حدثنا علي بن عبد الله، وسعيد بن محمد، قالا: حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا ابي، عن محمد بن إسحاق قال: حدثني محمد بن عمرو بن عطاء، انه دخل على زينب بنت ابي سلمة، فسالته عن اسم اخت له عنده؟ قال: فقلت: اسمها برة، قالت: غير اسمها، فإن النبي صلى الله عليه وسلم نكح زينب بنت جحش واسمها برة، فغير اسمها إلى زينب، ودخل على ام سلمة حين تزوجها، واسمي برة، فسمعها تدعوني: برة، فقال: ”لا تزكوا انفسكم، فإن الله هو اعلم بالبرة منكن والفاجرة، سميها زينب“، فقالت: فهي زينب، فقلت لها: سمي، فقالت: غيره إلى ما غير إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسمها زينب.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ، وَسَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، فَسَأَلَتْهُ عَنِ اسْمِ أُخْتٍ لَهُ عِنْدَهُ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: اسْمُهَا بَرَّةُ، قَالَتْ: غَيِّرِ اسْمَهَا، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَكَحَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ وَاسْمُهَا بَرَّةُ، فَغَيَّرَ اسْمَهَا إِلَى زَيْنَبَ، وَدَخَلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ حِينَ تَزَوَّجَهَا، وَاسْمِي بَرَّةُ، فَسَمِعَهَا تَدْعُونِي: بَرَّةَ، فَقَالَ: ”لَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْبَرَّةِ مِنْكُنَّ وَالْفَاجِرَةِ، سَمِّيهَا زَيْنَبَ“، فَقَالَتْ: فَهِيَ زَيْنَبُ، فَقُلْتُ لَهَا: سَمِّي، فَقَالَتْ: غَيِّرْهُ إِلَى مَا غَيَّرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِّهَا زَيْنَبَ.
محمد بن عمرو بن عطاء رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ وہ سیدہ زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے تو ان کے پاس ان کی بہن بھی تھی۔ انہوں نے پوچھا: اس کا نام کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اس کا نام برہ ہے۔ انہوں نے فرمایا: اس کا نام بدل دو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو ان کا نام برہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر ان کا نام زینب رکھ دیا۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو میرا نام بھی بره تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے سنا کہ وہ مجھے برہ کہہ کر بلاتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی پاکیزگی خود بیان نہ کرو، بلاشبہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے کون نیک ہے اور کون فاجر۔ اس کا نام زینب رکھ دو۔“ انہوں نے کہا: تب یہ زینب ہے۔ محمد بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اس کا نام رکھ دیں۔ انہوں نے کہا تم خود ہی اس کا نام اس نام کے ساتھ بدل دو جس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدلا تھا اور اس کا نام زینب رکھ دو۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الأدب: 2142 و أبوداؤد: 4953 - انظر الصحيحة: 210»
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال: حدثنا زيد بن حباب قال: حدثني عمر بن عثمان بن عبد الرحمن بن سعيد المخزومي، حدثني جدي، عن ابيه، وكان اسمه الصرم، فسماه النبي صلى الله عليه وسلم سعيدا، قال: رايت عثمان رضي الله عنه متكئا في المسجد.حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنِي جَدِّي، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ اسْمُهُ الصَّرْمَ، فَسَمَّاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعِيدًا، قَالَ: رَأَيْتُ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مُتَّكِئًا فِي الْمَسْجِدِ.
سیدنا سعید بن یربوع مخزومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس کا نام صرم تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام سعید رکھا۔ عمر بن عثمان نے کہا: میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ مسجد میں ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه المصنف فى تاريخه: 453/3 و الطبراني فى الكبير: 5528»
حدثنا ابو نعيم، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن هانئ بن هانئ، عن علي رضي الله عنه قال: لما ولد الحسن رضي الله عنه سميته: حربا، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ”اروني ابني، ما سميتموه؟“ قلنا: حربا، قال: ”بل هو حسن.“ فلما ولد الحسين رضي الله عنه سميته حربا، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ”اروني ابني، ما سميتموه؟“ قلنا: حربا، قال: ”بل هو حسين.“ فلما ولد الثالث سميته: حربا، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ”اروني ابني، ما سميتموه؟“ قلنا: حربا، قال: ”بل هو محسن“، ثم قال: ”إني سميتهم باسماء ولد هارون: شبر، وشبير، ومشبر.“حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا وُلِدَ الْحَسَنُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمَّيْتُهُ: حَرْبًا، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ”أَرُونِي ابْنِي، مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟“ قُلْنَا: حَرْبًا، قَالَ: ”بَلْ هُوَ حَسَنٌ.“ فَلَمَّا وُلِدَ الْحُسَيْنُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمَّيْتُهُ حَرْبًا، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ”أَرُونِي ابْنِي، مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟“ قُلْنَا: حَرْبًا، قَالَ: ”بَلْ هُوَ حُسَيْنٌ.“ فَلَمَّا وُلِدَ الثَّالِثُ سَمَّيْتُهُ: حَرْبًا، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ”أَرُونِي ابْنِي، مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟“ قُلْنَا: حَرْبًا، قَالَ: ”بَلْ هُوَ مُحْسِنٌ“، ثُمَّ قَالَ: ”إِنِّي سَمَّيْتُهُمْ بِأَسْمَاءِ وَلَدِ هَارُونَ: شِبْرٌ، وَشَبِيرٌ، وَمُشَبِّرٌ.“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو میں نے ان کا نام حرب رکھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟“ ہم نے کہا: حرب۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ وہ تو حسن ہے۔“ پھر جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو میں نے ان کا نام حرب رکھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟“ ہم نے کہا: حرب نام رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ اس کا نام حسین ہے۔“ جب تیسرا بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام میں نے حرب رکھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو فرمایا: ”مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، اس کا نام تم نے کیا رکھا ہے؟“ ہم نے کہا: حرب۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، اس کا نام محسن ہے۔“ پھر فرمایا: ”میں نے ان کے نام ہارون علیہ السلام کے بیٹوں کے نام پر رکھے ہیں۔ ان کے نام شبر، شبیر اور مشبر تھے۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه أحمد: 769 و ابن حبان: 6958 و الطبراني فى الكبير: 2773 و الحاكم: 168/3 - الضعيفة: 3706»
حدثنا محمد بن سنان، قال: حدثنا عبد الله بن الحارث بن ابزى قال: حدثتني امي رائطة بنت مسلم، عن ابيها قال: شهدت مع النبي صلى الله عليه وسلم حنينا، فقال لي: ”ما اسمك؟“ قلت: غراب، قال: ”لا، بل اسمك مسلم.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ أَبْزَى قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمِّي رَائِطَةُ بِنْتُ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِيهَا قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا، فَقَالَ لِي: ”مَا اسْمُكَ؟“ قُلْتُ: غُرَابٌ، قَالَ: ”لَا، بَلِ اسْمُكَ مُسْلِمٌ.“
سیدنا مسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حنین کے معرکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہارا نام کیا ہے؟“ میں نے کہا: میرا نام غراب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ آج کے بعد تمہارا نام مسلم ہے۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه البخاري فى التاريخ الكبير: 252/7 و ابن أبى خيثمة فى التاريخ: 474 و الطبراني فى الكبير: 433/19 و أبونعيم فى معرفة الصحابة: 6044 و الروياني: 1493 و الحاكم: 307/4»
حدثنا عمرو بن مرزوق، قال: حدثنا عمران القطان، عن قتادة، عن زرارة بن اوفى، عن سعد بن هشام، عن عائشة رضي الله عنها، ذكر عند رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل يقال له: شهاب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”بل انت هشام.“حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: شِهَابٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”بَلْ أَنْتَ هِشَامٌ.“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کا ذکر ہوا جسے شہاب کہا جاتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ تم ہشام ہو۔“
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه الطيالسي: 1604 و أحمد: 24465 و ابن حبان: 5823 و الحاكم: 308/4 - انظر الصحيحة: 215»
حدثنا مسدد، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن زكريا قال: حدثني عامر، عن عبد الله بن مطيع قال: سمعت مطيعا يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول، يوم فتح مكة: ”لا يقتل قرشي صبرا بعد اليوم إلى يوم القيامة“، فلم يدرك الإسلام احد من عصاة قريش غير مطيع، كان اسمه العاص فسماه النبي صلى الله عليه وسلم مطيعا.حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ زَكَرِيَّا قَالَ: حَدَّثَنِي عَامِرٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُطِيعٍ قَالَ: سَمِعْتُ مُطِيعًا يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ، يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ: ”لَا يُقْتَلُ قُرَشِيٌّ صَبْرًا بَعْدَ الْيَوْمِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ“، فَلَمْ يُدْرِكِ الإِسْلاَمَ أَحَدٌ مِنْ عُصَاةِ قُرَيْشٍ غَيْرُ مُطِيعٍ، كَانَ اسْمُهُ الْعَاصَ فَسَمَّاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُطِيعًا.
