(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن الاعمش، عن ابي وائل، عن عبد الله رضي الله عنه، قال: قال رجل: يا رسول الله صلي الله عليه وسلم: ايؤاخذ الرجل بما عمل في الجاهلية؟، قال: "من احسن في الإسلام لم يؤاخذ بما كان عمل في الجاهلية، ومن اساء في الإسلام، اخذ بالاول والآخر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُؤَاخَذُ الرَّجُلُ بِمَا عَمِلَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ؟، قَالَ: "مَنْ أَحْسَنَ فِي الْإِسْلَامِ لَمْ يُؤَاخَذْ بِمَا كَانَ عَمِلَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَمَنْ أَسَاءَ فِي الْإِسْلَامِ، أُخِذَ بِالْأَوَّلِ وَالْآخِرِ".
سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کسی آدمی نے (اسلام لانے سے پہلے زمانہ) جاہلیت میں کوئی گناہ کیا، کیا اس کا مواخذہ کیا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اسلام لانے کے بعد اچھے کام کئے اس کے دور جاہلیت کے گناہوں (پر بھی) گرفت نہیں کی جائے گی اور جس نے اسلام لانے کے بعد (بھی) برے کام کئے اس کا اگلے اور پچھلے ہر دور کا مواخذہ اور گرفت ہو گی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1]» یہ حدیث متفق علیہ ہے، دیکھئے: [بخاری 6921]، [مسلم 318، 319]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا الوليد بن النضر الرملي، عن مسرة بن معبد من بني الحارث بن ابي الحرام من لخم، عن الوضين، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إنا كنا اهل جاهلية وعبادة اوثان، فكنا نقتل الاولاد، وكانت عندي ابنة لي فلما اجابت، وكانت مسرورة بدعائي إذا دعوتها، فدعوتها يوما، فاتبعتني فمررت حتى اتيت بئرا من اهلي غير بعيد، فاخذت بيدها فرديت بها في البئر، وكان آخر عهدي بها ان تقول: يا ابتاه! يا ابتاه! فبكى رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى وكف دمع عينيه، فقال له رجل من جلساء رسول الله صلى الله عليه وسلم: احزنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له:"كف فإنه يسال عما اهمه"، ثم قال له:"اعد علي حديثك"فاعاده، فبكى حتى وكف الدمع من عينيه على لحيته، ثم قال له: "إن الله قد وضع عن الجاهلية ما عملوا، فاستانف عملك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ النَّضْرِ الرَّمْلِيُّ، عَنْ مَسَرَّةَ بْنِ مَعْبَدٍ مِنْ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ أَبِي الْحَرَامِ مِنْ لَخْمٍ، عَنْ الْوَضِينِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا أَهْلَ جَاهِلِيَّةٍ وَعِبَادَةِ أَوْثَانٍ، فَكُنَّا نَقْتُلُ الْأَوْلَادَ، وَكَانَتْ عِنْدِي ابْنَةُ لِي فَلَمَّا أَجَابَتْ، وَكَانَتْ مَسْرُورَةً بِدُعَائِي إِذَا دَعَوْتُهَا، فَدَعَوْتُهَا يَوْمًا، فَاتَّبَعَتْنِي فَمَرَرْتُ حَتَّى أَتَيْتُ بِئْرًا مِنْ أَهْلِي غَيْرَ بَعِيدٍ، فَأَخَذْتُ بِيَدِهَا فَرَدَّيْتُ بِهَا فِي الْبِئْرِ، وَكَانَ آخِرَ عَهْدِي بِهَا أَنْ تَقُولَ: يَا أَبَتَاهُ! يَا أَبَتَاهُ! فَبَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى وَكَفَ دَمْعُ عَيْنَيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَحْزَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ:"كُفَّ فَإِنَّهُ يَسْأَلُ عَمَّا أَهَمَّهُ"، ثُمَّ قَالَ لَهُ:"أَعِدْ عَلَيَّ حَدِيثَكَ"فَأَعَادَهُ، فَبَكَى حَتَّى وَكَفَ الدَّمْعُ مِنْ عَيْنَيْهِ عَلَى لِحْيَتِهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: "إِنَّ اللَّهَ قَدْ وَضَعَ عَنْ الْجَاهِلِيَّةِ مَا عَمِلُوا، فَاسْتَأْنِفْ عَمَلَكَ".
