اخبرنا ابو سهل احمد بن محمد بن عبد الله بن زياد القطان قراءة عليه وانا اسمع في مسجده دار قطن في ذي الحجة من سنة اثنتين واربعين وثلاثمائة قال ابو العباس احمد بن محمد بن عيسى القاضي البرتي.أَخْبَرَنَا أَبُو سَهْلٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ الْقَطَّانُ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ فِي مَسْجِدِهِ دَارَ قُطْنٍ فِي ذِي الْحِجَّةِ مِنْ سَنَةِ اثْنَتَيْنِ وَأَرْبَعِينَ وَثَلَاثِمِائَةٍ قَالَ أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى الْقَاضِي الْبِرْتِيُّ.
ابو العباس احمد بن محمد بن عیسیٰ القاضی البرتی نے کہا: سن 342 ہجری ذوالحجہ مسجد دارقطن میں ہمیں ابوسہل احمد بن محمد بن عبداللہ بن زیاد القطان نے حدیث بیان کی، اس طرح کہ ان پر پڑھا جا رہا تھا اور میں سن رہا تھا۔
1. ما رواه عبد الله بن عباس عن عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنهما
1. وہ حدیث جسے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نےعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
حدثنا القعنبي، عن مالك، عن ابن شهاب، عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب، عن عبد الله بن عبد الله بن الحارث بن نوفل، عن عبد الله بن عباس، ان عمر بن الخطاب، خرج إلى الشام. حتى إذا كان بسرغ لقيه امراء الاجناد ابو عبيدة واصحابه، فاخبروه ان الوباء قد وقع [ص: 28] بالشام، قال ابن عباس: فقال عمر ادعوا إلي المهاجرين الاولين، فدعاهم فاستشارهم فاخبرهم ان الوباء قد وقع بالشام، فاختلفوا عليه فقال بعضهم: قد خرجت لامر ولا نرى ان ترجع عنه. وقال بعضهم: معك بقية الناس واصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا نرى ان تقدمهم على هذا الوباء، فقال: ارتفعوا عني، ثم قال: ادعوا إلي الانصار، فدعوهم فاستشارهم فسلكوا سبيل المهاجرين واختلفوا كاختلافهم، فقال: ارتفعوا عني، ثم [ص: 29] قال: ادعوا لي من كان هاهنا من مشيخة قريش من مهاجري الفتح فدعوهم فلم يختلف عليه منهم رجلان فقالوا: نرى ان ترجع بالناس ولا تقدمهم على هذا الوباء فنادى عمر في الناس: إني مصبح على ظهر فاصبحوا عليه، فقال: ابو عبيدة بن الجراح: افرار من قدر الله؟ فقال عمر: لو غيرك قالها يا ابا عبيدة، نعم نفر من قدر الله إلى قدر الله جل وعز، ارايت لو كان لك إبل فهبطت واديا له عدوتان إحداهما خصبة والاخرى جدبة اليس إن رعيت الخصبة رعيتها بقدر الله؟ فجاء عبد الرحمن بن عوف وكان متغيبا في بعض حاجته، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فقال بيده: «هذا كتاب من رب العالمين فيه اسماء اهل الجنة واسماء آبائهم وقبائلهم مجمل على آخرهم، لا يزاد فيهم ولا ينقص منهم، وهذا كتاب من رب العالمين فيه اسماء اهل النار واسماء آبائهم وقبائلهم مجمل على آخرهم، لا يزاد منه ولا ينقص منهم، فرغ ربكم جل وعز، فريق في الجنة وفريق في السعير، إن من كان من اهل الجنة ختم له بعمل اهل الجنة، وإن عمل كل عمل، ومن كان من اهل النار ختم له بعمل اهل النار، وإن عمل كل عمل» .حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، خَرَجَ إِلَى الشَّامِ. حَتَّى إِذَا كَانَ بِسَرْغَ لَقِيَهُ أُمَرَاءُ الْأَجْنَادِ أَبُو عُبَيْدَةَ وَأَصْحَابُهُ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ [ص: 28] بِالشَّامِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقَالَ عُمَرُ ادْعُوا إِلَيَّ الْمُهَاجِرِينَ الَأَوَّلِينَ، فَدَعَاهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ فأَخْبَرَهُمْ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ، فَاخْتَلَفُوا عَلَيْهِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: قَدْ خَرَجْتَ لِأَمْرٍ وَلَا نَرَى أَنْ تَرْجِعَ عَنْهُ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: مَعَكَ بَقِيَّةُ النَّاسِ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَرَى أَنْ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَاءِ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: ادْعُوا إلَيَّ الْأَنْصَارَ، فَدَعَوهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ فَسَلَكُوا سَبِيلَ الْمُهَاجِرِينَ وَاخْتَلَفُوا كَاخْتِلَافِهِمْ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ [ص: 29] قَالَ: ادْعُوا لِي مَنْ كَانَ هَاهُنَا مِنْ مَشْيَخَةِ قُرَيْشٍ مِنْ مُهَاجِرِي الْفَتْحِ فَدَعَوهُمْ فَلَمْ يَخْتَلِفْ عَلَيْهِ مِنْهُمْ رَجُلَانِ فَقَالُوا: نَرَى أَنْ تَرْجِعَ بِالنَّاسِ وَلَا تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَاءِ فَنَادَى عُمَرُ فِي النَّاسِ: إِنِّي مُصَبِّحٌ عَلَى ظَهْرٍ فَأَصْبِحُوا عَلَيْهِ، فَقَالَ: أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ: أَفِرَارٌ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ، نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ جَلَّ وَعَزَّ، أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ لَكَ إِبِلٌ فَهَبَطَتْ وَادِيًا لَهُ عُدْوَتَانِ إِحْدَاهُمَا خَصْبَةٌ وَالْأُخْرَى جَدْبَةٌ أَلَيْسَ إِنْ رَعَيْتَ الْخَصْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ؟ فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَكَانَ مُتَغَيِّبًا فِي بَعْضِ حَاجَتِهِ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَقَالَ بِيَدِهِ: «هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَسْمَاءُ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ مُجْمِلٌ عَلَى آخِرِهِمْ، لَا يُزَادُ فِيهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْهُمْ، وَهَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ النَّارِ وَأَسْمَاءُ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ مُجْمِلٌ عَلَى آخِرِهِمْ، لَا يُزَادُ مِنْهُ وَلَا يَنْقُصُ مِنْهُمْ، فَرَغَ رَبُّكُمْ جَلَّ وَعَزَّ، فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ، إِنَّ مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ خُتِمَ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنْ عَمِلَ كُلَّ عَمَلٍ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ خُتِمَ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنْ عَمِلَ كُلَّ عَمَلٍ» .
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکلے، جب سرخ مقام پر پہنچے تو انہیں امیر لشکر ابوعبیدہ اور ان کے ساتھی ملے۔ انہوں نے آپ کو بتایا کہ شام میں وباء طاعون پھیل چکی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے پاس پہلے مہاجرین کو بلاؤ، آپ نے انہیں بلا کر ان نے مشورہ طلب کیا اور انہیں بتایا کہ شام میں وباء پھیل چکی ہے تو انہوں نے اس پر اختلاف کیا، بعض نے کہا کہ آپ ایک ایسے کام کے لیے نکلے ہیں جس سے واپسی ہم اچھی نہیں سمجھتے۔ (جبکہ) بعض نے کہا کہ آپ کے ساتھی باقی ماندہ لوگ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں تو ہم اچھا نہیں سمجھتے کہ آپ انہیں بیماری والی جگہ پر لے جائیں۔ پھر کہا کہ میرے پاس انصار کو بلاؤ، انہوں نے انصار کو بلایا تو آپ نے ان سے بھی مشورہ طلب کیا، تو انہوں نے بھی مہاجرین والا راستہ اختیار کیا اور اختلاف رائے کیا، آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے آپ لوگ چلے جاؤ، پھر کہا کہ یہاں فتح مکہ کے مہاجرین قریش کے جو شیوخ (بوڑھے آدمی) موجود ہیں انہیں بلاؤ، ان میں سے دو آدمیوں نے کہا: ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور وباء والی جگہ پر نہ لے جائیں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں واپس جانے کا اعلان کر دیا۔ ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے فرار حاصل کرو گے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوعبیدہ کاش تم یہ بات نہ کہتے، جی ہاں! ہم اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں لیکن اللہ عزوجل کی تقدیر کی طرف ہی جا رہے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے اگر آپ کا اونٹ کسی ایسی وادی میں اتر ے جس کے دو کنارے ہوں: ایک سرسبز اور دوسرا خشک بنجر، اور تم سرسبز کنارے میں اسے چراؤ گے تو کیا یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نہیں؟ (اتنے میں) حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور وہ کسی کام کی غرض سے آئے تھے۔ انہوں نے حدیث بیان کی کہ ایک دن ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اشارہ کر کے فرمایا:”یہ رب العالمین کی طرف سے کتاب ہے جس میں اہل جنت، ان کے آباء کے نام اور قبائل شروع سے لے کر آخر تک موجود ہیں (اب) ان میں نہ زیادتی کی جا سکتی ہے اور نہ کمی۔ اور یہ رب العالمین کی طرف سے کتاب ہے جس میں اہل جہنم کے نام، ان کے آباء اور قبائل کے نام شروع سے لے کر آخر تک موجود ہیں، نہ ان میں زیادتی اور نہ کمی کی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ (ان کاموں سے) فارغ ہو چکا ہے۔ ایک گروہ جنت میں ہے اور ایک جہنم میں۔ جو اہل جنت میں سے ہے اس کا خاتمہ اہل جنت کے عمل پر ہو گا اگرچہ اس نے ہر قسم کا عمل کیا ہو۔ اور جو اہل جہنم میں سے ہے، اس کا خاتمہ اہل جہنم کے ساتھ ہو گا اگرچہ اس نے ہر قسم کا عمل کیا ہو۔“
حدثنا إسحاق بن إسماعيل، قال: حدثنا جعفر بن عون، عن هشام بن سعد، قال: حدثني عروة بن رويم عن القاسم، عن عبد الله بن عمرو، قال: جئت عمر حين قدم من الشام فوجدته قائلا في خباء له فانتظرته في الخباء قال: فسمعته حين تضور من نومه يقول: اللهم اغفر لي رجوعي من سرغ.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ رُوَيمٍ عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: جِئْتُ عُمَرَ حِينَ قَدِمَ مِنَ الشَّامِ فَوَجَدْتُهُ قَائِلًا فِي خِبَاءٍ لَهُ فَانْتَظَرْتُهُ فِي الْخِبَاءِ قَالَ: فَسَمِعْتُهُ حِينَ تَضَوَّرَ مِنْ نَوْمِهِ يَقُولُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي رُجُوعِي مِنْ سَرْغَ.
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ شام سے واپس آئے تو میں ان کے پاس گیا، وہ اپنے خیمے میں قیلولہ کر رہے تھے۔ میں نے خیمے کے باہر ان کا انتظار کیا، جب آپ اپنی نیند سے بیدار ہوئے تو میں نے انہیں یہ الفاظ کہتے سنا: اے اللہ! ” سرغ“ سے واپس آنے کی غلطی کی وجہ سے مجھے معاف فرما دینا۔
حدثنا القعنبي، عن مالك، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، ان عمر بن الخطاب، رضي الله عنه إنما انصرف بالناس عن حديث عبد الرحمن بن عوف.حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّمَا انْصَرَفَ بِالنَّاسِ عَنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ.
سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث کو (مدنظر) رکھتے ہوئے لوگوں کو واپس لے گئے۔
حدثنا إسحاق بن إسماعيل الطالقاني، قال: حدثنا يزيد بن هارون قال: اخبرنا إسماعيل المكي، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، قال: كنت اذاكر عمر الصلاة، فاتى علينا عبد الرحمن بن عوف فقال: الا احدثكم حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم قلنا: بلى، قال: اشهد اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا صلى احدكم فشك في النقصان فليصل حتى يشك في الزيادة» .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الطَّالْقَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ الْمَكِّيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنْتُ أُذَاكِرُ عُمَرَ الصَّلَاةَ، فَأَتَى عَلَيْنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فَقَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَشَكَّ فِي النُّقْصَانِ فَلْيُصَلِّ حَتَّى يَشُكَّ فِي الزِّيَادَةِ» .
