سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک دن اپنے پیچھے بٹھایا اور آہستہ سے ایک بات فرمائی جس کو میں کسی سے بیان نہ کروں گا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں (قضائے حاجت کے لئے) گئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وضو کا پانی رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر نکلے تو پوچھا کہ یہ پانی کس نے رکھا ہے؟ لوگوں نے یا میں نے کہا کہ ابن عباس نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! اس کو دین میں سمجھ عطا فرما۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں جب کوئی شخص خواب دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتا۔ مجھے بھی آرزو تھی کہ میں بھی کوئی خواب دیکھوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کروں اور میں جوان، غیر شادی شدہ لڑکا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد میں سویا کرتا تھا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے دو فرشتوں نے مجھے پکڑا اور جہنم کی طرف لے گئے دیکھا تو وہ پیچ در پیچ کنوئیں کی طرح گہری ہے اور اس پر دو لکڑیاں ہیں جیسے کنوئیں پر ہوتی ہیں۔ اس میں کچھ لوگ ہیں جن کو میں نے پہچانا۔ میں نے کہنا شروع کیا کہ میں جہنم سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں میں جہنم سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، تین دفعہ۔ پھر ایک اور فرشتہ ملا اور وہ بولا کہ تجھے کچھ خوف نہیں ہے۔ یہ خواب میں نے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا۔ پس انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ اچھا آدمی ہے اگر رات کو تہجد پڑھا کرے۔ سالم نے کہا کہ عبداللہ اس کے بعد رات کا کچھ حصہ ہی سوتے تھے (اور تہجد پڑھا کرتے)۔
سیدنا عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تمہیں یاد ہے جب میں، تم اور ابن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تھے؟ تو سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سوار کر لیا تھا اور تمہیں چھوڑ دیا تھا (اس لئے کہ سواری پر زیادہ جگہ نہ ہو گی)۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ”جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے، ان پر گناہ نہیں اس کا جو کھا چکے ....“ آخر تک، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا کہ مجھے کہا گیا ہے کہ تو ان لوگوں میں سے ہے (یعنی ایمان والوں اور نیک اعمال والوں میں سے)۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرا بھائی دونوں یمن سے آئے تو ایک زمانے تک ہم عبداللہ بن مسعود اور ان کی والدہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے سمجھتے تھے۔ کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔
ابوالاحوص کہتے ہیں کہ ہم ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھے اور وہاں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے کئی ساتھی تھے اور ایک قرآن مجید دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے۔ ابومسعود نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد قرآن کا جاننے والا اس شخص سے زیادہ کوئی چھوڑا ہو جو کھڑا ہے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم یہ کہتے ہو (تو صحیح ہے) اور ان کا یہ حال تھا کہ جب ہم غائب ہوتے تو یہ حاضر رہتے اور جب ہم روکے جاتے تو ان کو (رسول اللہ کے پاس جانے کی) اجازت ملتی۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ”اور جو کوئی چیز چھپا رکھے گا، وہ اس کو قیامت کے دن لائے گا“(سورۃ: آل عمران: 161) پھر کہا کہ تم مجھے کس شخص کی قرآت کی طرح قرآن پڑھنے کا حکم کرتے ہو؟ میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ستر سے زیادہ سورتیں پڑھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب یہ جانتے ہیں کہ میں ان سب میں اللہ کی کتاب کو زیادہ جانتا ہوں اور اگر میں جانتا کہ کوئی مجھ سے زیادہ اللہ کی کتاب کو جانتا ہے تو میں اس شخص کی طرف سفر اختیار کرتا۔ شفیق نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے حلقوں میں بیٹھا ہوں، میں نے کسی کو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اس بات کو رد کرتے یا ان پر عیب لگاتے نہیں سنا۔
مسروق کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس تھے کہ ہم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ تم نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جس سے میں (اس وقت سے) محبت کرتا ہوں جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے۔ میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تم قرآن چار آدمیوں سے سیکھو۔ ایک ام عبد کے بیٹے (یعنی سیدنا عبداللہ بن مسعود) سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی سے شروع کیا اور ابی بن کعب سے اور سالم مولیٰ ابوحذیفہ سے اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما سے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا باپ احد کے دن شہید ہوا تو میں اس کے منہ سے کپڑا اٹھاتا تھا اور روتا تھا۔ لوگ مجھے منع کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع نہ کرتے تھے۔ اور عمرو کی بیٹی فاطمہ (یعنی میری پھوپھی) وہ بھی اس پر رو رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو روئے یا نہ روئے، تمہارے اسے اٹھانے تک فرشتے اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھے۔