سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسامہ (بن زید) مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے فاطمہ وغیرہ کے علاوہ۔
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 9/518، رقم الحديث: 5707، السنن الكبريٰ للنسائي: 7/324، رقم الحديث: 8130، مسند ابي يعلي: 9/352، رقم الحديث: 5462، مجمع الزوائد: 9/282، رقم الحديث: 15543» علامہ ہیثمی، شیخ حسین سلیم اور احمد شاکر نے اسے ’’صحیح الإسناد‘‘ قرار دیا ہے۔
حدثنا عمرو بن عثمان، حدثنا حكيم بن نافع، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " يدخل اهل الجنة الجنة، ويدخل اهل النار النار، فيقوم مؤذن بينهم، فيقول: يا اهل الجنة لا موت، يا اهل النار لا موت، كل خالد فيما هو فيه".حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا حَكِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَدْخُلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَيَدْخُلُ أَهْلُ النَّارِ النَّارَ، فَيَقُومُ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ، فَيَقُولُ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ لا مَوْتَ، يَا أَهْلَ النَّارِ لا مَوْتَ، كُلٌّ خَالِدٌ فِيمَا هُوَ فِيهِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل جنت،جنت میں اور اہل جہنم جہنم میں داخل ہو جائیں گے تو ایک اعلان کرنے والا ان کے درمیان کھڑاہو کر کہے گا: اے اہل جنت! اب موت نہیں ہے۔ اے اہل جہنم! اب موت نہیں ہے۔ ہر کوئی جس جگہ ہے وہاں ہمیشہ رہنے والا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، الرقاق، باب يدخل الجنة سبعون الفاً بغير حساب، رقم الحديث: 6544، صحيح مسلم، الجنة ونعيمها، باب النار يدخلها الجبارون والجنة يدخلها الضعفاء، رقم الحديث: 2850»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس غلام نے اپنے مالک کی اجازت کے بغیر شادی کی وہ زانی ہے۔“
تخریج الحدیث: «سنن ابي داؤد، النكاح، باب فى نكاح العبد بغير إذن سيدة، رقم الحديث: 2079، سنن ابن ماجة، النكاح، باب ترويج العبد بغير اذن سيده، رقم الحديث: 1960» امام ابوداؤد نے کہا کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اور درحقیقت یہ موقوف ہے یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ ـ محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کے پکنے سے پہلے اور تازہ کھجوروں کی نبیذ بنانے سے منع کیا۔ بسراور خشک کھجور کی اکٹھی نبیذ بنانے سے بھی منع کیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، الاشربة، باب كراهية انتباذ التمر والزبيب مخلوطين، رقم الحديث: 1991»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا، مسجد کی بائیں جانب بالکل خالی ہو گئی۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مسجد کی بائیں جانب کو آباد کیا اس کو دگنا ثواب ملے گا۔“
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة، اقامة الصلوات والسنة فيها، باب فضل ميمنة الصف، رقم الحديث: 1007» محدث البانی نے اسے لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ”کیا آپ گمان کرتے ہیں، اور وہ گمان کرتے ہیں۔“ یعنی عربی تھی۔تخریج: یہ حدیث ہمیں نہیں ملی۔
حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا نافع بن عبد الرحمن بن ابي نعيم القاري، عن نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لبى، قال: " لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك". قال: واخبرني نافع: كان ابن عمر يزيد فيها: لبيك لبيك، لبيك وسعديك، والخير بيديك، والرغباء إليك والعمل. قال: واخبرني قال: واخبرني نافع، قال: كان ابن عمر" يستلم الركن الاسود، واليماني، ويقول: ما تركتهما في شدة ولا رخاء، منذ رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يستلمهما".حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نُعَيْمٍ الْقَارِيُّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبَّى، قَالَ: " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لا شَرِيكَ لَكَ". قَالَ: وَأَخْبَرَنِي نَافِعٌ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَزِيدُ فِيهَا: لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ، وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ. قَالَ: وَأَخْبَرَنِي قَالَ: وَأَخْبَرَنِي نَافِعٌ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ" يَسْتَلِمُ الرُّكْنَ الأَسْوَدَ، وَالْيَمَانِيَّ، وَيَقُولُ: مَا تَرَكْتُهُمَا فِي شِدَّةٍ وَلا رَخَاءٍ، مُنْذُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُمَا".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلبیہ پکارا تو فرمایا: میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، تمام قسم کی تعریفات اور نعمتیں تیرے ہی لیے ہیں اور تیری ہی بادشاہت ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔ نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس (تلبیہ) میں ان الفاظ کا اضافہ کرتے، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں اور تجھ سے موافقت چاہتا ہوں اور ہر قسم کی خیر تیرے ہاتھ میں ہے، ہر قسم کی رغبت اور عمل تیری طرف (تیرے لیے) ہے۔“ نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود اور رکن یمانی کا استلام کرتے اور فرماتے میں نے بھیڑ اور سکون کی حالت میں اس استلام کو کبھی بھی نہیں چھوڑا، جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں کا استلام کرتے دیکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، الحج، باب التلبية وصفتةا ووقتها، رقم الحديث: 1184» حدیث کے دوسرے حصہ کی تخریج کے لیے حدیث نمبر 39 دیکھیں۔