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز کے بارے میں مذاکرہ کر رہا تھا، اچانک ہمارے پاس عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمایا: ” کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، ہم نے کہا:، کیوں نہیں، انہوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہو ئے سنا: جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور اسے رکعات کم پڑھنے کا شک پڑ جائے تو وہ نماز پڑھتا رہے حتٰی کہ اسے زیادتی کا یقین ہو جائے یعنی اسے یقین ہو جائے کہ زیادہ رکعات ہو گئی ہیں۔
حدثنا محمد بن سعيد الاصبهاني، اخبرنا شريك، عن عاصم بن عبيد الله، عن عبد الله بن عامر بن ربيعة، قال: سمع عمر من عبد الرحمن بن عوف الحدي، فاتاه في بعض الليل، فلما اصبح راى عليه خفان، فقال: والخفان مع الحدي، فقال: لقد لبستها مع من هو خير منك، يعني رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَصْبَهَانِيُّ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: سَمِعَ عُمَرُ مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ الْحُدِّيَّ، فَأَتَاهُ فِي بَعْضِ اللَّيْلِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ رَأَى عَلَيْهِ خُفَّانِ، فَقَالَ: وَالْخُفَّانِ مَعَ الْحُدِّيِّ، فَقَالَ: لَقَدْ لَبِسْتُهَا مَعَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ، يَعْنِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عامر بن ربیعہ نے بیان کیا، کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو (سفر مکہ میں)(اونٹوں کو حدی بآواز بلند ہانکتے) سنا، تو رات کے کسی حصے میں ان کے ساتھ مکہ داخل ہوئے، جب صبح ہوئی تو انہیں موزے پہنے دیکھا، تو فرمایا: آپ نے موزے پہن رکھے ہیں؟ انہوں نے کہا: میں نے ایسی شخصیت کی موجودگی میں انہیں پہنا جو آپ سے بہتر تھے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حدثنا احمد بن محمد بن ايوب، قال: حدثنا إبراهيم بن سعد، عن محمد بن إسحاق، قال: وحدثني ابن شهاب الزهري، عن عبد الله بن عامر بن ربيعة، وسالم بن عبد الله بن عمر، انهما حدثاه ان عمر رجع بالناس من سرغ من حديث عبد الرحمن بن عوف، فلما رجع عمر رجع عمال الاجناد إلى اعمالهم.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَسَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ أَنَّ عُمَرَ رَجَعَ بِالنَّاسِ مِنْ سَرْغَ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَلَمَّا رَجَعَ عُمَرُ رَجَعَ عُمَّالُ الْأَجْنَادِ إِلَى أَعْمَالِهِمْ.
عبداللہ بن عامر بن ربیعہ اور سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما دونوں نے بیان کیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث کی وجہ سے لوگوں کو ”سرغ“ سے واپس ہٹا لیا، جب عمر رضی اللہ عنہ لوٹ آئے تو لشکروں کے عاملین اپنے کاموں کی طرف لوٹ گئے۔
حدثنا ابو حذيفة، اخبرنا سفيان، عن حميد الطويل، عن انس بن مالك، قال: قدم عبد الرحمن بن عوف المدينة وآخى رسول الله صلى الله عليه وسلم بينه وبين سعد بن الربيع الانصاري، وكانت عند الانصاري امراتين. فعرض عليه ان يناصفه اهله وماله، فقال له عبد الرحمن بن عوف: بارك الله لك في اهلك ومالك دلوني على السوق، فاتى السوق فربح شيئا من اقط وسمن فرآه النبي صلى الله عليه وسلم عليه وضر من صفرة فقال: «مهيم يا عبد الرحمن؟» قال: تزوجت يا رسول الله امراة من الانصار، قال: ما سقت إليها؟ قال: وزن نواة من ذهب، قال: «اولم ولو بشاة» .حَدَّثَنَا أَبُو حُذَيْفَةَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْمَدِينَةَ وَآخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَينَهُ وَبَينَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيِّ، وَكَانَتْ عِنْدَ الْأَنْصَارِيِّ امْرَأَتَيْنِ. فَعَرَضَ عَلَيْهِ أَنْ يُنَاصِفَهُ أَهْلَهَ وَمَالَهَ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: بَارِكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ دُلُّونِي عَلَى السُّوقِ، فَأَتَى السُّوقَ فَرَبِحَ شَيْئًا مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَضَرٌّ مِنْ صُفْرَةٍ فَقَالَ: «مَهْيَمْ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ؟» قَالَ: تَزَوَّجْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: مَا سُقْتَ إِلَيْهَا؟ قَالَ: وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ: «أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ» .
