سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! سب لوگوں میں کس کا حق مجھ پر سلوک کرنے کے لئے زیادہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیری ماں۔ وہ بولا کہ پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تیری ماں۔ وہ بولا کہ پھر کون؟ آپ نے فرمایا کہ پھر تیری ماں۔ وہ بولا کہ پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تیرا باپ۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کو مقدم کیا کس لئے کہ ماں بچہ کے ساتھ بہت محنت کرتی ہے، حمل نو مہینے، پھر جننا، پھر دودھ پلانا، پھر پالنا، بیماری، دکھ میں خبر لینا)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گود میں کسی بچے نے بات نہیں کی سوائے تین بچوں کے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج نامی ایک شخص عابد تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج! تو وہ (دل میں) کہنے لگا کہ یا اللہ میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں (میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں)؟ آخر وہ نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں واپس چلی گئی۔ پھر جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر آئی اور پکارا کہ اے جریج! وہ بولا کہ اے اللہ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، آخر وہ نماز میں ہی رہا پھر اس کی ماں تیسرے دن آئی اور بلایا لیکن جریج نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں نے کہا کہ یااللہ! اس کو اس وقت تک نہ مارنا جب تک یہ فاحشہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے (یعنی ان سے اس کا سابقہ نہ پڑے)۔ پھر بنی اسرائیل نے جریج کا اور اس کی عبادت کا چرچا شروع کیا اور بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے مثال دیتے تھے، وہ بولی اگر تم کہو تو میں جریج کو آزمائش میں ڈالوں۔ پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی لیکن جریج نے اس کی طرف خیال بھی نہ کیا۔ آخر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانے میں آ کر پناہ لیا کرتا تھا اور اس کو اپنے سے صحبت کرنے کی اجازت دی تو اس نے صحبت کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ جب بچہ جنا تو بولی کہ بچہ جریج کا ہے۔ لوگ یہ سن کر اس کے پاس آئے، اس کو نیچے اتارا، اس کے عبادت خانہ کو گرایا اور اسے مارنے لگے۔ وہ بولا کہ تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ تو نے اس بدکار عورت سے زنا کیا ہے اور اس نے تجھ سے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ جریج نے کہا کہ وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس کو لائے تو جریج نے کہا کہ ذرا مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ پھر نماز پڑھی اور اس بچہ کے پاس آ کر اس کے پیٹ کو ایک ٹھونسا دیا اور بولا کہ اے بچے تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا کہ فلاں چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ جریج کی طرف دوڑے اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تیرا عبادت خانہ سونے اور چاندی سے بنائے دیتے ہیں۔ وہ بولا کہ نہیں جیسا تھا ویسا ہی مٹی سے پھر بنا دو۔ تو لوگوں نے بنا دیا۔ (تیسرا) بنی اسرائیل میں ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا کہ اتنے میں ایک بہت عمدہ جانور پر خوش وضع، خوبصورت سوار گزرا۔ تو اس کی ماں اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یا اللہ! میرے بیٹے کو اس سوار کی طرح کرنا۔ یہ سنتے ہی اس بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور سوار کی طرف منہ کر کے اسے دیکھا اور کہنے لگا کہ یااللہ! مجھے اس کی طرح نہ کرنا۔ اتنی بات کر کے پھر چھاتی میں جھکا اور دودھ پینے لگا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں (اس وقت) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو چوس کر دکھایا کہ وہ لڑکا اس طرح چھاتی چوسنے لگا۔ پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری جسے لوگ مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ تو اس کی ماں نے کہا کہ یا اللہ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے پھر دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر کہا کہ یا اللہ مجھے اسی لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی تو ماں نے کہا کہ او سرمنڈے! جب ایک شخص اچھی صورت کا نکلا اور میں نے کہا کہ یا اللہ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا کہ یا اللہ مجھے ایسا نہ کرنا اور لونڈی جسے لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا نہ کرنا تو تو کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح کرنا (یہ کیا بات ہے)؟ بچہ بولا، وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح نہ کرنا اور اس لونڈی پر لوگ تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے حالانکہ اس نے نہ زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ مجھے اس کی مثل کرنا۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت اور جہاد پر بیعت کرتا ہوں اور اللہ سے اس کا ثواب چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟ وہ بولا کہ دونوں زندہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تو اللہ تعالیٰ سے ثواب چاہتا ہے؟ وہ بولا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اپنے والدین کے پاس لوٹ جا اور ان سے نیک سلوک کر۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ عزوجل نے تم پر ماؤں کی نافرمانی، لڑکیوں کا زندہ گاڑھ دینا (جیسے کفار کیا کرتے تھے) اور نہ دینا (اس کو جس کا دینا ہے مال ہوتے ہوئے) اور مانگنا (اس چیز کا جس کے مانگنے کا حق نہیں) کو تم پر حرام کر دیا ہے۔ اور تین باتوں کو برا جانتا ہے (گو اتنا گناہ نہیں جتنا پہلی تین باتوں میں ہے) بےفائدہ بولنا اور بہت زیادہ سوال کرنا اور مال کو برباد کرنا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خاک آلود ہو اس کی ناک، پھر خاک آلود ہو اس کی ناک، پھر خاک آلود ہو اس کی ناک۔ کہا گیا کہ یا رسول اللہ! کس کی؟ فرمایا کہ جو اپنے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے ایک کو بوڑھا پائے، پھر (ان کی خدمت گزاری کر کے) جنت میں نہ جائے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب وہ مکہ کو جاتے تو اپنے ساتھ ایک گدھا تفریح کے لئے رکھتے اور جب اونٹ کی سواری سے تھک جاتے تو اس پر سوار ہو جاتے اور ایک عمامہ رکھتے جو سر پر باندھتے تھے۔ ایک دن وہ گدھے پر جا رہے تھے کہ اتنے میں ایک اعرابی نکلا۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا تو فلاں ابن فلاں نہیں ہے؟ وہ بولا کہ ہاں۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس کو گدھا دیدیا اور کہا کہ اس پر چڑھ جا اور عمامہ بھی دیدیا اور کہا کہ اپنے سر پر باندھ لے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بعض ساتھی بولے کہ تم نے اپنی تفریح کا گدھا دیدیا اور عمامہ بھی دیدیا جو اپنے سر پر باندھتے تھے اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے فوت ہو جانے کے بعد اس کے دوستوں سے (اچھا) سلوک کرے اور اس دیہاتی کا باپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا دوست تھا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت آئی اس کی دو بیٹیاں اس کے ساتھ تھیں، اس نے مجھ سے سوال کیا تو میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا تو وہی میں نے اس کو دیدی۔ اس نے وہ کھجور لے کر دو ٹکڑے کئے اور ایک ایک ٹکڑا دونوں بیٹیوں کو دیا اور خود کچھ نہ کھایا۔ پھر اٹھی اور چلی گئی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے اس عورت کا حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص بیٹیوں میں مبتلا ہو (یعنی ان کو پالے اور انہیں دین کی تعلیم کرے اور نیک شخص سے نکاح کر دے) تو وہ قیامت کے دن جہنم سے اس کی آڑ بن جائیں گی۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دو لڑکیوں کی پرورش ان کے بالغ ہونے تک کرے، تو قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح سے آئیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ملایا (یعنی قیامت کے دن میرا اور اس کا ساتھ ہو گا۔ مسلمان کو چاہئے کہ اگر خود اس کی لڑکیاں ہوں تو خیر ورنہ دو یتیم لڑکیوں کو پالے اور جوان ہونے پر ان کا نکاح کر دے تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ اس کو نصیب ہو)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی روزی بڑھے اور اس کی عمردراز ہو تو اپنے ناطے کو ملائے۔ (یعنی رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں، میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں اور وہ مجھ سے قطع تعلق کرتے ہیں۔ احسان کرتا ہوں اور وہ برائی کرتے ہیں، میں بردباری کرتا ہوں اور وہ جہالت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر حقیقت میں تو ایسا ہی کرتا ہے تو ان کے منہ پر جلتی راکھ ڈالتا ہے اور ہمیشہ اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ایک فرشتہ رہے گا جو تمہیں اس وقت تک ان پر غالب رکھے گا جب تک تو اس حالت پر رہے گا۔