وضین بن عطاء خزاعی نے روایت کیا کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم دور جاہلیت میں تھے اور بتوں کی پوجا کرتے تھے، اولاد کوقتل کر دیا کرتے تھے، میری ایک بیٹی تھی، جب وہ بات سمجھنے لگی اور میری پکار سے خوش ہونے لگی تو ایک دن میں نے اسے بلایا، وہ میرے پیچھے پیچھے چلنے لگی، میں چلتے ہوئے اپنے عزیز کے ایک کنویں کے پاس آیا جو قریب ہی تھا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے کنویں میں دھکا دے دیا، وہ ابا جان، ابا جان پکارتی رہی، یہی اس کے آخری کلمات تھے، (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں، آنسو بہنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم نشین حضرات میں سے ایک نے کہا: تم نے اللہ کے رسول کو رنجیدہ کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھہرو، انہوں نے وہی چیز معلوم کی ہے جو ان کے لئے اہم ہے“، پھر ان سے کہا: ”اپنا قصہ دوبارہ سناؤ“، انہوں نے پھر کہہ سنایا یہاں تک کہ آپ کے آنسو جاری ہو کر ریش مبارک کو تر کر گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالی نے دور جاہلیت کے گناہ معاف فرما دیئے ہیں اس لئے اب اچھے کام شروع کر دو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده رجاله ثقات غير أنه مرسل وقد تفرد بروايته الدارمي، [مكتبه الشامله نمبر: 2]» اس حدیث کو امام دارمی کے علاوہ کسی محدث نے روایت نہیں کیا، یہ مرسل ہے اور وضین صدوق سئی الحفظ ہیں لیکن حدیث کا آخری جملہ «إن الله قد وضع...» صحیح ہے۔ والله أعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده رجاله ثقات غير أنه مرسل وقد تفرد بروايته الدارمي
(حديث مقطوع) اخبرنا هارون بن معاوية، عن إبراهيم بن سليمان المؤدب، عن الاعمش، عن مجاهد، قال: حدثني مولاي: "ان اهله بعثوا معه بقدح فيه زبد ولبن إلى آلهتهم، قال: فمنعني ان آكل الزبد لمخافتها، قال: فجاء كلب فاكل الزبد وشرب اللبن، ثم بال على الصنم وهو: اساف ونائلة، قال هارون: كان الرجل في الجاهلية إذا سافر، حمل معه اربعة احجار: ثلاثة لقدره والرابع يعبده ويربي كلبه، ويقتل ولده".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سُلَيْمَانَ الْمُؤَدِّبِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَوْلَايَ: "أَنَّ أَهْلَهُ بَعَثُوا مَعَهُ بِقَدَحٍ فِيهِ زُبْدٌ وَلَبَنٌ إِلَى آلِهَتِهِمْ، قَالَ: فَمَنَعَنِي أَنْ آكُلَ الزُّبْدَ لِمَخَافَتِهَا، قَالَ: فَجَاءَ كَلْبٌ فَأَكَلَ الزُّبْدَ وَشَرِبَ اللَّبَنَ، ثُمَّ بَالَ عَلَى الصَّنَمِ وَهُوَ: أُسَافٌ وَنَائِلَةُ، قَالَ هَارُونُ: كَانَ الرَّجُلُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا سَافَرَ، حَمَلَ مَعَهُ أَرْبَعَةَ أَحْجَارٍ: ثَلَاثَةً لِقِدْرِهِ وَالرَّابِعَ يَعْبُدُهُ وَيُرَبِّي كَلْبَهُ، وَيَقْتُلُ وَلَدَهُ".
