سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کیا یقینا اس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا۔“
تخریج الحدیث: «الكامل لابن عدي: 4/155، تفسير ابن كثير: 2/334» حافظ ابن کثیر نے کہا کہ یہ حدیث ’’منکر‘‘ ہے اس کی سند میں کلام ہے۔
حدثنا منصور بن صقير، حدثنا موسى بن اعين، حدثنا عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الرجل ليكون من اهل الصلاة، والزكاة، والحج، والعمرة، والصيام، والجهاد، حتى ذكر سهام الخير، وما يجزى يوم القيامة، إلا بقدر عقله".حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ صُقَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الرَّجُلَ لَيَكُونُ مِنْ أَهْلِ الصَّلاةِ، وَالزَّكَاةِ، وَالْحَجِّ، وَالْعُمْرَةِ، وَالصِّيَامِ، وَالْجِهَادِ، حَتَّى ذَكَرَ سِهَامَ الْخَيْرِ، وَمَا يُجْزَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلا بِقَدْرِ عَقْلِهِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک آدمی نمازی، زکاۃ دینے والا، حج اور عمرہ کرنے والا، روزے رکھنے والا اور جہاد کرنے والا ہوتا ہے حتی کہ بہت سے امورخیر کا ذکر کیا اور وہ قیامت کے دن اجر و ثواب اپنی نیت کے مطابق حاصل کرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «المعجم الاوسط للطبراني: 3/251: رقم الحديث: 3057، شعب الايمان للبيهقي: 6/351: رقم الحديث: 4316، مجمع الزوائد: 8/28: رقم الحديث: 12719، السلسلة الضعيفة: 12/101: رقم الحديث: 5557» اس کی سند منصور بن صقیر الجزری ہے، اسی وجہ سے ہیثمی اور محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مسلمان پر (حکمران کی) بات کو سننااور ماننالازم ہے۔ خواہ (اس کی بات) اچھی لگے یا ناپسند کرے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: الاحكام: باب السمع والطاعة للإمام مالم تكن بمعصية: رقم الحديث: 7144، صحيح مسلم: الامارة: باب وجوبه طاعة الأمراء فى غير معصية وتحريمها فى المعصية: رقم الحديث: 1839»
حدثنا روح بن عبادة، عن عبيد الله بن عمر، وابن عونومالك، عن نافع، عن ابن عمر، ان رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم: ما يلبس المحرم من الثياب؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يلبس القميص، ولا العمامة، ولا السراويلات، ولا البرانس، ولا الخفاف، إلا ان لا يجد نعلين فيلبس خفين، وليقطعهما اسفل من الكعبين، ولا يلبس من الثياب شيئا مسه ورس او زعفران". ولم يذكر ابن عون البرانس.حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَوْنٍوَمَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنَ الثِّيَابِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لا يَلْبَسُ الْقَمِيصَ، وَلا الْعِمَامَةَ، وَلا السَّرَاوِيلاتِ، وَلا الْبَرَانِسَ، وَلا الْخِفَافَ، إِلا أَنْ لا يَجِدَ نَعْلَيْنِ فَيَلْبِسُ خُفَّيْنِ، وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ، وَلا يَلْبَسْ مِنَ الثِّيَابِ شَيْئًا مَسَّهُ وَرْسٌ أَوْ زَعْفَرَانٌ". وَلَمْ يَذْكُرِ ابْنُ عَوْنٍ الْبَرَانِسَ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا محرم کون سا لباس پہن سکتا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”احرام والا قمیص، پگڑی، شلوار، ٹوپی اور موزے نہ پہنے۔ اگر جوتے میسر نہ ہوں تو موزے پہن لے اور ان کو ٹخنوں سے نیچے تک کاٹ دے اور ایسا کپڑا بھی نہ پہنے جس کو ورس یا زعفران (خوشبو) لگی ہو۔“ ابن عون نے برانس (پگڑی) کاذکر نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: جزاء الصيد باب ما ينهي من الطيب للمحرم والمحرمة: رقم الحديث: 1838، صحيح مسلم: الحج: باب ما يباح للمحرم بحج أو عمرة لبسة وما لا يباح وبيان تحريم الطيب عليه: رقم الحديث: 1177»
حدثنا يعلى بن عبيد، عن سفيان، عن إسماعيل بن امية، عن نافع، عن ابن عمر، قال:" امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في اطراف المدينة ان نقتل الكلاب، فلقد رايتنا نقتل الكلب للمرية من اهل البادية".حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَطْرَافِ الْمَدِينَةِ أَنْ نَقْتُلَ الْكِلابَ، فَلَقَدْ رَأَيْتُنَا نَقْتُلُ الْكَلْبَ لِلْمُرَيَّةِ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے اطراف میں کتوں کو مارنے کا حکم دیا۔ ہم نے خود کو دیکھا کہ ہم دیہات سے آنے والی عورت کے کتے کو بھی قتل کر دیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم: المساقاة: باب الأمر بقتل الكلاب ويبان نسخه … الخ: رقم الحديث: 1570»
حدثنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن إسماعيل بن امية، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يحلبن احدكم ماشية احد إلا بإذن اهله، ايحب احدكم ان تؤتى خزانته، فتكسر، فينتثل ما فيها، إنما ضروع مواشيهم خزائنهم".حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا يَحْلِبَنَّ أَحَدُكُمْ مَاشِيَةَ أَحَدٍ إِلا بِإِذْنِ أَهْلِهِ، أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تُؤْتَى خِزَانَتُهُ، فَتُكْسَرَ، فَيُنْتَثَلَ مَا فِيهَا، إِنَّمَا ضُرُوعُ مَوَاشِيهِمْ خَزَائِنُهُمْ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی کسی کے جانور کا اس کے مالک کی اجازت کے بغیر دودھ نہ دھوئے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا خزانہ توڑ کر اس میں سے سب کچھ نکال لیاجائے۔ بے شک جانوروں کے تھن بھی ان کے مالکوں کے خزانے ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: اللقطة: باب لا تحتلب ماشية أحد بغير اذنه رقم: الحديث: 2435، صحيح مسلم: اللقطة: باب تحريم حلب الماشية بغير اذن مالكها: رقم الحديث: 1726»