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان اور سعد بن الربیع الانصاری رضی اللہ عنہ کے درمیان رشتہ اخوت قائم کیا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس دو بیویاں تھیں، انہوں نے انہیں پیشکش کی کہ وہ ان کے گھر بار اور مال سے آدھا حصہ بانٹ لیں (یعنی ایک بیوی اور آدھا مال) لے لیں۔ چنانچہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کے اہل و مال میں برکت دے، مجھے بازار کی راہ دکھا دیں، اگلے دن وہ بازار گئے اور پنیر اور گھی میں کچھ نفع کمایا، پھر ایک دن انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ان پر حجلہ عروسی کے نشانات تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”اے عبدالرحمٰن کیا معاملہ ہے؟“ انہوں نے کہا:، اللہ کے رسول! میں نے انصار کی ایک عورت کے ساتھ شادی کر لی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:”اسے کتنا مہر پیش کیا؟“ انہوں نے کہا: کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔“
حدثنا محمد بن كثير، قال: اخبرنا سفيان، عن حميد الطويل، قال: سمعت انس بن مالك، قال: قدم عبد الرحمن بن عوف المدينة فآخى رسول الله صلى الله عليه وسلم بينه وبين سعد بن الربيع الانصاري وعند الانصاري امراتان فعرض عليه ان يناصفه اهله وماله، فقال له عبد الرحمن: بارك الله لك في اهلك ومالك، دلوني على السوق فاتى السوق فربح شيئا من اقط، وشيئا من سمن، فرآه رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ايام وعليه وضر من صفرة فقال رسول الله: مهيم يا عبد الرحمن؟ قال: تزوجت يا رسول الله امراة من الانصار، قال: فما سقت إليها؟ قال: وزن نواة من ذهب، فقال رسول الله: اولم ولو بشاة.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ الْمَدِينَةَ فَآخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَينَهُ وَبَينَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيِّ وَعِنْدَ الْأَنْصَارِيِّ امْرَأَتَانِ فَعَرَضَ عَلَيْهِ أَنْ يُنَاصِفَهُ أَهْلَهَ وَمَالَهَ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: بَارِكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ، دُلُّونِي عَلَى السُّوقِ فَأَتَى السُّوقَ فَرَبِحَ شَيْئًا مِنْ أَقِطٍ، وَشَيْئًا مِنْ سَمْنٍ، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَيَّامٍ وَعَلَيْهِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَةٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: مَهْيَمْ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ؟ قَالَ: تَزَوَّجْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَمَا سُقْتَ إِلَيْهَا؟ قَالَ: وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور سعد بن الربیع الانصاری کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔ حضرت سعد کے پاس دو بیویاں تھیں، تو انہوں نے پیشکش کی کہ میرے گھر بار اور مال سے آدھا بانٹ لیں، مگر سیدنا عبدالرحمٰن نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کے اہل و مال میں برکت دے، آپ میری بازار کی طرف راہنمائی کر دیں، آپ نے بازار میں آ کر پنیر اور گھی سے بہت نفع کمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ دنوں بعد دیکھا تو ان پر زرد نشانات تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”عبدالرحمٰن کیا معاملہ ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے انصار کی ایک عورت کے ساتھ شادی کر لی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے اسے کیا مہر دیا“، انہوں نے کہا کہ کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔“