مجاہد سے مروی ہے کہ میرے آزاد کردہ غلام سائب بن ابی سائب نے بیان کیا کہ ان کے گھر والوں نے انہیں دودھ و مکھن کا ایک پیالہ دے کر اپنے بتوں کے پاس بھیجا، سائب نے کہا: بتوں کے خوف نے مجھے مکھن کھانے سے باز رکھا، لیکن ایک کتا آیا اور دودھ و مکھن کو چٹ کر گیا، پھر اساف و نائلہ بتوں پر پیشاب بھی کر گیا۔ راوی ہارون نے کہا: دور جاہلیت میں حالت یہ تھی کہ کوئی آدمی سفر پر جاتا تو اپنے ساتھ (مکہ سے) چار پتھر بھی لے جاتا، تین پتھر چولہا بنانے کے لئے اور چوتھا پتھر پوجا کے لئے، (ان کی حالت یہ تھی) وہ اپنے کتے کی تو پرورش کرتے لیکن اپنی اولاد کو مار ڈالتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3]» اس روایت کی تخریج صرف امام دارمی نے کی ہے اور اس کی سند حسن ہے امام احمد نے اسی سے ملتی جلتی روایت ذکر کی ہے جو صحیح ہے، دیکھئے: [المسند 425/2]۔
(حديث مقطوع) حدثنا مجاهد بن موسى، حدثنا ريحان هو ابن سعيد السامي، حدثنا عباد هو ابن منصور، عن ابي رجاء، قال: "كنا في الجاهلية إذا اصبنا حجرا حسنا، عبدناه، وإن لم نصب حجرا، جمعنا كثبة من رمل، ثم جئنا بالناقة الصفي فتفاج عليها، فنحلبها على الكثبة حتى نرويها، ثم نعبد تلك الكثبة ما اقمنا بذلك المكان"، قال ابو محمد الصفي: الكثيرة الالبان.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا رَيْحَانُ هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ السَّامِيُّ، حَدَّثَنَا عَبَّادٌ هُوَ ابْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، قَالَ: "كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا أَصَبْنَا حَجَرًا حَسَنًا، عَبَدْنَاهُ، وَإِنْ لَمْ نُصِبْ حَجَرًا، جَمَعْنَا كُثْبَةً مِنْ رَمْلٍ، ثُمَّ جِئْنَا بِالنَّاقَةِ الصَّفِيِّ فَتَفَاجَّ عَلَيْهَا، فَنَحْلُبُهَا عَلَى الْكُثْبَةِ حَتَّى نَرْوِيَهَا، ثُمَّ نَعْبُدُ تِلْكَ الْكُثْبَةَ مَا أَقَمْنَا بِذَلِكَ الْمَكَانِ"، قَالَ أَبُو مُحَمَّد الصَّفِيُّ: الْكَثِيرَةُ الْأَلْبَانِ.
