صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
حدیث نمبر: 6074
Save to word اعراب English
(موقوف) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: حدثني عوف بن مالك بن الطفيل هو ابن الحارث، وهو ابن اخي عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم لامها، ان عائشة، حدثت ان عبد الله بن الزبير، قال في بيع او عطاء اعطته عائشة:" والله لتنتهين عائشة او لاحجرن عليها، فقالت: اهو قال هذا؟ قالوا: نعم، قالت: هو لله علي نذر ان لا اكلم ابن الزبير ابدا، فاستشفع ابن الزبير إليها حين طالت الهجرة، فقالت: لا والله لا اشفع فيه ابدا ولا اتحنث إلى نذري، فلما طال ذلك على ابن الزبير كلم المسور بن مخرمة، وعبد الرحمن بن الاسود بن عبد يغوث، وهما من بني زهرة، وقال لهما: انشدكما بالله لما ادخلتماني على عائشة، فإنها لا يحل لها ان تنذر قطيعتي، فاقبل به المسور، وعبد الرحمن مشتملين بارديتهما حتى استاذنا على عائشة، فقالا: السلام عليك ورحمة الله وبركاته، اندخل؟ قالت عائشة: ادخلوا قالوا: كلنا قالت: نعم ادخلوا كلكم، ولا تعلم ان معهما ابن الزبير، فلما دخلوا دخل ابن الزبير الحجاب فاعتنق عائشة وطفق يناشدها ويبكي، وطفق المسور، وعبد الرحمن يناشدانها إلا ما كلمته وقبلت منه، ويقولان: إن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عما قد علمت من الهجرة فإنه لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال، فلما اكثروا على عائشة من التذكرة والتحريج طفقت تذكرهما نذرها وتبكي وتقول: إني نذرت والنذر شديد، فلم يزالا بها حتى كلمت ابن الزبير واعتقت في نذرها ذلك اربعين رقبة، وكانت تذكر نذرها بعد ذلك فتبكي حتى تبل دموعها خمارها".(موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ الطُّفَيْلِ هُوَ ابْنُ الْحَارِثِ، وَهُوَ ابْنُ أَخِي عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمِّهَا، أَنَّ عَائِشَةَ، حُدِّثَتْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، قَالَ فِي بَيْعٍ أَوْ عَطَاءٍ أَعْطَتْهُ عَائِشَةُ:" وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ عَائِشَةُ أَوْ لَأَحْجُرَنَّ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: أَهُوَ قَالَ هَذَا؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَتْ: هُوَ لِلَّهِ عَلَيَّ نَذْرٌ أَنْ لَا أُكَلِّمَ ابْنَ الزُّبَيْرِ أَبَدًا، فَاسْتَشْفَعَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِلَيْهَا حِينَ طَالَتِ الْهِجْرَةُ، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ لَا أُشَفِّعُ فِيهِ أَبَدًا وَلَا أَتَحَنَّثُ إِلَى نَذْرِي، فَلَمَّا طَالَ ذَلِكَ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ كَلَّمَ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، وَهُمَا مِنْ بَنِي زُهْرَةَ، وَقَالَ لَهُمَا: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ لَمَّا أَدْخَلْتُمَانِي عَلَى عَائِشَةَ، فَإِنَّهَا لَا يَحِلُّ لَهَا أَنْ تَنْذِرَ قَطِيعَتِي، فَأَقْبَلَ بِهِ الْمِسْوَرُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ مُشْتَمِلَيْنِ بِأَرْدِيَتِهِمَا حَتَّى اسْتَأْذَنَا عَلَى عَائِشَةَ، فَقَالَا: السَّلَامُ عَلَيْكِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، أَنَدْخُلُ؟ قَالَتْ عَائِشَةُ: ادْخُلُوا قَالُوا: كُلُّنَا قَالَتْ: نَعَم ادْخُلُوا كُلُّكُمْ، وَلَا تَعْلَمُ أَنَّ مَعَهُمَا ابْنَ الزُّبَيْرِ، فَلَمَّا دَخَلُوا دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ الْحِجَابَ فَاعْتَنَقَ عَائِشَةَ وَطَفِقَ يُنَاشِدُهَا وَيَبْكِي، وَطَفِقَ الْمِسْوَرُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ يُنَاشِدَانِهَا إِلَّا مَا كَلَّمَتْهُ وَقَبِلَتْ مِنْهُ، وَيَقُولَانِ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَمَّا قَدْ عَلِمْتِ مِنَ الْهِجْرَةِ فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَى عَائِشَةَ مِنَ التَّذْكِرَةِ وَالتَّحْرِيجِ طَفِقَتْ تُذَكِّرُهُمَا نَذْرَهَا وَتَبْكِي وَتَقُولُ: إِنِّي نَذَرْتُ وَالنَّذْرُ شَدِيدٌ، فَلَمْ يَزَالَا بِهَا حَتَّى كَلَّمَتِ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَأَعْتَقَتْ فِي نَذْرِهَا ذَلِكَ أَرْبَعِينَ رَقَبَةً، وَكَانَتْ تَذْكُرُ نَذْرَهَا بَعْدَ ذَلِكَ فَتَبْكِي حَتَّى تَبُلَّ دُمُوعُهَا خِمَارَهَا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے، کہا مجھ سے عوف بن مالک بن طفیل نے بیان کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مادری بھتیجے تھے، انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کوئی چیز بھیجی یا خیرات کی تو عبداللہ بن زبیر جو ان کے بھانجے تھے کہنے لگے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایسے معاملوں سے باز رہنا چاہیئے نہیں تو اللہ کی قسم میں ان کے لیے حجر کا حکم جاری کر دوں گا۔ ام المؤمنین نے کہا کیا اس نے یہ الفاظ کہے ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ جی ہاں۔ فرمایا پھر میں اللہ سے نذر کرتی ہوں کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے اب کبھی نہیں بولوں گی۔ اس کے بعد جب ان کے قطع تعلقی پر عرصہ گزر گیا۔ تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے ان سے سفارش کی گئی (کہ انہیں معاف فرما دیں) ام المؤمنین نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! اس کے بارے میں کوئی سفارش نہیں مانوں گی اور اپنی نذر نہیں توڑوں گی۔ جب یہ قطعی تعلق عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گئی تو انہوں نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود بن عبد یغوث رضی اللہ عنہم سے اس سلسلے میں بات کی وہ دونوں بنی زہرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کسی طرح تم لوگ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں داخل کرا دو کیونکہ ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ میرے ساتھ صلہ رحمی کو توڑنے کی قسم کھائیں چنانچہ مسور اور عبدالرحمٰن دونوں اپنی چادروں میں لپٹے ہوئے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو اس میں ساتھ لے کر آئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے اندر آنے کی اجازت چاہی اور عرض کی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، کیا ہم اندر آ سکتے ہیں؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا آ جاؤ۔ انہوں نے عرض کیا ہم سب؟ کہا ہاں، سب آ جاؤ۔ ام المؤمنین کو اس کا علم نہیں تھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بھی ان کے ساتھ ہیں۔ جب یہ اندر گئے تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پردہ ہٹا کر اندر چلے گئے اور ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے لپٹ کر اللہ کا واسطہ دینے لگے اور رونے لگے (کہ معاف کر دیں، یہ ام المؤمنین کے بھانجے تھے) مسور اور عبدالرحمٰن بھی ام المؤمنین کو اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بولیں اور انہیں معاف کر دیں ان حضرات نے یہ بھی عرض کیا کہ جیسا کہ تم کو معلوم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلق توڑنے سے منع کیا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ والی حدیث یاد دلانے لگے اور یہ کہ اس میں نقصان ہے تو ام المؤمنین بھی انہیں یاد دلانے لگیں اور رونے لگیں اور فرمانے لگیں کہ میں نے تو قسم کھا لی ہے؟ اور قسم کا معاملہ سخت ہے لیکن یہ بزرگ لوگ برابر کوشش کرتے رہے، یہاں تک کہ ام المؤمنین نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بات کر لی اور اپنی قسم (توڑنے) کی وجہ سے چالیس غلام آزاد کئے۔ اس کے بعد جب بھی آپ یہ قسم یاد کرتیں تو رونے لگتیں اور آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Aisha: (the wife of the Prophet) that she was told that `Abdullah bin Az-Zubair (on hearing that she was selling or giving something as a gift) said, "By Allah, if `Aisha does not give up this, I will declare her incompetent to dispose of her wealth." I said, "Did he (`Abdullah bin Az-Zubair) say so?" They (people) said, "Yes." `Aisha said, "I vow to Allah that I will never speak to Ibn Az-Zubair." When this desertion lasted long, `Abdullah bin Az-Zubair sought intercession with her, but she said, "By Allah, I will not accept the intercession of anyone for him, and will not commit a sin by breaking my vow." When this state of affairs was prolonged on Ibn Az-Zubair (he felt it hard on him), he said to Al- Miswar bin Makhrama and `Abdur-Rahman bin Al-Aswad bin 'Abu Yaghuth, who were from the tribe of Bani Zahra, "I beseech you, by Allah, to let me enter upon `Aisha, for it is unlawful for her to vow to cut the relation with me." So Al-Miswar and `Abdur-Rahman, wrapping their sheets around themselves, asked `Aisha's permission saying, "Peace and Allah's Mercy and