حدثنا ابو سلمة، قال: حدثنا حماد، عن ثابت البناني، وحميد، عن انس بن مالك، ان عبد الرحمن بن عوف، قدم المدينة فآخى رسول الله صلى الله عليه وسلم بينه وبين سعد بن الربيع الانصاري، فقال له: سعد اي اخي إني اكثر اهل المدينة مالا فانظر شطر مالي فخذه، وعندي امراتان فانظر ايهما اعجب لك حتى اطلقها لك، فقال له عبد الرحمن: بارك الله لك في اهلك ومالك، دلوني على السوق، فدلوه على السوق، فذهب واشترى وباع فربح فجاء بشيء من اقط وسمن، فلبث ما شاء الله عز وجل ان يلبث، فجاء عليه ردغ زعفران، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: مهيم؟ فقال: يا رسول الله تزوجت امراة، فقال: ما اصدقتها؟ قال: وزن نواة من ذهب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اولم ولو بشاة، فقال عبد الرحمن: فلقد رايتني بعد ذلك لو رفعت حجرا لظننت اني ساجد تحته ذهبا وفضة.حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، وَحُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَآخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَينَهُ وَبَينَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيِّ، فَقَالَ لَهُ: سَعْدٌ أَيْ أَخِي إِنِّي أَكْثَرُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَالًا فَانْظُرْ شَطْرَ مَالِي فَخُذْهُ، وَعِنْدِي امْرَأَتَانِ فَانْظُرْ أَيُّهُمَا أَعْجَبَ لَكَ حَتَّى أُطَلِّقُهَا لَكَ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: بَارِكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكِ وَمَالِكِ، دُلُّونِي عَلَى السُّوقِ، فَدَلُّوهُ عَلَى السُّوقِ، فَذَهَبَ وَاشْتَرَى وَبَاعَ فَرَبِحَ فَجَاءَ بِشَيْءٍ مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ، فَلَبِثَ مَا شَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَلْبَثَ، فَجَاءَ عَلَيْهِ رَدْغُ زَعْفَرَانٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَهْيَمْ؟ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً، فَقَالَ: مَا أَصْدَقْتَهَا؟ قَالَ: وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ: أَوَلَمْ وَلَوْ بِشَاةٍ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَلَقَدْ رَأَيْتَنِي بَعْدَ ذَلِكَ لَوْ رَفَعْتُ حَجَرًا لَظَنَنْتُ أَنِّي سَأَجِدُ تَحْتَهُ ذَهَبًا وَفِضَّةً.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہا کہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ مدینہ میں تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور سعد بن الربیع الانصاری رضی اللہ عنہ کے درمیان رشتہ اخوت قائم کر دیا، انہیں سیدنا سعد الانصاری نے کہا: اے میرے بھائی! میں مدینے والوں میں سے زیادہ مال والا ہوں۔ میرے مال سے آدھا مال لے لیں اور میرے پاس دو بیویاں ہیں جو آپ کو زیادہ پسند لگتی ہے میں اسے آپ کے لیے طلاق دے دیتا ہوں (وہ عدت گزار لے تو آپ اس سے شادی کر لیں)۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ کے اہل و مال میں برکت دے، آپ میری منڈی کی طرف راہنمائی کر دیں، تو انہوں نے منڈی کا راستہ بتا دیا، آپ منڈی میں گئے، خرید و فروخت کی اور کچھ پنیر اور گھی کما کر لے آئے۔ آپ اس طرح اللہ نے جتنا چاہا کام کرتے رہے۔ (ایک دفعہ) آپ آئے اور آپ پر حجلہ عروسی کے نشانات تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہا: ”یہ کیا ہے“، انہوں نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول! میں نے ایک عورت کے ساتھ شادی کر لی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کتنا حق مہر ادا کیا ہے؟“ کہا: کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو“، تو سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے بعد آپ نے مجھے دیکھا، اگر میں پتھر اٹھاتا تو مجھے گمان ہوتا کہ اس کے نیچے سے میں نے سونا اور چاندی اٹھانا ہے۔