ابورجاء سے روایت ہے کہ ہم دور جاہلیت میں کوئی اچھا پتھر پا جاتے تو اسی کی پوجا کرنے لگ جاتے تھے اور اگر کوئی اچھا سا پتھر نہ ملتا تو تھوڑی سی ریت جمع کرتے، پھر خوب دودھ والی اونٹنی لاتے اور اس کے پیر چوڑا کر کے اس ریت کے ڈھیر پر اس کا دودھ نکالتے اور اسے خوب سیراب کر دیتے تھے، پھر جب تک اس جگہ رہتے اس ڈھیر کی پوجا کرتے رہتے تھے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: «صفي» بہت زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو کہتے ہیں، «فتفاج» کا مطلب ہے اونٹنی کی وہ صورت جب دودھ نکالنے کے لئے وہ اپنے پیر چوڑا دے، اسی لئے «فج» چوڑے راستے کو کہتے ہیں جس کی جمع «فجاج» ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف عباد بن منصور كان يدلس وقد تغير بأخرة وهو موقوف على أبي رجاء عمران بن ملحان، [مكتبه الشامله نمبر: 4]» یہ روایت بھی انفرادات امام دارمی سے ہے جو موقوف ہے اور اس کے راوی عباد بن منصور مدلس ہیں۔ ابورجاء کا نام عمران بن ملحان العطاردی ہے۔ اس معنی کی روایت ابونعیم اصبہانی نے ذکر کی ہے جس کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء: 306/2]
وضاحت: (تشریح احادیث 1 سے 4) ان روایات (حدیث 1 سے 4) میں دور جاہلیت میں بچوں کو قتل کرنے، پتھروں کی پوجا کرنے، کتوں کی پرورش کرنے جیسے اعمال کا تذکرہ ہے، جن سے اسلام نے یک قلم روک دیا ہے۔ پہلی حدیث سے «الاسلام يهدم ماقبله» کی تائید ہوتی ہے، یعنی اسلام لانے کے بعد ماقبل اسلام کئے گئے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت وشفقت کہ دردناک قصہ سن کر رو پڑے۔ تیسری روایت میں معبودان باطلہ کی بے کسی و بے بسی ظاہر ہوتی ہے جو اپنے دفاع میں خود کچھ نہیں کر سکتے کسی کی مدد کیا کریں گے؟ (والله اعلم)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف عباد بن منصور كان يدلس وقد تغير بأخرة وهو موقوف على أبي رجاء عمران بن ملحان
(حديث مرفوع) اخبرنا الحسن بن الربيع، حدثنا ابو الاحوص، عن الاعمش، عن ابي صالح، قال: قال كعب: نجده مكتوبا: "محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم لا فظ، ولا غليظ، ولا صخاب بالاسواق، ولا يجزي بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويغفر، وامته الحمادون يكبرون الله عز وجل على كل نجد، ويحمدونه في كل منزلة، ويتازرون على انصافهم، ويتوضئون على اطرافهم، مناديهم ينادي في جو السماء صفهم في القتال، وصفهم في الصلاة سواء، لهم بالليل دوي كدوي النحل، مولده بمكة، ومهاجره بطيبة، وملكه بالشام".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ: قَالَ كَعْبٌ: نَجِدُهُ مَكْتُوبًا: "مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا فَظٌّ، وَلَا غَلِيظٌ، وَلَا صَخَّابٌ بِالْأَسْوَاقِ، وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ، وَأُمَّتُهُ الْحَمَّادُونَ يُكَبِّرُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى كُلِّ نَجْدٍ، وَيَحْمَدُونَهُ فِي كُلِّ مَنْزِلَةٍ، وَيَتَأَزَّرُونَ عَلَى أَنْصَافِهِمْ، وَيَتَوَضَّئُونَ عَلَى أَطْرَافِهِمْ، مُنَادِيهِمْ يُنَادِي فِي جَوِّ السَّمَاءِ صَفُّهُمْ فِي الْقِتَالِ، وَصَفُّهُمْ فِي الصَّلَاةِ سَوَاءٌ، لَهُمْ بِاللَّيْلِ دَوِيٌّ كَدَوِيِّ النَّحْلِ، مَوْلِدُهُ بِمَكَّةَ، وَمُهَاجِرُهُ بِطَيْبَةَ، وَمُلْكُهُ بِالشَّامِ".