Blessings be upon you! Shall we come in?" `Aisha said, "Come in." They said, "All of us?" She said, "Yes, come in all of you," not knowing that Ibn Az- Zubair was also with them. So when they entered, Ibn Az-Zubair entered the screened place and got hold of `Aisha and started requesting her to excuse him, and wept. Al-Miswar and `Abdur Rahman also started requesting her to speak to him and to accept his repentance. They said (to her), "The Prophet forbade what you know of deserting (not speaking to your Muslim Brethren), for it is unlawful for any Muslim not to talk to his brother for more than three nights (days)." So when they increased their reminding her (of the superiority of having good relation with Kith and kin, and of excusing others' sins), and brought her down to a critical situation, she started reminding them, and wept, saying, "I have made a vow, and (the question of) vow is a difficult one." They (Al-Miswar and `Abdur-Rahman) persisted in their appeal till she spoke with `Abdullah bin Az- Zubair and she manumitted forty slaves as an expiation for her vow. Later on, whenever she remembered her vow, she used to weep so much that her veil used to become wet with her tears.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 98


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 6075
Save to word اعراب English
(موقوف) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: حدثني عوف بن مالك بن الطفيل هو ابن الحارث، وهو ابن اخي عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم لامها، ان عائشة، حدثت ان عبد الله بن الزبير، قال في بيع او عطاء اعطته عائشة:" والله لتنتهين عائشة او لاحجرن عليها، فقالت: اهو قال هذا؟ قالوا: نعم، قالت: هو لله علي نذر ان لا اكلم ابن الزبير ابدا، فاستشفع ابن الزبير إليها حين طالت الهجرة، فقالت: لا والله لا اشفع فيه ابدا ولا اتحنث إلى نذري، فلما طال ذلك على ابن الزبير كلم المسور بن مخرمة، وعبد الرحمن بن الاسود بن عبد يغوث، وهما من بني زهرة، وقال لهما: انشدكما بالله لما ادخلتماني على عائشة، فإنها لا يحل لها ان تنذر قطيعتي، فاقبل به المسور، وعبد الرحمن مشتملين بارديتهما حتى استاذنا على عائشة، فقالا: السلام عليك ورحمة الله وبركاته، اندخل؟ قالت عائشة: ادخلوا قالوا: كلنا قالت: نعم ادخلوا كلكم، ولا تعلم ان معهما ابن الزبير، فلما دخلوا دخل ابن الزبير الحجاب فاعتنق عائشة وطفق يناشدها ويبكي، وطفق المسور، وعبد الرحمن يناشدانها إلا ما كلمته وقبلت منه، ويقولان: إن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عما قد علمت من الهجرة فإنه لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال، فلما اكثروا على عائشة من التذكرة والتحريج طفقت تذكرهما نذرها وتبكي وتقول: إني نذرت والنذر شديد، فلم يزالا بها حتى كلمت ابن الزبير واعتقت في نذرها ذلك اربعين رقبة، وكانت تذكر نذرها بعد ذلك فتبكي حتى تبل دموعها خمارها".(موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ الطُّفَيْلِ هُوَ ابْنُ الْحَارِثِ، وَهُوَ ابْنُ أَخِي عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمِّهَا، أَنَّ عَائِشَةَ، حُدِّثَتْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، قَالَ فِي بَيْعٍ أَوْ عَطَاءٍ أَعْطَتْهُ عَائِشَةُ:" وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ عَائِشَةُ أَوْ لَأَحْجُرَنَّ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: أَهُوَ قَالَ هَذَا؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَتْ: هُوَ لِلَّهِ عَلَيَّ نَذْرٌ أَنْ لَا أُكَلِّمَ ابْنَ الزُّبَيْرِ أَبَدًا، فَاسْتَشْفَعَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِلَيْهَا حِينَ طَالَتِ الْهِجْرَةُ، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ لَا أُشَفِّعُ فِيهِ أَبَدًا وَلَا أَتَحَنَّثُ إِلَى نَذْرِي، فَلَمَّا طَالَ ذَلِكَ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ كَلَّمَ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، وَهُمَا مِنْ بَنِي زُهْرَةَ، وَقَالَ لَهُمَا: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ لَمَّا أَدْخَلْتُمَانِي عَلَى عَائِشَةَ، فَإِنَّهَا لَا يَحِلُّ لَهَا أَنْ تَنْذِرَ قَطِيعَتِي، فَأَقْبَلَ بِهِ الْمِسْوَرُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ مُشْتَمِلَيْنِ بِأَرْدِيَتِهِمَا حَتَّى اسْتَأْذَنَا عَلَى عَائِشَةَ، فَقَالَا: السَّلَامُ عَلَيْكِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، أَنَدْخُلُ؟ قَالَتْ عَائِشَةُ: ادْخُلُوا قَالُوا: كُلُّنَا قَالَتْ: نَعَم ادْخُلُوا كُلُّكُمْ، وَلَا تَعْلَمُ أَنَّ مَعَهُمَا ابْنَ الزُّبَيْرِ، فَلَمَّا دَخَلُوا دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ الْحِجَابَ فَاعْتَنَقَ عَائِشَةَ وَطَفِقَ يُنَاشِدُهَا وَيَبْكِي، وَطَفِقَ الْمِسْوَرُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ يُنَاشِدَانِهَا إِلَّا مَا كَلَّمَتْهُ وَقَبِلَتْ مِنْهُ، وَيَقُولَانِ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَمَّا قَدْ عَلِمْتِ مِنَ الْهِجْرَةِ فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَى عَائِشَةَ مِنَ التَّذْكِرَةِ وَالتَّحْرِيجِ طَفِقَتْ تُذَكِّرُهُمَا نَذْرَهَا وَتَبْكِي وَتَقُولُ: إِنِّي نَذَرْتُ وَالنَّذْرُ شَدِيدٌ، فَلَمْ يَزَالَا بِهَا حَتَّى كَلَّمَتِ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَأَعْتَقَتْ فِي نَذْرِهَا ذَلِكَ أَرْبَعِينَ رَقَبَةً، وَكَانَتْ تَذْكُرُ نَذْرَهَا بَعْدَ ذَلِكَ فَتَبْكِي حَتَّى تَبُلَّ دُمُوعُهَا خِمَارَهَا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے، کہا مجھ سے عوف بن مالک بن طفیل نے بیان کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مادری بھتیجے تھے، انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کوئی چیز بھیجی یا خیرات کی تو عبداللہ بن زبیر جو ان کے بھانجے تھے کہنے لگے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایسے معاملوں سے باز رہنا چاہیئے نہیں تو اللہ کی قسم میں ان کے لیے حجر کا حکم جاری کر دوں گا۔ ام المؤمنین نے کہا کیا اس نے یہ الفاظ کہے ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ جی ہاں۔ فرمایا پھر میں اللہ سے نذر کرتی ہوں کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے اب کبھی نہیں بولوں گی۔ اس کے بعد جب ان کے قطع تعلقی پر عرصہ گزر گیا۔ تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے ان سے سفارش کی گئی (کہ انہیں معاف فرما دیں) ام المؤمنین نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! اس کے بارے میں کوئی سفارش نہیں مانوں گی اور اپنی نذر نہیں توڑوں گی۔ جب یہ قطعی تعلق عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گئی تو انہوں نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود بن عبد یغوث رضی اللہ عنہم سے اس سلسلے میں بات کی وہ دونوں بنی زہرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کسی طرح تم لوگ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں داخل کرا دو کیونکہ ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ میرے ساتھ صلہ رحمی کو توڑنے کی قسم کھائیں چنانچہ مسور اور عبدالرحمٰن دونوں اپنی چادروں میں لپٹے ہوئے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو اس میں ساتھ لے کر آئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے اندر آنے کی اجازت چاہی اور عرض کی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، کیا ہم اندر آ سکتے ہیں؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا آ جاؤ۔ انہوں نے عرض کیا ہم سب؟ کہا ہاں، سب آ جاؤ۔ ام المؤمنین کو اس کا علم نہیں تھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بھی ان کے ساتھ ہیں۔ جب یہ اندر گئے تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پردہ ہٹا کر اندر چلے گئے اور ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے لپٹ کر اللہ کا واسطہ دینے لگے اور رونے لگے (کہ معاف کر دیں، یہ ام المؤمنین کے بھانجے تھے) مسور اور عبدالرحمٰن بھی ام المؤمنین کو اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بولیں اور انہیں معاف کر دیں ان حضرات نے یہ بھی عرض کیا کہ جیسا کہ تم کو معلوم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلق توڑنے سے منع کیا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ والی حدیث یاد دلانے لگے اور یہ کہ اس میں نقصان ہے تو ام المؤمنین بھی انہیں یاد دلانے لگیں اور رونے لگیں اور فرمانے لگیں کہ میں نے تو قسم کھا لی ہے؟ اور قسم کا معاملہ سخت ہے لیکن یہ بزرگ لوگ برابر کوشش کرتے رہے، یہاں تک کہ ام المؤمنین نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بات کر لی اور اپنی قسم (توڑنے) کی وجہ سے چالیس غلام آزاد کئے۔ اس کے بعد جب بھی آپ یہ قسم یاد کرتیں تو رونے لگتیں اور آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Aisha: (the wife of the Prophet) that she was told that `Abdullah bin Az-Zubair (on hearing that she was selling or giving something as a gift) said, "By Allah, if `Aisha does not give up this, I will declare her incompetent to dispose of her wealth." I said, "Did he (`Abdullah bin Az-Zubair) say so?" They (people) said, "Yes." `Aisha said, "I vow to Allah that I will never speak to Ibn Az-Zubair." When this desertion lasted long, `Abdullah bin Az-Zubair sought intercession with her, but she said, "By Allah, I will not accept the intercession of anyone for him, and will not commit a sin by breaking my vow." When this state of affairs was prolonged on Ibn Az-Zubair (he felt it hard on him), he said to Al- Miswar bin Makhrama and `Abdur-Rahman bin Al-Aswad bin 'Abu Yaghuth, who were from the tribe of Bani Zahra, "I beseech you, by Allah, to let me enter upon `Aisha, for it is unlawful for her to vow to cut the relation with me." So Al-Miswar and `Abdur-Rahman, wrapping their sheets around themselves, asked `Aisha's permission saying, "Peace and Allah's Mercy and Blessings be upon you! Shall we come in?" `Aisha said, "Come in." They said, "All of us?" She said, "Yes, come in all of you," not knowing that Ibn Az- Zubair was also with them. So when they entered, Ibn Az-Zubair entered the screened place and got hold of `Aisha and started requesting her to excuse him, and wept. Al-Miswar and `Abdur Rahman also started requesting her to speak to him and to accept his repentance. They said (to her), "The Prophet forbade what you know of deserting (not speaking to your Muslim Brethren), for it is unlawful for any Muslim not to talk to his brother for more than three nights (days)." So when they increased their reminding her (of the superiority of having good relation with Kith and kin, and of excusing others' sins), and brought her down to a critical situation, she started reminding them, and wept, saying, "I have made a vow, and (the question of) vow is a difficult one." They (Al-Miswar and `Abdur-Rahman) persisted in their appeal till she spoke with `Abdullah bin Az- Zubair and she manumitted forty slaves as an expiation for her vow. Later on, whenever she remembered her vow, she used to weep so much that her veil used to become wet with her tears.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 98


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 6076
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا تباغضوا ولا تحاسدوا ولا تدابروا وكونوا عباد الله إخوانا، ولا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا، وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا انہیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپس میں بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو، بلکہ اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ تک بات چیت بند کرے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas bin Malik: Allah's Apostle said, "Do not hate one another, nor be jealous of one another; and do not desert one another, but O Allah's worshipers! Be Brothers! And it is unlawful for a Muslim to desert his brother Muslim (and not to talk to him) for more than three nights."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 99


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 6077
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن ابي ايوب الانصاري، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا يحل لرجل ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال، يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذي يبدا بالسلام".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، يَلْتَقِيَانِ فَيُعْرِضُ هَذَا وَيُعْرِضُ هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ".
