سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ (مسلمانوں کے) دو بڑے بڑے گروہ لڑیں گے اور ان میں بڑی سخت لڑائی ہو گی اور دونوں کا دعویٰ ایک ہو گا (یعنی دونوں کا دین ایک ہو گا اور دونوں یہ دعویٰ کریں گے کہ ہم اللہ کے دین کے لئے لڑتے ہیں)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! دنیا فنا نہ ہو گی یہاں تک کہ آدمی قبر پر گزرے گا، پھر اس پر لیٹے گا اور کہے گا کہ کاش! میں اس قبر والا ہوتا اور دین اس کے لئے آزمائش بن جائے گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ ہرج بہت ہو گا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہرج کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قتل، قتل (یعنی خون بہت ہوں گے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! دنیا اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک کہ لوگوں پر ایسا وقت نہ آ جائے کہ جس میں قاتل کو یہ تک معلوم نہ ہو گا کہ وہ قتل کیوں کر رہا ہے؟ اور مقتول کو بھی نہ معلوم ہو گا کہ وہ کیوں قتل کیا جا رہا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ کیسے ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کشت و خون ہو گا۔ قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ ایک آگ حجاز کے ملک سے نکلے گی اور وہ بصریٰ کے اونٹوں کی گردنوں کو روشن کر دے گی (یعنی اس کی روشنی ایسی تیز ہو گی کہ عرب سے شام تک پہنچے گی۔ حجاز مکہ اور مدینہ کا ملک اور بصریٰ شہر کا نام ہے)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دوس کی عورتوں کی سرینیں ذی الخلصہ کے گرد ہلیں گی (یعنی وہ اس کا طواف کریں گی) اور ذوالخلصہ ایک بت تھا جس کو دوس جاہلیت کے زمانہ میں تبالہ (یمن کی ایک جگہ) میں پوجا کرتے تھے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات اور دن اس وقت تک ختم نہ ہوں گے جب تک لات اور عزیٰ (جاہلیت کے بت) پھر نہ پوجے جائیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں تو سمجھتی تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اس کو سب دینوں پر غالب کرے اگرچہ مشرک لوگ برا مانیں“ کہ یہ وعدہ پورا ہونے والا ہے (اور اسلام کے سوا اور کوئی دین غالب نہ رہے گا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا، ایسا ہی ہو گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا کہ جس سے ہر مومن مر جائے گا، یہاں تک کہ ہر وہ شخص بھی جس کے دل میں دانے کے برابر بھی ایمان ہے اور وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جن میں بھلائی نہیں ہو گی۔ پھر وہ لوگ اپنے (مشرک) باپ دادا کے دین پر لوٹ جائیں گے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے ایسے شہر کے متعلق سنا ہے جس کے ایک جانب خشکی اور ایک جانب سمندر ہے؟ صحابہ نے کہا کہ ہاں یا رسول اللہ! ہم نے سنا ہے (یعنی قسطنطنیہ ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ اس شہر سے اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ستر ہزار لوگ لڑیں گے۔ پس جب اس شہر کے پاس آئیں گے تو اتر پڑیں گے۔ بس ہتھیار سے لڑیں گے نہ تیر ماریں گے، بلکہ ((لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر)) کہیں گے تو اس کی دریا والی طرف گر پڑے گی۔ پھر دوسری بار ((لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر)) کہیں گے تو اس کی دوسری طرف گر پڑے گی۔ پھر تیسری بار ((لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر)) کہیں گے تو ہر طرف سے کھل جائے گا۔ پس وہ اس شہر میں گھس پڑیں گے اور مال غنیمت لوٹیں گے۔ جب وہ مال غنیمت کو بانٹ رہے ہوں گے کہ اچانک ایک پکارنے والا آ کر پکارے گا کہ دجال نکل آیا ہے تو وہ ہر چیز کو چھوڑ کر (دجال کی طرف) لوٹ آئیں گے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ فرات میں سونے کا ایک پہاڑ نکلے گا اور لوگ اس کے لئے لڑیں گے۔ تو ہر سینکڑے میں سے ننانوے ماریں جائیں گے اور ہر شخص (اپنے دل میں) یہ کہے گا کہ شاید میں بچ جاؤں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ فرات میں سے سونے کا ایک خزانہ نکلے، سو جو کوئی وہاں موجود ہو، تو وہ اس میں سے کچھ نہ لے۔