سيدنا مطیع بن اسود عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے روز فرماتے ہوئے سنا: ”آج کے بعد قیامت تک کسی قریشی کو قیدی بنا کر قتل نہیں کیا جائے گا۔“ چنانچہ قریش کے عاص نامی آدمیوں میں سے اس روز سوائے مطیع کے کوئی بھی مسلمان نہ ہوا۔ اس کا نام عاص تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام مطیع رکھا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه عبدالرزاق: 9399 و الحميدي: 578 و أحمد: 15408 و أبوعوانه: 6789 و ابن حبان: 3718 - انظر الصحيحة: 2427»
حدثنا ابو اليمان، قال: حدثنا شعيب، عن الزهري قال: حدثني ابو سلمة، ان عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”يا عائش، هذا جبريل يقرا عليك السلام“، قالت: وعليه السلام ورحمة الله وبركاته، قالت: وهو يرى ما لا ارى.حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”يَا عَائِشُ، هَذَا جِبْرِيلُ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلاَمَ“، قَالَتْ: وَعَلَيْهِ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، قَالَتْ: وَهُوَ يَرَى مَا لا أَرَى.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائش! یہ جبرائیل ہیں جو تجھے سلام پیش کرتے ہیں۔“ وہ فرماتی ہیں: میں نے کہا: ان پر بھی سلامتی، اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں۔ وہ فرماتی ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کچھ دیکھتے تھے جو میں نہیں دیکھتی تھی۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب بدء الخلق، باب ذكر الملائكة........: 3217، 3768 و مسلم،كتاب فضائل الصحابه: 2447 و أبوداؤد: 5232 و الترمذي: 2693 و النسائي: 3406»
حدثنا محمد بن عقبة، قال: حدثنا محمد بن إبراهيم اليشكري البصري قال: حدثتني جدتي ام كلثوم بنت ثمامة، انها قدمت حاجة، فإن اخاها المخارق بن ثمامة قال: ادخلي على عائشة، وسليها عن عثمان بن عفان، فإن الناس قد اكثروا فيه عندنا، قالت: فدخلت عليها فقلت: بعض بنيك يقرئك السلام، ويسالك عن عثمان بن عفان، قالت: وعليه السلام ورحمة الله، قالت: اما انا فاشهد على اني رايت عثمان في هذا البيت في ليلة قائظة، ونبي الله صلى الله عليه وسلم وجبريل يوحي إليه، والنبي صلى الله عليه وسلم يضرب كف - او كتف - ابن عفان بيده: ”اكتب، عثم“، فما كان الله ينزل تلك المنزلة من نبيه صلى الله عليه وسلم إلا رجلا عليه كريما، فمن سب ابن عفان فعليه لعنة الله.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْيَشْكُرِيُّ الْبَصْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي أُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتُ ثُمَامَةَ، أَنَّهَا قَدِمَتْ حَاجَّةً، فَإِنَّ أَخَاهَا الْمُخَارِقَ بْنَ ثُمَامَةَ قَالَ: ادْخُلِي عَلَى عَائِشَةَ، وَسَلِيهَا عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَإِنَّ النَّاسَ قَدْ أَكْثَرُوا فِيهِ عِنْدَنَا، قَالَتْ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهَا فَقُلْتُ: بَعْضُ بَنِيكِ يُقْرِئُكِ السَّلاَمَ، وَيَسْأَلُكِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَتْ: وَعَلَيْهِ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ، قَالَتْ: أَمَّا أَنَا فَأَشْهَدُ عَلَى أَنِّي رَأَيْتُ عُثْمَانَ فِي هَذَا الْبَيْتِ فِي لَيْلَةٍ قَائِظَةٍ، وَنَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجِبْرِيلُ يُوحِي إِلَيْهِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْرِبُ كَفَّ - أَوْ كَتِفَ - ابْنِ عَفَّانَ بِيَدِهِ: ”اكْتُبْ، عُثْمُ“، فَمَا كَانَ اللَّهُ يُنْزِلُ تِلْكَ الْمَنْزِلَةَ مِنْ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلاَّ رَجُلاً عَلَيْهِ كَرِيمًا، فَمَنْ سَبَّ ابْنَ عَفَّانَ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ.
