سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے خیال کے پاس ہوں (یعنی اس کے گمان اور اٹکل کے ساتھ۔ نووی نے کہا کہ یعنی بخشش اور قبول سے اس کے ساتھ ہوں) اور میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں (رحمت، توفیق، ہدایت اور حفاظت سے) جب وہ مجھے یاد کرتا ہے۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے مجمع میں یاد کرتا ہے تو میں اس کو اس مجمع میں یاد کرتا ہوں جو اس کے مجمع سے بہتر ہے (یعنی فرشتوں کے مجمع میں) اور جب بندہ ایک بالشت میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور جب وہ ایک ہاتھ مجھ سے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک باع (دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر) اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور جب وہ میرے پاس چلتا ہوا آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑا ہوا آتا ہوں۔
ابوعثمان نہدی سیدنا حنظلہ اسیدی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبوں میں سے تھے)، انہوں نے کہا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور پوچھا کہ اے حنظلہ! تو کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ حنظلہ رضی اللہ عنہ تو منافق ہو گیا (یعنی بے ایمان)۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سبحان اللہ! تو کیا کہتا ہے؟ میں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دوزخ اور جنت یاد دلاتے ہیں تو گویا کہ وہ دونوں ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ پھر جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکل آتے ہیں تو بیوی بچوں اور کاروبار میں مصروف ہو جاتے ہیں تو بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہمارا بھی یہی حال ہے۔ پھر میں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! حنظلہ تو منافق ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا کیا مطلب ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ہمیں دوزخ اور جنت یاد دلاتے ہیں تو گویا کہ وہ دونوں ہماری آنکھ کے سامنے ہیں۔ پھر جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو بیوی بچوں اور دوسرے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں اور بہت باتیں بھول جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم سدا اسی حال پر قائم رہو جس طرح میرے پاس رہتے ہو اور یاد الٰہی میں رہو تو البتہ فرشتے تم سے تمہارے بستروں اور تمہاری راہوں میں مصافحہ کریں لیکن اے حنظلہ! ایک ساعت دنیا کا کاروبار اور ایک ساعت رب کی یاد۔ تین بار یہ فرمایا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مومن پر سے کوئی دنیا کی سختی دور کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر سے آخرت کی سختیوں میں سے ایک سختی دور کرے گا۔ اور جو شخص مفلس کو مہلت دے (یعنی اس پر اپنے قرض کا تقاضا اور سختی نہ کرے) تو اللہ تعالیٰ اس پر دنیا میں اور آخرت میں آسانی کرے گا اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کا عیب ڈھانپے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اور آخرت میں اس کا عیب ڈھان کے گا اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کی مدد میں رہے گا جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہے گا اور جو شخص حصول علم کے لئے کسی راستے پر چلے (یعنی علم دین خالص اللہ کے لئے) تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ سہل کر دے گا اور جو لوگ اللہ کے کسی گھر میں اللہ کی کتاب پڑھنے اور پڑھانے کے لئے جمع ہوں تو ان پر اللہ تعالیٰ کی سکینت اترتی ہے۔ اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اور فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر اپنے پاس رہنے والوں (یعنی فرشتوں) میں کرتا ہے اور جس کا نیک عمل سست ہو تو اس کا خاندان (نسب) اس کو آگے نہیں بڑھائے گا۔ (کچھ کام نہ آئے گا)۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے مسجد میں (لوگوں کا) ایک حلقہ دیکھا تو پوچھا کہ تم لوگ یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے بیٹھے ہیں۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم! کیا تم اسی لئے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! صرف اللہ کے ذکر کے لئے بیٹھے ہیں۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے تمہیں اس لئے قسم نہیں دی کہ تمہیں جھوٹا سمجھا اور میرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو مرتبہ تھا، اس رتبہ کے لوگوں میں کوئی مجھ سے کم حدیث کا روایت کرنے والا نہیں ہے (یعنی میں سب لوگوں سے کم حدیث روایت کرتا ہوں)۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے حلقہ پر نکلے اور پوچھا کہ تم کیوں بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ ہم اللہ جل وعلا کی یاد کرنے کو بیٹھے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں اور شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کی راہ بتلائی اور ہمارے اوپر احسان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کی قسم! تم اسی لئے بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ اللہ کی قسم! ہم تو صرف اسی واسطے بیٹھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں اس لئے قسم نہیں دی کہ تمہیں جھوٹا، سمجھا بلکہ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ سے فرشتوں میں فخر کر رہا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تبارک وتعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جو سیر کرتے پھرتے ہیں جنہیں اور کچھ کام نہیں وہ ذکر الٰہی کی مجلسوں کو ڈھونڈھتے ہیں۔ پھر جب کسی مجلس کو پاتے ہیں جس میں ذکر الٰہی ہوتا ہے تو وہاں بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے پروں سے زمین سے لے کر آسمان تک جگہ بھر جاتی ہے۔ جب لوگ اس مجلس سے جدا ہو جاتے ہیں تو فرشتے اوپر چڑھ جاتے ہیں اور آسمان پر جاتے ہیں۔ اللہ جل وعلا ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ تم کہاں سے آئے ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ ہم زمین سے تیرے ان بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح (یعنی سبحان اللہ کہنا)، تیری بڑائی (اللہ اکبر کہنا)، تیری تہلیل (یعنی لا الٰہ الا اللہ کہنا) اور تیری تحمید (یعنی الحمدللہ کہنا) بیان کر رہے تھے۔ (یعنی سبحان اللہ والحمدللہ و لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر پڑھ رہے ہیں) اور تجھ سے کچھ مانگ رہے تھے۔ اللہ فرماتا ہے کہ وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ تجھ سے تیری جنت مانگ رہے تھے۔ اللہ فرماتا ہے کہ کیا انہوں نے میری جنت کو دیکھا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے مالک! انہوں نے دیکھا تو نہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ پھر اگر وہ جنت کو دیکھتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اور وہ تیری پناہ طلب کر رہے تھے۔ اللہ فرماتا ہے کہ وہ کس چیز سے میری پناہ مانگتے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے مالک! تیری آگ سے۔ اللہ فرماتا ہے کہ کیا انہوں نے میری آگ کو دیکھا ہے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ نہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ پھر اگر وہ میری آگ کو دیکھتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ تیری بخشش طلب کر رہے تھے، اللہ فرماتا ہے (صدقے اللہ کے کرم اور فضل اور عنایت پر)، میں نے ان کو بخش دیا اور جو وہ مانگتے ہیں وہ دیا اور جس سے پناہ مانگتے ہیں اس سے پناہ دی۔ پھر فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے مالک! ان لوگوں میں ایک فلاں بندہ بھی تھا جو گنہگار ہے، وہ ادھر سے گزرا تو ان کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔ اللہ فرماتا ہے کہ میں نے اس کو بھی بخش دیا، وہ لوگ ایسے ہیں کہ جن کا ساتھی بدنصیب نہیں ہوتا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی راہ میں جا رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک پہاڑ پر سے گزرے جس کو جمدان کہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چلو یہ جمدان ہے مفردون آگے بڑھ گئے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مفردون کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، اس نے اپنے لشکر کو عزت دی اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے کافروں کی جماعتوں کو مغلوب کر دیا اس کے بعد کوئی شے نہیں ہے۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ لوگ بلند آواز سے تکبیر کہنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! اپنی جانوں پر نرمی کرو (یعنی آہستہ سے ذکر کرو)، کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکارتے ہو بلکہ تم اس کو پکارتے ہو جو (ہر جگہ سے) سنتا ہے، نزدیک ہے اور تمہارے ساتھ ہے (یعنی علم اور احاطہٰ سے)۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھا اور میں لا حول ولا قوّۃ الاّ باﷲ کہہ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عبداللہ بن قیس! میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ بتلاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ! بتلائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہہ لا حول ولا قوّۃ الاّ باﷲ (یہ کلمہ ہے تفویض کا اور اس میں اقرار ہے کہ اور کسی کو نہ طاقت ہے نہ قدرت، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے)۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب شام ہوتی تو فرماتے کہ ہم نے شام کی، اور اللہ کے ملک نے شام کی، ہر طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے، اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے، جو اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کی سلطنت ہے، اسی کو تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے اس رات کی بہتری مانگتا ہوں اور اس رات کے بعد کی اور اس رات کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں اور اس کے بعد کی برائی سے۔ اے اللہ! میں سستی اور بڑھاپے کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ! میں تجھ سے جہنم سے اور قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں (راوی) حسن بن عبیداللہ نے کہا کہ زبید (راوی) نے ابراہیم بن سوید سے اس میں یہ زیادہ بیان کیا، انہوں نے عبدالرحمن بن یزید سے اور انہوں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے اس کو مرفوعاً بیان کیا کہ ”اللہ واحد کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں ہر قسم کی بادشاہت اسی کے لئے ہے اور ہر قسم کی تعریف اسی (وحدہ لا شریک) کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے“ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب صبح ہوتی تو یہی دعا (اس طرح) کرتے کہ صبح کی ہم نے اور اللہ کے ملک نے صبح کی ........ آخر تک (اور بجائے رات کے دن فرماتے)
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھوں پر چکی پیسنے کی وجہ سے نشان پڑ گئے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیدی (غلام) آئے، وہ آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا تو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ملیں اور ان سے یہ حال بیان کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے آنے کا حال بیان کیا۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم اپنے بچھونے پر جا چکے تھے، ہم نے اٹھنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بیچ میں بیٹھ گئے (یعنی میرے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بیچ میں) یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینہ پر پائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم دونوں کو وہ نہ بتاؤں جو اس چیز سے بہتر ہے جو تم نے مانگا (یعنی خادم سے)؟ جب تم دونوں (سونے کے لئے) لیٹو تو چونیتس دفعہ ”اللہ اکبر“، تینتیس دفعہ ”سبحان اللہ“ اور تینتیس دفعہ ”الحمدللہ“ کہہ لیا کرو۔ یہ تمہارے لئے ایک خادم سے بہتر ہے۔ ایک دوسری روایت میں یہ زیادہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے، کبھی ترک نہیں کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا صفین کی رات بھی تو جواب دیا کہ ہاں! صفین کی رات بھی (نہیں چھوڑا)۔