ہم سے عبدالرحمٰن بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عطاء بن یزید لیثی نے اور انہیں ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ کے لیے ملاقات چھوڑے، اس طرح کہ جب دونوں کا سامنا ہو جائے تو یہ بھی منہ پھیر لے اور وہ بھی منہ پھیر لے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Aiyub Al-Ansari: Allah's Apostle said, "It is not lawful for a man to desert his brother Muslim for more than three nights. (It is unlawful for them that) when they meet, one of them turns his face away from the other, and the other turns his face from the former, and the better of the two will be the one who greets the other first."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 100


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
63. بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ الْهِجْرَانِ لِمَنْ عَصَى:
63. باب: نافرمانی کرنے والے سے تعلق توڑنے کا جواز۔
(63) Chapter. The desertion of a sinful person (disobedient to Allah and His Messenger ).
حدیث نمبر: Q6078
Save to word اعراب English
وقال كعب حين تخلف عن النبي صلى الله عليه وسلم ونهى النبي صلى الله عليه وسلم المسلمين عن كلامنا وذكر خمسين ليلةوَقَالَ كَعْبٌ حِينَ تَخَلَّفَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلَامِنَا وَذَكَرَ خَمْسِينَ لَيْلَةً
کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (غزوہ تبوک میں) شریک نہیں ہوئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بات چیت کرنے سے مسلمانوں کو روک دیا تھا اور آپ نے پچاس دن کا تذکرہ کیا۔
حدیث نمبر: 6078
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد، اخبرنا عبدة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني لاعرف غضبك ورضاك" قالت: قلت: وكيف تعرف ذاك يا رسول الله؟ قال:" إنك إذا كنت راضية قلت: بلى ورب محمد، وإذا كنت ساخطة قلت: لا ورب إبراهيم"، قالت: قلت: اجل لست اهاجر إلا اسمك".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَأَعْرِفُ غَضَبَكِ وَرِضَاكِ" قَالَتْ: قُلْتُ: وَكَيْفَ تَعْرِفُ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" إِنَّكِ إِذَا كُنْتِ رَاضِيَةً قُلْتِ: بَلَى وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، وَإِذَا كُنْتِ سَاخِطَةً قُلْتِ: لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ"، قَالَتْ: قُلْتُ: أَجَلْ لَسْتُ أُهَاجِرُ إِلَّا اسْمَكَ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ بن سلیمان نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہاری ناراضگی اور خوشی کو خوب پہچانتا ہوں۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کس طرح سے پہچانتے ہیں؟ فرمایا کہ جب تم خوش ہوتی ہو کہتی ہو، ہاں محمد کے رب کی قسم! اور جب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں، ابراہیم کے رب کی قسم! بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: جی ہاں , آپ کا فرمانا بالکل صحیح ہے میں صرف آپ کا نام لینا چھوڑتی ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Aisha: Allah's Apostle said, " I know whether you are angry or pleased." I said, "How do you know that, Allah's Apostle?" He said, "When you are pleased, you say, "Yes, by the Lord of Muhammad,' but when you are angry, you say, 'No, by the Lord of Abraham!' " I said, "Yes, I do not leave, except your name."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 101


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
64. بَابُ هَلْ يَزُورُ صَاحِبَهُ كُلَّ يَوْمٍ أَوْ بُكْرَةً وَعَشِيًّا:
64. باب: کیا اپنے ساتھی کی ملاقات کے لیے ہر دن جا سکتا ہے یا صبح اور شام ہی کے اوقات میں جائے۔
(64) Chapter. May a person visit his friend daily, or visit him in the morning and in the evening?