سیدہ ام کلثوم بنت ثمامہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ حج کے لیے مکہ آئیں تو ان کے بھائی مخارق بن ثمامہ نے کہا: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھو کیونکہ ہمارے ہاں لوگ ان کے بارے میں بہت باتیں کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں: میں ان کے پاس گئی تو میں نے کہا: آپ کا ایک بیٹا آپ کو سلام کہتا ہے اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھتا ہے۔ انہوں نے فرمایا: اس پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت ہو۔ فرمانے لگیں: میں تو گواہی دیتی ہوں کہ میں نے عثمان کو اس گھر میں دیکھا۔ گرم رات تھی، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور جبریل امین تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لے کر آئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بازو یا کندھے کو تھپاتے اور فرماتے: ”عثم، لکھو۔“ اللہ تعالیٰٰ جس کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں یہ مقام دے، وہ یقیناً ایسا شخص ہے جس پر اللہ مہربان ہے۔ جس نے ابن عفان کو گالی دی اس پر اللہ تعالیٰٰ کی لعنت ہو۔
حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا الاسود بن شيبان، قال: حدثنا خالد بن سمير قال: حدثني بشير بن نهيك، قال: حدثنا بشير قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ”ما اسمك؟“ قال: زحم، قال: ”بل انت بشير“، فبينما انا اماشي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ”يا ابن الخصاصية، ما اصبحت تنقم على الله؟ اصبحت تماشي رسول الله صلى الله عليه وسلم“، قلت: بابي وامي، ما انقم على الله شيئا، كل خير قد اصبت. فاتى على قبور المشركين فقال: ”لقد سبق هؤلاء خيرا كثيرا“، ثم اتى على قبور المسلمين فقال: ”لقد ادرك هؤلاء خيرا كثيرا“، فإذا رجل عليه سبتيتان يمشي بين القبور، فقال: ”يا صاحب السبتيتين، الق سبتيتك“، فخلع نعليه.حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سُمَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي بَشِيرُ بْنُ نَهِيكٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَشِيرٌ قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ”مَا اسْمُكَ؟“ قَالَ: زَحْمٌ، قَالَ: ”بَلْ أَنْتَ بَشِيرٌ“، فَبَيْنَمَا أَنَا أُمَاشِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ”يَا ابْنَ الْخَصَاصِيَةِ، مَا أَصْبَحْتَ تَنْقِمُ عَلَى اللهِ؟ أَصْبَحْتَ تُمَاشِي رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ“، قُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي، مَا أَنْقِمُ عَلَى اللهِ شَيْئًا، كُلَّ خَيْرٍ قَدْ أَصَبْتُ. فَأَتَى عَلَى قُبُورِ الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ: ”لَقَدْ سَبَقَ هَؤُلاَءِ خَيْرًا كَثِيرًا“، ثُمَّ أَتَى عَلَى قُبُورِ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ: ”لَقَدْ أَدْرَكَ هَؤُلاَءِ خَيْرًا كَثِيرًا“، فَإِذَا رَجُلٌ عَلَيْهِ سِبْتِيَّتَانِ يَمْشِي بَيْنَ الْقُبُورِ، فَقَالَ: ”يَا صَاحِبَ السِّبْتِيَّتَيْنِ، أَلْقِ سِبْتِيَّتَكَ“، فَخَلَعَ نَعْلَيْهِ.
سیدنا بشیر بن نہیک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہارا نام کیا ہے؟“ اس نے کہا: زحم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، تمہارا نام بشیر ہے۔“ اس دوران کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابن الخصاصیہ کیا تمہیں اللہ کے کسی فیصلے پر ناگواری ہوئی ہے اور تم اللہ کے رسول کے ساتھ ساتھ چل رہے ہو۔“ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں اللہ کے کسی فیصلے پر کیسے ناگواری محسوس کروں گا جبکہ مجھے ہر خیر مل گئی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کی قبروں کے پاس آئے تو فرمایا: ”ان سے بہت زیادہ خیر چھوٹ گئی ہے۔“ پھر مسلمانوں کی قبروں کے پاس آئے اور فرمایا: ”ان لوگوں نے خیر کثیر کو پالیا ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک آدمی سبتی جوتے پہنے قبروں کے درمیان چل رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سبتی جوتوں والے اپنے سبتی جوتے اتار دو۔“ چنانچہ اس نے اپنے جوتے اتار دیے۔
حدثنا سعيد بن منصور، قال: حدثنا عبيد الله بن إياد، عن ابيه قال: سمعت ليلى امراة بشير تحدث، عن بشير ابن الخصاصية، وكان اسمه زحما، فسماه النبي صلى الله عليه وسلم بشيرا.حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ إِيَادٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ لَيْلَى امْرَأَةَ بَشِيرٍ تُحَدِّثُ، عَنْ بَشِيرِ ابْنِ الْخَصَاصِيَةِ، وَكَانَ اسْمُهُ زَحْمًا، فَسَمَّاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشِيرًا.
بشیر کی بیوی لیلیٰ بشیر ابن الخصاصیہ کے بارے میں بیان کرتی ہے کہ ان کا نام زحم تھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بشیر رکھا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 21956 و ابن سعد فى الطبقات: 120/6 و أبوزرعة الدمشقي فى تاريخه: 1842 و ابن معين فى تاريخه: 1598 - انظر الصحيحة: 2427»