سیدنا عروہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہا کرتی تھیں کہ اللہ کی قسم اے میرے بھانجے! ہم ایک چاند دیکھتے، دوسرا دیکھتے، تیسرا دیکھتے، دو مہینے میں تین چاند دیکھتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں اس دوران آگ نہ جلتی تھی۔ میں نے کہا کہ اے خالہ! پھر آپ کی زندگی کس پر تھی؟ انہوں نے کہا کہ کھجور اور پانی۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار میں سے کچھ ہمسائے تھے جن کے دودھ والے جانور تھے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دودھ بھیجتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ دودھ ہمیں بھی پلا دیتے تھے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم روٹی اور زیتون کے تیل سے ایک دن میں دو بار سیر نہیں ہوئے (یعنی صبح اور شام دونوں وقت سیر ہو کر نہیں کھایا)۔
سیدنا ابوحازم کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ اپنی دونوں انگلیوں سے باربار اشارہ کرتے تھے اور کہتے کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ کی جان ہے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے کبھی تین دن پے در پے گندم کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور میرے دانوں کے برتن میں تھوڑے سے جو تھے۔ اسی میں سے کھایا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ بہت دن گزر گئے۔ (پھر) میں نے ان کو ماپا تو وہ ختم ہو گئے (معلوم ہوا کہ مجہول اور مبہم شے میں برکت زیادہ ہوتی ہے)۔
سیدنا سماک بن حرب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو خطبہ پڑھتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس (مال و دولت) کا ذکر کیا جو لوگ حاصل کر رہے تھے اور پھر کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارا دن بھوک سے بےقرار رہتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناقص کھجور بھی نہ ملتی جس سے اپنا پیٹ بھر لیں۔
سیدنا ابوعبدالرحمن حبلی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے سنا اور ان سے ایک شخص نے پوچھا کہ کیا ہم فقیر مہاجرین میں سے نہیں ہیں؟ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تیری بیوی ہے جس کے پاس تو رہتا ہے؟ وہ بولا کہ ہاں ہے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تیرا گھر ہے جس میں تو رہتا ہے؟ وہ بولا کہ ہاں ہے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تو امیروں میں سے ہے۔ وہ بولا کہ میرے پاس ایک خادم بھی ہے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر تو تو بادشاہوں میں سے ہے۔ ابوعبدالرحمن نے کہا کہ تین آدمی سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور میں ان کے پاس موجود تھا۔ وہ کہنے لگے کہ اے محمد! اللہ کی قسم! ہمیں کوئی چیز میسر نہیں، نہ خرچ، نہ سواری اور نہ اسباب۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم جو چاہو میں کروں۔ اگر چاہتے ہو تو ہمارے پاس چلے آؤ، ہم تمہیں وہ دیں گے جو اللہ نے تمہاری تقدیر میں لکھا ہے اور اگر کہو تو ہم تمہارا ذکر بادشاہ سے کریں اور اگر چاہو تو صبر کرو، اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ محتاج مہاجرین مالداروں سے چالیس برس پہلے (جنت میں) جائیں گے۔ وہ بولے کہ ہم صبر کرتے ہیں اور کچھ نہیں مانگتے۔
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا، وہاں دیکھا تو اس کے اندر اکثر وہ لوگ ہیں جو (دنیا میں) مسکین ہیں اور امیر مالدار لوگ (حساب و کتاب کے لئے) روکے گئے ہیں (جبکہ فقر کی زندگی گزارنے والے مومن تو بغیر حساب و کتاب جنت میں جا چکے ہوں گے) اور جو دوزخی ہیں، ان کو تو دوزخ میں جانے کا حکم ہو چکا۔ اور میں نے دوزخ کے دروازے پر کھڑا ہو کر دیکھا تو وہاں عورتیں زیادہ ہیں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں سے گزرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی عالیہ کی طرف سے مدینہ میں آ رہے تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک طرف یا دونوں طرف تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹے کانوں والا یا کٹے ہوئے کانوں والا بھیڑ کا بچہ دیکھا جو کہ مرا ہوا تھا۔ آپ نے اس کا کان پکڑا، پھر فرمایا کہ تم میں سے یہ ایک درہم میں کون لیتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہم ایک درہم میں بھی اس کو لینا نہیں چاہتے (یعنی کسی چیز کے بدلے) اور ہم اس کو کیا کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم چاہتے ہو کہ یہ تمہیں مل جائے؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! اگر یہ زندہ ہوتا، تب بھی اس میں عیب تھا کہ اس کے کان بہت چھوٹے ہیں، پھر یہ تو مردہ ہے، اس کو کون لے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جیسے یہ تمہارے نزدیک ہے۔