daughter of) Huyai came to the Prophet (in the mosque), and when she returned (home), the Prophet accompanied her. It happened that two men from the Ansar passed by them and the Prophet called them saying, "She is Safiya!" those two men said, "Subhan Allah!" The Prophet said, "Satan circulates in the human body as blood does."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 283


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
22. بَابُ أَمْرِ الْوَالِي إِذَا وَجَّهَ أَمِيرَيْنِ إِلَى مَوْضِعٍ أَنْ يَتَطَاوَعَا وَلاَ يَتَعَاصَيَا:
22. باب: جب حاکم اعلیٰ دو شخصوں کو کسی ایک جگہ ہی کا حاکم مقرر کرے تو انہیں یہ حکم دے کہ وہ مل کر رہیں اور ایک دوسرے کی مخالفت نہ کریں۔
(22) Chapter. The order of the Wali (chief ruler) sending two Amir (governors) to one place that they should coopertae and agree with each other and should not differ with one another.
حدیث نمبر: 7172
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا العقدي، حدثنا شعبة، عن سعيد بن ابي بردة، قال: سمعت ابي، قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم ابي، ومعاذ بن جبل إلى اليمن، فقال: يسرا ولا تعسرا، وبشرا ولا تنفرا، وتطاوعا، فقال له ابو موسى: إنه يصنع بارضنا البتع، فقال: كل مسكر حرام"، وقال النضر، وابو داود، ويزيد بن هارون، ووكيع، عن شعبة، عن سعيد بن ابي بردة، عن ابيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبِي، وَمُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ: يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا، وَتَطَاوَعَا، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: إِنَّهُ يُصْنَعُ بِأَرْضِنَا الْبِتْعُ، فَقَالَ: كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ"، وَقَالَ النَّضْرُ، وَأَبُو دَاوُدَ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَوَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن عمرو عقدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی بردہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے والد (ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ) اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا اور ان سے فرمایا کہ آسانی پیدا کرنا اور تنگی نہ کرنا اور خوشخبری دینا اور نفرت نہ دلانا اور آپس میں اتفاق رکھنا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ہمارے ملک میں شہد کا نبیذ (تبع) بنایا جاتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ نضر بن شمیل، ابوداؤد طیالسی، یزید بن ہارو اور وکیع نے شعبہ سے بیان کیا، ان سے سعید نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے ان کے دادا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث نقل کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Burda: The Prophet sent my father and Mu`adh bin Jabal to Yemen and said (to them), "Make things easy for the people and do not put hurdles in their way, and give them glad tiding, and don't let them have aversion (i.e. to make people to hate good deeds) and you both should work in cooperation and mutual understanding" Abu Musa said to Allah's Apostle, "In our country a special alcoholic drink called Al- Bit', is prepared (for drinking)." The Prophet said, "Every intoxicant is prohibited. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 284


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
23. بَابُ إِجَابَةِ الْحَاكِمِ الدَّعْوَةَ:
23. باب: حاکم دعوت قبول کر سکتا ہے۔
(23) Chapter. The ruler’s acceptance of invitation.
حدیث نمبر: Q7173
Save to word اعراب English
وقد اجاب عثمان بن عفان عبدا للمغيرة بن شعبةوَقَدْ أَجَابَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ عَبْدًا لِلْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ
‏‏‏‏ اور عثمان رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے ایک غلام کی دعوت قبول کی۔
حدیث نمبر: 7173
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى بن سعيد، عن سفيان، حدثني منصور، عن ابي وائل، عن ابي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" فكوا العاني واجيبوا الداعي".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فُكُّوا الْعَانِيَ وَأَجِيبُوا الدَّاعِيَ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، کہا مجھ سے منصور نے بیان کیا، ان سے ابوائل نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیدیوں کو چھڑاؤ اور دعوت کرنے والے کی دعوت قبول کرو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Musa: The Prophet said, "Set free the captives and accept invitations."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 285


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
24. بَابُ هَدَايَا الْعُمَّالِ:
24. باب: حاکموں کو جو ہدیے تحفے دیئے جائیں ان کا بیان۔
(24) Chapter. The gifts taken by the employees.
حدیث نمبر: 7174
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن الزهري، انه سمع عروة، اخبرنا ابو حميد الساعدي، قال:" استعمل النبي صلى الله عليه وسلم رجلا من بني اسد، يقال له ابن الاتبية على صدقة، فلما قدم، قال: هذا لكم وهذا اهدي لي، فقام النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر، قال سفيان ايضا: فصعد المنبر، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال:" ما بال العامل نبعثه فياتي، يقول: هذا لك وهذا لي، فهلا جلس في بيت ابيه وامه فينظر ايهدى له ام لا، والذي نفسي بيده لا ياتي بشيء إلا جاء به يوم القيامة يحمله على رقبته، إن كان بعيرا له رغاء، او بقرة لها خوار، او شاة تيعر، ثم رفع يديه حتى راينا عفرتي إبطيه، الا هل بلغت ثلاثا"، قال سفيان: قصه علينا الزهري، وزاد هشام، عن ابيه، عن ابي حميد، قال: سمع اذناي، وابصرته عيني، وسلوا زيد بن ثابت، فإنه سمعه معي، ولم يقل الزهري، سمع اذني خوار صوت، والجؤار: من تجارون كصوت البقرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ، أَخْبَرَنَا أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ، قَالَ:" اسْتَعْمَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ بَنِي أَسْدٍ، يُقَالُ لَهُ ابْنُ الْأُتَبِيَّةِ عَلَى صَدَقَةٍ، فَلَمَّا قَدِمَ، قَالَ: هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، قَالَ سُفْيَانُ أَيْضًا: فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" مَا بَالُ الْعَامِلِ نَبْعَثُهُ فَيَأْتِي، يَقُولُ: هَذَا لَكَ وَهَذَا لِي، فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ فَيَنْظُرُ أَيُهْدَى لَهُ أَمْ لَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَأْتِي بِشَيْءٍ إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ، إِنْ كَانَ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةً تَيْعَرُ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَتَيْ إِبْطَيْهِ، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ ثَلَاثًا"، قَالَ سُفْيَانُ: قَصَّهُ عَلَيْنَا الزُّهْرِيُّ، وَزَادَ هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ، قَالَ: سَمِعَ أُذُنَايَ، وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنِي، وَسَلُوا زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، فَإِنَّهُ سَمِعَهُ مَعِي، وَلَمْ يَقُلِ الزُّهْرِيُّ، سَمِعَ أُذُنِي خُوَارٌ صَوْتٌ، وَالْجُؤَارُ: مِنْ تَجْأَرُونَ كَصَوْتِ الْبَقَرَةِ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے، انہوں نے عروہ سے سنا، انہیں ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ بنی اسد کے ایک شخص کو صدقہ کی وصولی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحصیلدار بنایا، ان کا نام ابن الاتیتہ تھا۔ جب وہ لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا کہ یہ آپ لوگوں کا ہے اور یہ مجھے ہدیہ میں دیا گیا ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے، سفیان ہی نے یہ روایت بھی کی کہ پھر آپ منبر پر چڑھے پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا کہ اس عامل کا کیا حال ہو گا جسے ہم تحصیل کے لیے بھیجتے ہیں پھر وہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مال تمہارا ہے اور یہ میرا ہے۔ کیوں نہ وہ اپنے باپ یا ماں کے گھر بیٹھا رہا اور دیکھا ہوتا کہ اسے ہدیہ دیا جاتا ہے یا نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عامل جو چیز بھی (ہدیہ کے طور پر) لے گا اسے قیامت کے دن اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر اونٹ ہو گا تو وہ اپنی آواز نکالتا آئے گا، اگر گائے ہو گی تو وہ اپنی آواز نکالتی آئے گی، بکری ہو گی تو وہ بولتی آئے گی، پھر آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے۔ یہاں تک کہ ہم نے آپ کے دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے پہنچا دیا! تین مرتبہ یہی فرمایا۔ سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ یہ حدیث ہم سے زہری نے بیان کی اور ہشام نے اپنے والد سے روایت کی، ان سے ابوحمید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے دونوں کانوں نے سنا اور دونوں آنکھوں نے دیکھا اور زید بن ثابت صحابی رضی اللہ عنہ سے بھی پوچھ کیونکہ انہوں نے بھی یہ حدیث میرے ساتھ سنی ہے۔ سفیان نے کہا زہری نے یہ لفظ نہیں کہا کہ میرے کانوں نے سنا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا حدیث میں «خوار‏» کا لفظ ہے یعنی گائے کی آواز یا «جؤار» کا لفظ جو لفظ «تجأرون» سے نکلا ہے جو سورۃ مومنون میں ہے یعنی گائے کی آواز نکالتے ہوں گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Humaid Al-Sa`idi: The Prophet appointed a man from the tribe of Bani Asad, called Ibn Al-Utabiyya to collect the Zakat. When he returned (with the money) he said (to the Prophet), "This is for you and this has been given to me as a gift." The Prophet stood up on the pulpit (Sufyan said he ascended the pulpit), and after glorifying and praising Allah, he said, "What is wrong with the employee whom we send (to collect Zakat from the public) that he returns to say, 'This is for you and that is for me?' Why didn't he stay at his father's and mother's house to see whether he will be given gifts or not? By Him in Whose Hand my life is, whoever takes anything illegally will bring it on the Day of Resurrection by carrying it over his neck: if it is a camel, it will be grunting: if it is a cow, it will be mooing: and if it is a sheep it will be bleating!" The Prophet then raised both his hands till we saw the whiteness of his armpits (and he said), "No doubt! Haven't I conveyed Allah's Message?" And he repeated it three times.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 286