حدیث نمبر: 6079
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا هشام، عن معمر، وقال الليث حدثني عقيل، قال ابن شهاب، فاخبرني عروة بن الزبير، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: لم اعقل ابوي إلا وهما يدينان الدين، ولم يمر عليهما يوم إلا ياتينا فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم طرفي النهار بكرة وعشية، فبينما نحن جلوس في بيت ابي بكر في نحر الظهيرة قال قائل: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم في ساعة لم يكن ياتينا فيها، قال ابو بكر: ما جاء به في هذه الساعة إلا امر، قال:" إني قد اذن لي بالخروج".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ، فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ، وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْهِمَا يَوْمٌ إِلَّا يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَفَيِ النَّهَارِ بُكْرَةً وَعَشِيَّةً، فَبَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ فِي بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ قَالَ قَائِلٌ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَاعَةٍ لَمْ يَكُنْ يَأْتِينَا فِيهَا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا جَاءَ بِهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ إِلَّا أَمْرٌ، قَالَ:" إِنِّي قَدْ أُذِنَ لِي بِالْخُرُوجِ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں معمر نے، ان سے زہری نے (دوسری سند) اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین اسلام کا پیرو پایا اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس صبح و شام تشریف نہ لاتے ہوں، ایک دن ابوبکر رضی اللہ عنہ (والد ماجد) گھر میں بھری دوپہر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں، یہ ایسا وقت تھا کہ اس وقت ہمارے یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا معمول نہیں تھا، ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے کہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریف لانا کسی خاص وجہ ہی سے ہو سکتا ہے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے مکہ چھوڑنے کی اجازت مل گئی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Aisha: (the wife of the Prophet) "I do not remember my parents believing in any religion other than the Religion (of Islam), and our being visited by Allah's Apostle in the morning and in the evening. One day, while we were sitting in the house of Abu Bakr (my father) at noon, someone said, 'This is Allah's Apostle coming at an hour at which he never used to visit us.' Abu Bakr said, 'There must be something very urgent that has brought him at this hour.' The Prophet said, 'I have been allowed to go out (of Mecca) to migrate.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 102


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
65. بَابُ الزِّيَارَةِ وَمَنْ زَارَ، قَوْمًا فَطَعِمَ عِنْدَهُمْ:
65. باب: ملاقات کے لیے جانا اور جو لوگوں سے ملنے گیا اور انہیں کے یہاں کھانا کھایا تو یہ جائز ہے۔
(65) Chapter. The paying of a visit. And whoever visited some people and ate in their houses.
حدیث نمبر: Q6080
Save to word اعراب English
وزار سلمان ابا الدرداء في عهد النبي صلى الله عليه وسلم فاكل عنده.وَزَارَ سَلْمَانُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلَ عِنْدَهُ.
‏‏‏‏ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ، ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لیے ان کے ہاں گئے اور انہیں کے یہاں کھانا کھایا۔
حدیث نمبر: 6080
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن سلام، اخبرنا عبد الوهاب، عن خالد الحذاء، عن انس بن سيرين، عن انس بن مالك رضي الله عنه،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم زار اهل بيت من الانصار فطعم عندهم طعاما، فلما اراد ان يخرج امر بمكان من البيت فنضح له على بساط فصلى عليه ودعا لهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَارَ أَهْلَ بَيْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَطَعِمَ عِنْدَهُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ أَمَرَ بِمَكَانٍ مِنَ الْبَيْتِ فَنُضِحَ لَهُ عَلَى بِسَاطٍ فَصَلَّى عَلَيْهِ وَدَعَا لَهُمْ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، انہیں خالد حذاء نے، انہیں انس بن سیرین نے اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ انصار کے گھرانہ میں ملاقات کے لیے تشریف لے گئے اور انہیں کے یہاں کھانا کھایا، جب آپ واپس تشریف لانے لگے تو آپ کے حکم سے ایک چٹائی پر پانی چھڑکا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی اور گھر والوں کے لیے دعا کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas bin Malik: Allah's Apostle visited a household among the Ansars, and he took a meal with them. When he intended to leave, he asked for a place in that house for him, to pray so a mat sprinkled with water was put and he offered prayer over it, and invoked for Allah's Blessing upon them (his hosts).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 103


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
66. بَابُ مَنْ تَجَمَّلَ لِلْوُفُودِ:
66. باب: جس نے لوگوں سے ملاقات کے لیے خوبصورتی اپنائی۔
(66) Chapter. Whoever spruced himself up for the delegates.