ابوصالح ذکوان سے مروی ہے کہ سیدنا کعب نے فرمایا: ہم نے یہ لکھا دیکھا ہے: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ کے رسول ہیں، نہ بد زبان، نہ سنگ دل، نہ بازاروں میں شور مچانے والے ہیں، اور نہ وہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں اس کے بجائے عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں، آپ کے امتی بہت ثنا خوانی کرنے والے ہوں گے۔ جو ہر ٹیلے پر چڑھتے ہوئے الله کی کبریائی کے گیت گائیں گے اور ہر منزل پر رکتے ہوئے ثناخوانی کریں گے۔ آدھی پنڈلی تک ازار پہنیں گے اور ہاتھ و پیر کا وضوء کرتے ہوں گے ان کا منادی آسمانوں میں ندا دیتا ہے کہ نماز اور میدان جنگ میں ان کی صف بندی ایک جیسی ہے۔ رات میں ان کی گنگناہٹ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش مکہ اور ہجرت کرنے کی جگہ (مدینہ) طیبہ اور حکومت ملک شام تک ہو گی۔
تخریج الحدیث: «مرسل وإسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 5]» یہ روایت مرسل ہے اور سند قابل قبول ہے۔ [طبقات ابن سعد 87/2/1]، [شرح السنة 3648]، [حلية الأولياء 387/5]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: مرسل وإسناده صحيح
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني خالد هو ابن يزيد، عن سعيد هو ابن ابي هلال، عن هلال بن اسامة، عن عطاء بن يسار، عن ابن سلام رضي الله عنه، انه كان يقول: "إنا لنجد صفة رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنا ارسلناك شاهدا ومبشرا ونذيرا، وحرزا، للاميين، انت عبدي ورسولي، سميته المتوكل، ليس بفظ، ولا غليظ، ولا صخاب بالاسواق، ولا يجزي بالسيئة مثلها، ولكن يعفو ويتجاوز، ولن اقبضه حتى يقيم الملة المتعوجة بان يشهد ان لا إله إلا الله، نفتح به اعينا عميا وآذانا صما، وقلوبا غلفا"، قال عطاء بن يسار: واخبرني ابو واقد الليثي: انه سمع كعبا يقول مثل ما قال ابن سلام.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي خَالِدٌ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدٍ هُوَ ابْنُ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أُسَامَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ ابْنِ سَلَامٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: "إِنَّا لَنَجِدُ صِفَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا، وَحِرْزًا، لِلْأُمِّيِّينَ، أَنْتَ عَبْدِي وَرَسُولِي، سَمَّيْتُهُ الْمُتَوَكِّلَ، لَيْسَ بِفَظٍّ، وَلَا غَلِيظٍ، وَلَا صَخَّابٍ بِالْأَسْوَاقِ، وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ مِثْلَهَا، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَتَجَاوَزُ، وَلَنْ أَقْبِضَهُ حَتَّى يُقِيمَ الْمِلَّةَ الْمُتَعَوِّجَةَ بِأَنْ يَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، نَفْتَحُ بِهِ أَعْيُنًا عُمْيًا وَآذَانًا صُمًا، وَقُلُوبًا غُلْفًا"، قَالَ عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ: وَأَخْبَرَنِي أَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ: أَنَّهُ سَمِعَ كَعْبًا يَقُولُ مِثْلَ مَا قَالَ ابْنُ سَلَامٍ.