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
25. بَابُ اسْتِقْضَاءِ الْمَوَالِي وَاسْتِعْمَالِهِمْ:
25. باب: آزاد شدہ غلام کو قاضی یا حاکم بنانا۔
(25) Chapter. To appoint the Maula (freed slaves) as judges and officials.
حدیث نمبر: 7175
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن صالح، حدثنا عبد الله بن وهب، اخبرني ابن جريج، ان نافعا اخبره، ان ابن عمر رضي الله عنهما، اخبره قال:"كان سالم مولى ابي حذيفة يؤم المهاجرين الاولين، واصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في مسجد قباء، فيهم ابو بكر، وعمر، وابو سلمة، وزيد،وعامر بن ربيعة".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، أَنَّ نَافِعًا أَخْبَرَهُ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَه قَالَ:"كَانَ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ يَؤُمُّ الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ، وَأَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ، فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَأَبُو سَلَمَةَ، وَزَيْدٌ،وَعَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ".
ہم سے عثمان بن صالح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو ابن جریج نے خبر دی، انہیں نافع نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہا کہ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے (آزاد کردہ غلام) سالم، مہاجر اولین کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم مسجد قباء میں امامت کیا کرتے تھے۔ ان اصحاب میں ابوبکر، عمر، ابوسلمہ، زید اور عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہم بھی ہوتے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Umar: Salim, the freed salve of Abu Hudhaifa used to lead in prayer the early Muhajirin (emigrants) and the companions of the Prophet in the Quba mosque. Among those (who used to pray behind him) were Abu Bakr, `Umar, Abu Salama, and Amir bin Rabi`a.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 287


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
26. بَابُ الْعُرَفَاءِ لِلنَّاسِ:
26. باب: لوگوں کے چودھری یا نقیب بنانا۔
(26) Chapter. The Urafa appointed to look after the people’s affairs.
حدیث نمبر: 7176
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن ابي اويس، حدثني إسماعيل بن إبراهيم، عن عمه موسى بن عقبة، قال ابن شهاب: حدثني عروة بن الزبير، انمروان بن الحكم، والمسور بن مخرمة، اخبراه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال حين اذن لهم المسلمون في عتق سبي هوازن:" إني لا ادري من اذن منكم ممن لم ياذن، فارجعوا حتى يرفع إلينا عرفاؤكم امركم، فرجع الناس، فكلمهم عرفاؤهم، فرجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبروه ان الناس قد طيبوا واذنوا".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَمِّهِ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّمَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَاهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ حِينَ أَذِنَ لَهُمُ الْمُسْلِمُونَ فِي عِتْقِ سَبْيِ هَوَازِنَ:" إِنِّي لَا أَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ، فَرَجَعَ النَّاسُ، فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، فَرَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ النَّاسَ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ان کے چچا موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور انہیں مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، جب مسلمانوں نے قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کو اجازت دی تو فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ پس واپس جاؤ اور تمہارا معاملہ ہمارے پاس تمہارے نقیب یا چودھری اور تمہارے سردار لائیں۔ چنانچہ لوگ واپس چلے گئے اور ان کے ذمہ داروں نے ان سے بات کی اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آ کر اطلاع دی کہ لوگوں نے دلی خوشی سے اجازت دے دی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Urwa bin Az-Zubair: Marwan bin Al-Hakam and Al-Miswar bin Makhrama told him that when the Muslims were permitted to set free the captives of Hawazin, Allah's Apostle said, "I do not know who amongst you has agreed (to it) and who has not. Go back so that your 'Urafa' may submit your decision to us." So the people returned and their 'Urafa' talked to them and then came back to Allah's Apostle and told him that the people had given their consent happily and permitted (their captives to be freed).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 288


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.