حدیث نمبر: 6081
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا عبد الصمد، قال: حدثني ابي، قال: حدثني يحيى بن ابي إسحاق، قال: قال لي سالم بن عبد الله: ما الإستبرق؟ قلت: ما غلظ من الديباج وخشن منه، قال: سمعت عبد الله، يقول: راى عمر على رجل حلة من إستبرق فاتى بها النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله اشتر هذه فالبسها لوفد الناس إذا قدموا عليك، فقال:" إنما يلبس الحرير من لا خلاق له" فمضى من ذلك ما مضى، ثم إن النبي صلى الله عليه وسلم بعث إليه بحلة فاتى بها النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: بعثت إلي بهذه وقد قلت في مثلها ما قلت، قال:" إنما بعثت إليك لتصيب بها مالا" فكان ابن عمر يكره العلم في الثوب لهذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: قَالَ لِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: مَا الْإِسْتَبْرَقُ؟ قُلْتُ: مَا غَلُظَ مِنَ الدِّيبَاجِ وَخَشُنَ مِنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ، يَقُولُ: رَأَى عُمَرُ عَلَى رَجُلٍ حُلَّةً مِنْ إِسْتَبْرَقٍ فَأَتَى بِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اشْتَرِ هَذِهِ فَالْبَسْهَا لِوَفْدِ النَّاسِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ، فَقَالَ:" إِنَّمَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ" فَمَضَى مِنْ ذَلِكَ مَا مَضَى، ثُمَّ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَيْهِ بِحُلَّةٍ فَأَتَى بِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بَعَثْتَ إِلَيَّ بِهَذِهِ وَقَدْ قُلْتَ فِي مِثْلِهَا مَا قُلْتَ، قَالَ:" إِنَّمَا بَعَثْتُ إِلَيْكَ لِتُصِيبَ بِهَا مَالًا" فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَكْرَهُ الْعَلَمَ فِي الثَّوْبِ لِهَذَا الْحَدِيثِ.
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالصمد بن عبدالوارث نے، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے، کہا کہ مجھ سے سالم بن عبداللہ نے پوچھا کہ «إستبرق» کیا چیز ہے؟ میں نے کہا کہ دیبا سے بنا ہوا دبیز اور کھردرا کپڑا پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو استبرق کا جوڑا پہنے ہوئے دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسے لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اسے آپ خرید لیں اور وفد جب آپ سے ملاقات کے لیے آئیں تو ان کی ملاقات کے وقت اسے پہن لیا کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ریشم تو وہی پہن سکتا ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہ ہو خیر اس بات پر ایک مدت گزر گئی پھر ایسا ہوا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انہیں ایک جوڑا بھیجا تو وہ اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا آپ نے یہ جوڑا میرے لیے بھیجا ہے، حالانکہ اس کے بارے میں آپ اس سے پہلے ایسا ارشاد فرما چکے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ میں نے تمہارے پاس اس لیے بھیجا ہے تاکہ تم اس کے ذریعہ (بیچ کر) مال حاصل کرو۔ چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اسی حدیث کی وجہ سے کپڑے میں (ریشم کے) بیل بوٹوں کو بھی مکروہ جانتے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah: `Umar saw a silken cloak over a man (for sale) so he took it to the Prophet and said, 'O Allah's Apostle! Buy this and wear it when the delegate come to you.' He said, 'The silk is worn by one who will have no share (in the Here-after).' Some time passed after this event, and then the Prophet sent a (similar) cloak to him. `Umar brought that cloak back to the Prophet and said, 'You have sent this to me, and you said about a similar one what you said?' The Prophet said, 'I have sent it to you so that you may get money by selling it.' Because of this, Ibn `Umar used to hate the silken markings on the garments.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 104


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    9    10    11    12    13    14    15    16    17    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.