عبدالله بن سلام کہا کرتے تھے ہم (توراة میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف یوں پاتے ہیں: ہم نے تم کو گواہ بنا کر، خوشخبری دینے اور ڈرانے والا اور اَن پڑھ قوم کی نگہبانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے، تم میرے بندے اور رسول ہو، میں نے جن کا نام متوکل رکھا ہے، جو نہ بدخو ہے اور نہ سنگ دل اور نہ بازاروں میں شور مچانے والا ہے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتا ہے، بجائے اس کے درگزر کرتا ہے، اور میں اس وقت تک ہرگز اس کی روح قبض نہ کروں گا جب تک کہ وہ ایک کجر و قوم کو «لا اله الا الله» کی گواہی کے ذریعہ سیدھا نہ کر دے اور اس کے ذریعہ نابینا آنکھیں بینا نہ ہو جائیں اور بہرے کان کھول نہ دیئے جائیں اور پردہ پڑے ہوئے دلوں کے پردے کھول نہ دیئے جائیں۔ عطا بن یسار نے کہا: مجھے ابوواقد اللیثی نے خبر دی ہے کہ انہوں نے حضرت کعب الاحبار کو بھی ایسا ہی کہتے سنا جیسا عبداللہ بن سلام نے بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث وهو موقوف على ابن سلام، [مكتبه الشامله نمبر: 6]» اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن اس کے شواہد موجود ہیں۔ دیکھئے: [المعرفة والتاريخ للفسوي 274/3]، [دلائل النبوة للبيهقي 374/1]، نیز حدیث ابن عمرو بخاری میں [2151]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث وهو موقوف على ابن سلام
(حديث مرفوع) اخبرنا زيد بن عوف، قال: حدثنا ابو عوانة، عن عبد الملك بن عمير، عن ذكوان ابي صالح، عن كعب: "في السطر الاول: محمد رسول الله، عبدي المختار، لا فظ، ولا غليظ، ولا صخاب في الاسواق، ولا يجزي بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويغفر، مولده بمكة، وهجرته بطيبة، وملكه بالشام، وفي السطر الثاني: محمد رسول الله، امته الحمادون يحمدون الله في السراء والضراء، يحمدون الله في كل منزلة، ويكبرونه على كل شرف، رعاة الشمس يصلون الصلاة إذا جاء وقتها ولو كانوا على راس كناسة، وياتزرون على اوساطهم، ويوضئون اطرافهم، واصواتهم بالليل في جو السماء كاصوات النحل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ عَوْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ ذَكْوَانَ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ كَعْبٍ: "فِي السَّطْرِ الْأَوَّلِ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، عَبْدِي الْمُخْتَارُ، لَا فَظٌّ، وَلَا غَلِيظٌ، وَلَا صَخَّابٌ فِي الْأَسْوَاقِ، وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ، مَوْلِدُهُ بِمَكَّةَ، وَهِجْرَتُهُ بِطَيْبَةَ، وَمُلْكُهُ بِالشَّامِ، وَفِي السَّطْرِ الثَّانِي: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، أُمَّتُهُ الْحَمَّادُونَ يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ، يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي كُلِّ مَنْزِلَةٍ، وَيُكَبِّرُونَه عَلَى كُلِّ شَرَفٍ، رُعَاةُ الشَّمْسِ يُصَلُّونَ الصَّلَاةَ إِذَا جَاءَ وَقْتُهَا وَلَوْ كَانُوا عَلَى رَأْسِ كُنَاسَةٍ، وَيَأْتَزِرُونَ عَلَى أَوْسَاطِهِمْ، وَيُوَضِّئُونَ أَطْرَافَهُمْ، وَأَصْوَاتُهُمْ بِاللَّيْلِ فِي جَوِّ السَّمَاءِ كَأَصْوَاتِ النَّحْلِ".
کعب الاحبار سے مروی ہے سطر اول میں ہے: محمد رسول میرے پسندیدہ بندے ہیں (جو) نہ بدخلق ہیں اور نہ سنگ دل اور نہ بازاروں میں شور و غل مچانے والے ہیں، نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں اس کے بجائے معاف و درگزر کرتے ہیں، ان کی جائے پیدائش مکہ اور جائے ہجرت مدینہ طیبہ اور حکومت شام تک ہے۔ دوسرے پیراگراف میں کہتے ہیں: محمد اللہ کے رسول ہیں، ان کے امتی بہت حمد کرنے والے ہیں جو خوش حالی و پریشانی میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا کریں گے، ہر منزل پر الله کی حمد کرتے ہیں اور ہر ٹیلے (بلند زمین) پر اللہ کی کبریائی کے گن گاتے ہیں، سورج کا دھیان رکھنے والے، جب نماز کا وقت آ جائے نماز پڑھتے ہیں چاہے کوڑے کے ڈھیر پر ہی کیوں نہ ہوں، آدھی پنڈلیوں تک کے ازار پہنیں گے، ہاتھ پیروں کا وضو کریں گے، ان کی رات کی صدائیں آسمان کے اندر شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کی طرح ہوں گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده فيه زيد بن عوف وهو متروك وقد اتهمه أبو زرعة بالسرقة. وهو موقوف على كعب، [مكتبه الشامله نمبر: 7]» اس اثر کو امام دارمی کے علاوہ کسی نے ذکر نہیں کیا، زید بن عوف اس میں متروک ہیں اور یہ کعب الاحبار پر موقوف ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده فيه زيد بن عوف وهو متروك وقد اتهمه أبو زرعة بالسرقة. وهو موقوف على كعب
(حديث مرفوع) اخبرنا مجاهد بن موسى، حدثنا معن بن عيسى، حدثنا معاوية بن صالح، عن ابي فروة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، انه سال كعب الاحبار: كيف تجد نعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في التوراة؟، فقال كعب: "نجده محمد بن عبد الله يولد بمكة، ويهاجر إلى طابة، ويكون ملكه بالشام، وليس بفحاش، ولا صخاب في الاسواق، ولا يكافئ بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويغفر، امته الحمادون، يحمدون الله في كل سراء، وضراء ويكبرون الله على كل نجد، يوضئون اطرافهم، وياتزرون في اوساطهم، يصفون في صلاتهم كما يصفون في قتالهم، دويهم في مساجدهم كدوي النحل، يسمع مناديهم في جو السماء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ سَأَلَ كَعْبَ الْأَحْبَارِ: كَيْفَ تَجِدُ نَعْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّوْرَاةِ؟، فَقَالَ كَعْبٌ: "نَجِدْهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يُولَدُ بِمَكَّةَ، وَيُهَاجِرُ إِلَى طَابَةَ، وَيَكُونُ مُلْكُهُ بِالشَّامِ، وَلَيْسَ بِفَحَّاشٍ، وَلَا صَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ، وَلَا يُكَافِئُ بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ، أُمَّتُهُ الْحَمَّادُونَ، يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي كُلِّ سَرَّاءَ، وَضَرَّاءَ وَيُكَبِّرُونَ اللَّهَ عَلَى كُلِّ نَجْدٍ، يُوَضِّئُونَ أَطْرَافَهُمْ، وَيَأْتَزِرُونَ فِي أَوْسَاطِهِمْ، يُصَفُّونَ فِي صَلاتِهِمْ كَمَا يُصَفُّونَ فِي قِتَالِهِمْ، دَوِيُّهُمْ فِي مَسَاجِدِهِمْ كَدَوِيِّ النَّحْلِ، يُسْمَعُ مُنَادِيهِمْ فِي جَوِّ السَّمَاءِ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کعب الاحبار سے دریافت کیا کہ آپ توراة میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا صفت پاتے ہیں؟ چنانچہ کعب نے کہا: ہم توراة میں یہ دیکھتے ہیں: محمد بن عبداللہ مکہ میں پیدا ہوں گے، ہجرت کر کے طابہ (مدینہ) جائیں گے، آپ کی حکمرانی شام تک ہو گی، نہ آپ فحش گو ہوں گے اور نہ بازاروں میں شور و غل کرنے والے ہوں گے، برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیں گے بلکہ معاف و درگزر کریں گے۔ آپ کے امتی بہت ثنا خواں ہوں گے جو پریشانی و خوش حالی (ہر حال میں) اللہ تعالی کی حمد و ثنا کریں گے، ہر ٹیلے و اونچائی پر الله اکبر کہیں گے، اپنے ہاتھ پیر کا وضو کریں گے اور کمر پر ازار باندھیں گے، نماز میں ویسی ہی صف بندی کریں گے جیسے میدان جنگ میں صف بندی کرتے ہوں گے، مساجد میں ان کی گنگناہٹ شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کی طرح ہو گی، جن کی ندا آسمانوں میں سنی جائے گی۔
تخریج الحدیث: «إن ذكر ابن حبان عروة بن الحارث في ثقات التابعين جعل الحافظ يشير إلى أنه أبو فروة الذي يروي عن ابن عباس ونحن نشك في ذلك فإن كان هو فالإسناد صحيح وإلا فلعله من ترجمة ابن أبي حاتم في " الجرح والتعديل " 425/ 9 والله أعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 8]» ابن سعد نے طبقات میں اس اثر کو ذکر کیا ہے لیکن سند میں کلام ہے اور یہ سند بھی ضعیف ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إن ذكر ابن حبان عروة بن الحارث في ثقات التابعين جعل الحافظ يشير إلى أنه أبو فروة الذي يروي عن ابن عباس ونحن نشك في ذلك فإن كان هو فالإسناد صحيح وإلا فلعله من ترجمة ابن أبي حاتم في " الجرح والتعديل " 425/ 9 والله أعلم
جبیر بن نفیر حضرمی نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس ایسے رسول آئے ہیں جو نہ کمزور ہیں اور نہ سست تاکہ وہ غافل و پردہ پڑے ہوئے دلوں کو جگائیں، اندھی آنکھوں کو روشن کر دیں اور بہرے کانوں کو سنا دیں اور کجرو (ٹیڑھی) قوم و ملت کو سیدھا کر دیں یہاں تک کہ کہا جانے لگے «لا اله الا الله» یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔“
تخریج الحدیث: «مرسل إسناده ضعيف بقية بن الوليد مدلس تدليس التسوية وقد عنعن في هذا الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 9]» یہ روایت مرسل ضعیف ہے حافظ ابن حجر نے [فتح الباري 586/8] میں اس کو ذکر کیا ہے۔ بعض نسخوں میں راوی کا نام جبیر بن نضیر مکتوب ہے جو غلط ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: مرسل إسناده ضعيف بقية بن الوليد مدلس تدليس التسوية وقد عنعن في هذا الإسناد
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يزيد الحزامي، حدثنا إسحاق بن سليمان، عن عمرو بن ابي قيس، عن عطاء، عن عامر، قال: كان رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم له إليه حاجة، فمشى معه حتى دخل، قال: فإحدى رجليه في البيت والاخرى خارجة كانه يناجي، فالتفت، فقال: "اتدري من كنت اكلم؟ إن هذا ملك لم اره قط قبل يومي هذا، استاذن ربه ان يسلم علي، قال: إنا آتيناك او انزلنا القرآن فصلا، والسكينة صبرا، والفرقان وصلا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ إِلَيْهِ حَاجَةٌ، فَمَشَى مَعَهُ حَتَّى دَخَلَ، قَالَ: فَإِحْدَى رِجْلَيْهِ فِي الْبَيْتِ وَالْأُخْرَى خَارِجَة كَأَنَّهُ يُنَاجِي، فَالْتَفَتَ، فَقَالَ: "أَتَدْرِي مَنْ كُنْتُ أُكَلِّمُ؟ إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ أَرَهُ قَطُّ قَبْلَ يَوْمِي هَذَا، اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ، قَالَ: إِنَّا آتَيْنَاكَ أَوْ أَنْزَلْنَا الْقُرْآنَ فَصْلًا، وَالسَّكِينَةَ صَبْرًا، وَالْفُرْقَانَ وَصْلًا".
عامر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص کو آپ کی ضرورت پیش آئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ چل پڑے (گھر میں) داخل ہوتے وقت ابھی ایک قدم اندر اور ایک قدم باہر ہی تھا کہ اس صحابی نے محسوس کیا کہ آپ کسی سے سرگوشی فرما رہے ہیں، آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”جانتے ہو میں کس سے سرگوشی کر رہا تھا؟ یہ فرشتہ تھا جسے آج سے قبل میں نے دیکھا نہیں۔ اس نے اپنے رب سے مجھ سے سلام کرنے کی اجازت لی، اللہ تعالی نے فرمایا: ہم نے تمہیں قرآن دیا جو (حق و باطل) میں فیصلہ کرنے والا ہے اور اطمینان و سکون صبر کے لئے دیا، فرقان ملانے کے لئے دیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «مرسل رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 10]» یہ مرسل روایت ہے اور صرف امام دارمی نے اسے روایت کیا ہے، اس کے راوی ثقات ہیں۔