سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ میں ایک سال تک رہا (اس طرح جیسے کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لئے دوسرے ملک سے آتا ہے اور اپنے ملک میں پھر لوٹ جانے کا ارادہ رکھتا ہے) اور میں نے اس وجہ سے ہجرت نہ کی (یعنی اپنے ملک میں جانے کا ارادہ موقوف نہ کیا) کہ جب کوئی ہم میں سے ہجرت کر لیتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہ پوچھتا تھا (برخلاف مسافروں کے کہ ان کو پوچھنے کی اجازت تھی)۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھلائی اور برائی کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھلائی اور نیکی حسن خلق ہے اور گناہ وہ ہے جو دل میں کھٹکے اور لوگوں کو اس کی خبر ہونا تجھے برا لگے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص نے راہ میں (کانٹوں کی) شاخ دیکھی تو کہا کہ اللہ کی قسم! میں اس کو مسلمانوں کے آنے جانے کی راہ سے ہٹا دوں گا تاکہ ان کو تکلیف نہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو جنت میں داخل کر دیا۔
سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے کوئی ایسی بات بتلائیے جس سے میں فائدہ اٹھاؤں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں کی راہ سے تکلیف دینے والی چیز کو ہٹا دے۔
اسود کہتے ہیں کہ قریش کے چند نوجوان ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے جبکہ وہ منیٰ میں تھیں اور وہ لوگ ہنس رہے تھے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ تم کیوں ہنستے ہو؟ انہوں نے کہا کہ فلاں شخص خیمہ کی طناب پر گرا اور اس کی گردن یا آنکھ جاتے جاتے بچی۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مت ہنسو اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مسلمان کو ایک کانٹا لگے یا اس سے زیادہ کوئی دکھ پہنچے تو اس کے لئے ایک درجہ بڑھے گا اور ایک گناہ اس کا مٹ جائے گا۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مومن کو جب کوئی تکلیف یا ایذا یا بیماری یا رنج ہو یہاں تک کہ فکر جو اس کو ہوتی ہے اس سے بھی تو اس کے گناہ مٹ جاتے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری کہ ”جو کوئی برائی کرے گا، اس کو اس کا بدلہ ملے گا“ تو مسلمانوں پر بہت سخت گزرا (کہ ہر گناہ کے بدلے ضرور عذاب ہو گا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میانہ روی اختیار کرو اور ٹھیک راستہ کو ڈھونڈو اور مسلمان کو (پیش آنے والی) ہر ایک مصیبت (اس کے لئے) گناہوں کا کفارہ ہے، یہاں تک کہ ٹھوکر اور کانٹا بھی (لگے تو بہت سے گناہوں کا بدلہ دنیا ہی میں ہو جائے گا اور امید ہے کہ آخرت میں مؤاخذہ نہ ہو گا)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے سے بغض مت رکھو، ایک دوسرے سے حسد مت رکھو اور ایک دوسرے سے دشمنی مت رکھو اور اللہ کے بندو بھائیوں کی طرح رہو۔ اور کسی مسلمان کو حلال نہیں ہے کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ تک (بغض کی وجہ سے) بولنا چھوڑ دے۔
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کو یہ بات درست نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین راتوں سے زیادہ تک (بولنا) چھوڑ دے، اس طرح پر کہ وہ دونوں ملیں تو ایک اپنا منہ ادھر اور دوسرا اپنا منہ ادھر پھیر لے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہو گا جو سلام میں پہل کرے گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت کے دروازے پیر اور جمعرات کے دن کھولے جاتے ہیں۔ پھر ہر ایک بندے کی مغفرت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا، لیکن جو شخص جو اپنے بھائی سے کینہ رکھتا ہے اس کی مغفرت نہیں ہوتی اور حکم ہوتا ہے کہ ان دونوں کو دیکھتے رہو جب تک کہ صلح کر لیں۔ ان دونوں کو دیکھتے رہو جب تک کہ صلح کر لیں (جب صلح کر لیں گے تو ان کی مغفرت ہو گی)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بڑا جھوٹ ہے اور کسی کی باتوں پر کان مت لگاؤ اور جاسوسی نہ کرو اور (دنیا میں) رشک مت کرو (لیکن دین میں درست ہے) اور حسد نہ کرو اور بغض مت رکھو اور ترک ملاقات مت کرو اور اللہ کے بندو اور (آپس میں) بھائی بھائی بن جاؤ۔