سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ لوگ دجال سے (بچنے کے لئے) پہاڑوں میں بھاگ جائیں گے۔ ام شریک رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہ! عرب کے لوگ اس دن کہاں ہوں گے؟ (یعنی وہ دجال سے مقابلہ کیوں نہ کریں گے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عرب ان دنوں تھوڑے ہوں گے (اور دجال کے ساتھی کروڑوں)۔
حمید بن ھلال ایک گروہ سے جن میں ابوالدہما اور ابوقتادہ بھی شامل تھے، سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ کے سامنے سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے پاس جایا کرتے تھے۔ ایک دن سیدنا ہشام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم آگے بڑھ کر ایسے لوگوں کے پاس جاتے ہو جو مجھ سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر نہیں رہتے تھے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ آدم علیہ السلام کے وقت سے لیکر قیامت تک کوئی مخلوق (شر و فساد میں) دجال سے بڑی نہیں ہے (سب سے زیادہ مفسد اور شریر دجال ہے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ کی قسم! مریم علیہا السلام کے بیٹے (آسمان سے) اتریں گے اور وہ حاکم ہوں گے، عدل کریں گے، صلیب کو توڑ ڈالیں گے اور خنزیر کو مار ڈالیں گے اور جزیہ لینا موقوف کر دیں گے۔ اور جوان اونٹ کو چھوڑ دیا جائے گا، پھر کوئی اس پر محنت نہ کرے گا۔ اور لوگوں کے دلوں میں سے بخل، دشمنی اور حسد جاتے رہیں گے اور وہ لوگوں کو مال دینے کے لئے بلائیں گے لیکن کوئی قبول نہ کرے گا۔ (اس وجہ سے کہ حاجت نہ ہو گی اور مال کثرت سے ہر ایک کے پاس ہو گا)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا حال ہو گا جب مریم علیہا السلام کے بیٹے (آسمان سے) اتریں گے، پھر تم لوگوں میں سے ہی تمہارے لوگ امامت کریں گے۔ (راوی ولید بن مسلم نے کہا) میں نے ابن ابی ذئب سے کہا مجھ سے اوزاعی نے حدیث بیان کی زہری سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، اس میں یہ ہے کہ تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا۔ ابن ابی ذئب نے کہا تو جانتا ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے کہ تمہاری امامت تمہی لوگوں میں سے کریں گے؟ میں نے کہا کہ آپ ہی بتلائیے تو انہوں نے کہا عیسیٰ علیہ السلام تمہارے پروردگار کی کتاب (یعنی قرآن مجید) اور تمہارے پیغمبر کی سنت سے تمہاری امامت کریں گے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ قیامت تک میری امت میں سے ایک گروہ (کافروں اور مخالفوں سے) ہمیشہ حق (بات) پر لڑتا رہے گا، وہ (گروہ) غالب رہے گا۔ پھر عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اتریں گے اور اس گروہ کا امام (عیسیٰ علیہ السلام سے) کہے گا کہ آئیے نماز پڑھائیے۔ وہ کہیں گے نہیں، تم میں سے ایک دوسروں پر حاکم رہیں۔ یہ وہ بزرگی ہے جو اللہ تعالیٰ اس امت کو عنایت فرمائے گا۔
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اس انگلی سے اشارہ کرتے تھے جو انگوٹھے اور درمیان کی انگلی سے نزدیک ہے اور فرماتے تھے کہ میں اور قیامت اس طرح ساتھ ساتھ بھیجے گئے ہیں
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ قیامت کب ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر خاموش رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کی طرف جو ازدشنوۃ میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھا ہوا تھا، دیکھ کر فرمایا کہ اگر اس بچہ کی عمر لمبی ہوئی تو یہ بوڑھا نہ ہو گا، یہاں تک کہ تیری قیامت قائم ہو جائے گی۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ لڑکا اس دن میرا ہم عمر تھا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ دیہاتی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تو قیامت کے بارے میں پوچھتے کہ وہ کب ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کم عمر کو دیکھتے اور فرماتے کہ اگر یہ جئے گا تو بوڑھا نہ ہو گا، یہاں تک کہ تمہاری قیامت قائم ہو جائے گی (کیونکہ تمہاری قیامت یہی ہے کہ تم مر جاؤ۔ مراد قیامت صغریٰ ہے اور وہ موت ہے)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قیامت قائم ہو جائے گی اور مرد اونٹنی دوہتا ہو گا، پس برتن اس کے منہ تک نہ پہنچا ہو گا کہ قیامت آ جائے گی اور دو مرد کپڑے کی خریدوفروخت کرتے ہوں گے، خریدوفروخت نہ کر پائیں گے کہ قیامت آ جائے گی اور کوئی مرد اپنا حوض درست کر رہا ہو گا، پس اس کو درست کر کے نہ پھرا ہو گا کہ قیامت آ جائے گی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صور کے دونوں پھونکوں کے درمیان میں چالیس کا فاصلہ ہو گا۔ لوگوں نے کہا کہ اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ! چالیس دن کا؟ انہوں نے کہا کہ میں نہیں کہتا۔ پھر لوگوں نے کہا کہ چالیس مہینے کا؟ انہوں نے کہا کہ میں نہیں کہتا۔ پھر لوگوں نے کہا کہ چالیس برس کا؟ انہوں نے کہا کہ میں نہیں کہتا۔ (یعنی مجھے اس کا تعین معلوم نہیں ہے) پھر آسمان سے ایک پانی برسے گا، اس سے لوگ ایسے اگ آئیں گے جیسے سبزہ اگ آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آدمی کے بدن میں کوئی چیز ایسی نہیں جو گل نہ جائے، مگر ایک ہڈی اور وہ ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اسی ہڈی سے قیامت کے دن لوگ پیدا ہوں گے۔ (نووی رحمہ اللہ نے کہا کہ اس میں سے پیغمبر مستثنیٰ ہیں کہ ان کے جسموں کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے)