سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں نکلے، جس میں لوگوں کو (کھانے اور پینے کی) بہت تکلیف ہوئی۔ عبداللہ بن ابی (منافق) نے اپنے ساتھی منافقوں سے کہا کہ ”تم ان لوگوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں، کچھ مت دو، یہاں تک کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے بھاگ نکلیں“۔ زہیر نے کہا کہ یہ اس شخص کی قرآت ہے جس نے من حولہ پڑھا ہے (اور یہی قرآت مشہور ہے اور قرآت شاذ من حولہ ہے، یعنی یہاں تک کہ بھاگ جائیں وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ہیں) اور عبداللہ بن ابی منافق نے کہا کہ ”اگر ہم مدینہ کو لوٹیں گے تو البتہ عزت والا (یعنی مردود نے اپنے آپ کو عزت والا قرار دیا) ذلت والے کو نکال دے گا“(یعنی مردود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذلت والا قرار دیا)۔ میں یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کے پاس کہلا بھیجا اور اس سے پچھوایا، تو اس نے قسم کھائی کہ میں نے ایسا نہیں کہا اور بولا کہ زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹ بولا ہے۔ اس بات سے میرے دل کو بہت رنج ہوا، یہاں تک کہ اللہ نے مجھے سچا کیا اور سورۃ ((اذا جآئک المنافقون)) اتری۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دعائے مغفرت کے لئے بلایا، لیکن انہوں نے اپنے سر موڑ لئے (یعنی نہ آئے) اور اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں فرمایا ہے کہ ”گویا وہ لکڑیاں ہیں دیوار سے ٹکائی ہوئیں“ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ لوگ ظاہر میں خوب اور اچھے معلوم ہوتے تھے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون شخص مرار کی گھاٹی پر چڑھ جاتا ہے کہ اس کے گناہ ایسے معاف ہو جائیں جیسے بنی اسرائیل کے معاف ہو گئے تھے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سب سے پہلے اس گھاٹی پر ہمارے گھوڑے چڑھے یعنی قبیلہ خزرج کے لوگوں کے، پھر لوگوں کا تار بندھ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک کی بخشش ہو گئی مگر لال (سرخ) اونٹ والے کی نہیں۔ ہم اس شخص کے پاس گئے اور ہم نے کہا کہ چل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لئے مغفرت کی دعا کریں۔ وہ بولا کہ اللہ کی قسم! میں اپنی گمشدہ چیز پاؤں تو مجھے تمہارے صاحب کی دعا سے زیادہ پسند ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ شخص اپنی گمشدہ چیز ڈھونڈھ رہا تھا (وہ منافق تھا جبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی بخشش نہیں ہوئی اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا فرمایا تھا وہ شخص ویسا ہی نکلا)۔
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمار بن یاسر سے پوچھا (اور عمار بن یاسر جنگ صفین میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھے) کہ تم نے جو لڑائی (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے) کی، یہ تمہاری رائے ہے یا تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کچھ فرمایا تھا؟ اگر رائے ہے تو رائے تو درست بھی ہوتی ہے اور غلط بھی ہوتی ہے۔ تو سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کوئی ایسی بات نہیں فرمائی جو عام لوگوں سے نہ فرمائی ہو، اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک میری امت میں (راوی حدیث شعبہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے انہوں نے یہ کہا تھا کہ مجھے سیدنا حذیفہ نے بیان کیا اور دوسرے راوی غندر کہتے ہیں کہ انہوں نے ”حدثنی حذیفہ“ کے الفاظ نہیں کہے) بارہ منافق ہوں گے جو نہ جنت میں جائیں اور نہ ہی اس کی خوشبو پا سکیں گے حتیٰ کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے۔ ان میں سے آٹھ کو تم سے ایک دبیلہ (پھوڑا) کافی ہو جائے گا (یعنی ان کی موت کا سبب بنے گا) یعنی ایک آگ کا چراغ ان کے کندھوں میں ظاہر ہو گا اور ان کے سینوں کو توڑتا ہوا نکل آئے گا۔ (یعنی اس پھوڑے میں ایک انگارہ ہو گا جیسے چراغ رکھ دیا ہو، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔ آمین)۔
سیدنا ابوطفیل کہتے ہیں کہ عقبہ کے لوگوں میں سے ایک شخص اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ جھگڑا تھا جیسے لوگوں میں ہوتا ہے۔ وہ بولا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ اصحاب عقبہ کتنے تھے؟ (اس سے مراد وہ منافقین ہیں جو غزوہ تبوک کے سفر کے دوران ایک گھاٹی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچانے کے لئے اکٹھے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے شر سے محفوظ رکھا) لوگوں نے حذیفہ سے کہا جب وہ پوچھتا ہے تو اس کو بتا دو۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) خبر دی جاتی تھی کہ وہ چودہ آدمی تھے۔ اگر تو بھی ان میں سے ہے تو وہ پندرہ تھے۔ اور میں قسم سے کہتا ہوں کہ ان میں سے بارہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا اور آخرت میں دشمن تھے اور باقی تینوں نے یہ عذر کیا (جب ان سے پوچھا گیا اور ملامت کی گئی) کہ ہم نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی (کہ عقبہ کے راستے سے نہ آؤ) کی آواز بھی نہیں سنی اور نہ اس قوم کے ارادہ کی ہم خبر رکھتے ہیں۔ اور (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پتھریلی زمین میں تھے۔ پھر چلے اور فرمایا کہ (اگلے پڑاؤ پر) پانی تھوڑا ہے، تو مجھ سے پہلے کوئی آدمی پانی پر نہ جائے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے تو کچھ (منافق) لوگ وہاں پہنچ چکے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن ان پر لعنت فرمائی۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی مثال اس بکری کی ہے جو دو گلوں یعنی دو ریوڑوں کے درمیان ماری ماری پھرتی ہو، کبھی اس ریوڑ میں آتی ہو اور کبھی اس میں۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے واپس آ رہے تھے، جب مدینہ کے قریب پہنچے تو ایسے زور کی ہوا چلی کہ سوار زمین میں دبنے کے قریب ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ہوا کسی منافق کے مرنے کے لئے چلی ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو منافقوں میں سے ایک بڑا منافق مر چکا تھا (یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ تھا)۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک آدمی کی عیادت کی جس کو بخار آ رہا تھا۔ میں نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہا کہ اللہ کی قسم! میں نے آج کی طرح کسی شخص کو اتنا سخت گرم نہیں دیکھا (بخار کی شدت کی وجہ سے اس کا جسم سخت گرم تھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تم سے اس شخص کے بارے میں بیان نہ کروں جو قیامت کے دن اس سے بھی زیادہ گرم ہو گا؟ وہ یہ دونوں سوار ہیں جو پیٹھ موڑ کر جا رہے ہیں (یہ دو آدمیوں کے بارہ میں جو کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے تھے۔ یہ اس لئے فرمایا کہ وہ دونوں منافق تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نفاق سے باخبر تھے)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہماری قوم بنی نجار میں سے ایک شخص تھا جس نے سورۃ البقرہ اور آل عمران پڑھی تھیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لکھا کرتا تھا۔ پھر وہ بھاگ گیا اور اہل کتاب سے مل گیا۔ انہوں نے اس کو اٹھایا (یعنی اس کی آؤ بھگت کی) اور کہنے لگے کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا منشی تھا۔ وہ لوگ اس کے مل جانے سے خوش ہوئے۔ پھر تھوڑے دنوں میں اللہ تعالیٰ نے اس کو ہلاک کیا تو انہوں نے اس کے لئے قبر کھودی اور دفنا دیا۔ صبح کو دیکھا تو اس کی لاش باہر پڑی ہے۔ پھر انہوں نے گڑھا کھودا اور اس کو دفن کر دیا۔ پھر صبح کو دیکھا تو اس کی لاش باہر پڑی ہے۔ پھر گڑھا کھود کر اس کو دفن کر دیا۔ پھر صبح کو دیکھا تو اس کی لاش کو زمین نے باہر پھینک دیا۔ آخر اس کو یونہی پڑا ہوا چھوڑ دیا۔