ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ گیارہ عورتیں بیٹھیں اور ان سب نے یہ اقرار اور عہد کیا کہ اپنے اپنے خاوندوں کی کوئی بات نہ چھپائیں گی۔ پہلی عورت نے کہا کہ میرا خاوند گویا دبلے اونٹ کا گوشت ہے، جو ایک دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہو۔ نہ تو وہاں تک صاف راستہ ہے کہ کوئی چڑھ جائے اور نہ وہ گوشت موٹا ہے کہ لایا جائے۔ دوسری عورت نے کہا کہ میں اپنے خاوند کی خبر نہیں پھیلا سکتی میں ڈرتی ہوں کہ اگر بیان کروں تو پورا بیان نہ کر سکوں گی کیونکہ اس میں ظاہری و باطنی عیوب بہت زیادہ ہیں۔ (اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ میں ڈرتی ہوں کہ اگر بیان کروں گی تو اس کو چھوڑ دوں گی۔ یعنی وہ خفا ہو کر مجھے طلاق دے گا اور اس کو چھوڑنا پڑے گا)۔ تیسری عورت نے کہا کہ میرا خاوند لمبا قد اور احمق ہے، اگر میں اس کی برائی بیان کروں تو مجھے طلاق دیدے گا اور جو چپ رہوں تو اسی طرح معلق رہوں گی (یعنی نہ نکاح کے مزے اٹھاؤں گی نہ بالکل محروم رہوں گی)۔ چوتھی نے کہا کہ میرا خاوند تو ایسا ہے جیسے تہامہ (حجاز اور مکہ) کی رات۔ نہ گرم ہے نہ سرد ہے (یعنی معتدل المزاج ہے) نہ ڈر ہے نہ رنج ہے (یہ اس کی تعریف کی یعنی اس کے اخلاق عمدہ ہیں اور نہ وہ میری صحبت سے ملول ہوتا ہے)۔ پانچویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند جب گھر میں آتا ہے تو چیتا ہے (یعنی پڑ کر سو جاتا ہے اور کسی کو نہیں ستاتا) اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر ہے۔ اور جو مال اسباب گھر میں چھوڑ جاتا ہے اس کو نہیں پوچھتا۔ چھٹی عورت نے کہا کہ میرا خاوند اگر کھاتا ہے تو سب ختم کر دیتا ہے اور پیتا ہے تو تلچھٹ تک نہیں چھوڑتا اور لیٹتا ہے تو بدن لپیٹ لیتا ہے اور مجھ پر اپنا ہاتھ نہیں ڈالتا کہ میرا دکھ درد پہچانے (یہ بھی ہجو ہے یعنی سوا کھانے پینے کے بیل کی طرح اور کوئی کام کا نہیں، عورت کی خبر تک نہیں لیتا)۔ ساتویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند نامرد ہے یا شریر نہایت احمق ہے کہ کلام کرنا نہیں جانتا، سب دنیا بھر کے عیب اس میں موجود ہیں۔ ایسا ظالم ہے کہ تیرا سر پھوڑے یا ہاتھ توڑے یا سر اور ہاتھ دونوں مروڑے۔ آٹھویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند بو میں زرنب ہے (زرنب ایک خوشبودار گھاس ہے) اور چھونے میں نرم جیسے خرگوش (یہ تعریف ہے یعنی اس کا ظاہر اور باطن دونوں اچھے ہیں)۔ نویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند اونچے محل والا، لمبے پرتلے والا (یعنی قد آور) اور بڑی راکھ والا (یعنی سخی ہے) اس کا باورچی خانہ ہمیشہ گرم رہتا ہے تو راکھ بہت نکلتی ہے اس کا گھر قوم کے مل بیٹھ کر مشورہ کرنے کی جگہ (ڈیرہ وغیرہ)(یعنی سردار اور صاحب الرائے ہے)۔ دسویں عورت نے کہا کہ میرے خاوند کا نام مالک ہے۔ اور مالک کیا خوب ہے۔ مالک میری اس تعریف سے افضل ہے۔ اس کے اونٹوں کے بہت سے شترخانے ہیں اور کم تر چراگاہیں ہیں (یعنی ضیافت میں اس کے یہاں اونٹ بہت ذبح ہوا کرتے ہیں، اس سبب سے شترخانوں سے جنگل میں کم چرنے جاتے ہیں) جب اونٹ باجے کی آواز سنتے ہیں تو اپنے ذبح ہونے کا یقین کر لیتے ہیں (ضیافت میں راگ اور باجے کا معمول تھا، اس سبب سے باجے کی آواز سن کر اونٹوں کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو جاتا تھا)۔ گیارھویں عورت نے کہا کہ میرے خاوند کا نام ابوذرع ہے سو واہ کیا خوب ابوذرع ہے۔ اس نے زیور سے میرے دونوں کان جھلائے اور چربی سے میرے دونوں بازو بھرے (یعنی مجھے موٹا کیا اور مجھے بہت خوش کیا)، سو میری جان بہت چین میں رہی مجھے اس نے بھیڑ بکری والوں میں پایا جو پہاڑ کے کنارے رہتے تھے، پس اس نے مجھے گھوڑے، اونٹ، کھیت اور ڈھیریوں / خرمن کا مالک کر دیا (یعنی میں نہایت ذلیل اور محتاج تھی، اس نے مجھے باعزت اور مالدار کر دیا)۔ میں اس کی بات کرتی ہوں تو وہ مجھے برا نہیں کہتا۔ سوتی ہوں تو فجر کر دیتی ہوں (یعنی کچھ کام نہیں کرنا پڑتا) اور پیتی ہوں تو سیراب ہو جاتی ہوں۔ اور ابوزرع کی ماں، پس ابوزرع کی ماں بھی کیا خوب ہے۔ اس کی بڑی بڑی گٹھڑیاں اور کشادہ گھر ہیں۔ ابوزرع کا بیٹا، پس ابوزرع کا بیٹا بھی کیا خوب ہے۔ اس کی خواب گاہ جیسے تلوار کا میان (یعنی نازنین بدن ہے)، اس کو (بکری) حلوان کا ہاتھ آسودہ (سیر) کر دیتا ہے (یعنی کم خور ہے)۔ ابوزرع کی بیٹی، پس ابوزرع کی بیٹی بھی کیا خوب ہے۔ اپنے والدین کی تابعدار اور اپنے لباس کو بھرنے والی (یعنی موٹی ہے) اور اپنی سوتن کی رشک (یعنی اپنے خاوند کی پیاری ہے، اس لئے اس کی سوتن اس سے جلتی ہے)۔ اور ابوزرع کی لونڈی، ابوزرع کی لونڈی بھی کیا خوب ہے۔ ہماری بات ظاہر کر کے مشہور نہیں کرتی اور ہمارا کھانا اٹھا کر نہیں لیجاتی اور ہمارا گھر کچرے سے آلودہ نہیں رکھتی۔ ابوزرع باہر نکلا جب کہ مشکوں میں دودھ (گھی نکالنے) کے لئے بلوایا جا رہا تھا۔ پس وہ ایک عورت سے ملا، جس کے ساتھ اس کے دو لڑکے تھے جیسے دو چیتے اس کی گود میں دو اناروں سے کھیلتے ہوں۔ پس ابوزرع نے مجھے طلاق دی اور اس عورت سے نکاح کر لیا۔ پھر میں نے اس کے بعد ایک سردار مرد سے نکاح کیا جو ایک عمدہ گھوڑے کا سوار اور نیزہ باز ہے۔ اس نے مجھے چوپائے جانور بہت زیادہ دئیے اور اس نے مجھے ہر ایک مویشی سے جوڑا جوڑا دیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ اے ام زرع! خود بھی کھا اور اپنے لوگوں کو بھی کھلا۔ پس اگر میں وہ چیزیں جمع کروں جو مجھے دوسرے شوہر نے دیں، تو وہ ابوزرع کے چھوٹے برتن کے برابر بھی نہ پہنچیں (یعنی دوسرے خاوند کا احسان پہلے خاوند کے احسان سے نہایت کم ہے)۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میں تیرے لئے ایسا ہوں جیسے ابوزرع ام زرع کے لئے تھا۔ (لیکن نہ تجھے طلاق دی ہے اور نہ دوں گا)۔
سیدنا عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کوفہ میں سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ (آسمان و زمین کے اندر) جتنی عورتیں ہیں سب میں مریم بنت عمران افضل ہیں اور (آسمان اور زمین کے اندر) جتنی عورتیں ہیں سب میں خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا افضل ہیں۔ ابوکریب نے کہا کہ وکیع نے آسمان و زمین کی طرف اشارہ کیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! یہ خدیجہ ایک برتن لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ رہی ہیں، اس میں سالن ہے یا کھانا ہے یا شربت ہے۔ پھر جب وہ آئیں تو آپ ان کو ان کے رب کی طرف سے سلام کہئے اور میری طرف سے بھی اور ان کو ایک گھر کی خوشخبری دیجئیے جو جنت میں خولدار موتی کا بنا ہوا ہے، جس میں کوئی شور ہے اور نہ کوئی تکلیف ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے کسی پر رشک نہیں کیا، البتہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پر کیا اور میں نے ان کو دیکھا نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بکری ذبح کرتے تو فرماتے کہ اس کا گوشت خدیجہ کی سہیلیوں کو بھیجو۔ ایک دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کیا اور کہا کہ خدیجہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے دل میں اس کی محبت ڈال دی گئی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیحہ رضی اللہ عنہا پر دوسرا نکاح نہیں کیا، یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئیں۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ خدیحہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت مانگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت مانگنا یاد آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور فرمایا کہ یا اللہ! ہالہ بنت خویلد۔ مجھے رشک آیا تو میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا قریش کی بوڑھیوں میں سے سرخ مسوڑھوں والی ایک بڑھیا کو یاد کرتے ہیں (یعنی انتہا کی بڑھیا جس کے ایک دانت بھی نہ رہا ہو نری سرخی ہی سرخی ہو، دانت کی سفیدی بالکل نہ ہو) جو مدت گزری فوت ہو چکی اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بہتر عورت دی (جوان باکرہ جیسے میں ہوں)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی ازواج سے) فرمایا کہ تم سب میں پہلے وہ مجھ سے ملے گی جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔ پس سب ازواج مطہرات نے اپنے اپنے ہاتھ ناپے تاکہ معلوم ہو کہ کس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم سب میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے ہاتھ زیادہ لمبے تھے، اس لئے کہ وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرتیں اور صدقہ دیتی تھیں۔
ابوعثمان، سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ اگر ہو سکے تو سب سے پہلے بازار میں مت جا اور نہ سب کے بعد وہاں سے نکل، کیونکہ بازار شیطان کا میدان جنگ ہے اور وہیں وہ اپنا جھنڈا گاڑتا ہے۔ انہوں نے کہا مجھے خبر دی گئی کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرنے لگے، پھر کھڑے ہوئے (یعنی چلے گئے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ یہ کون شخص تھے؟ انہوں نے کہا کہ دحیہ کلبی تھے۔ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم تو انہیں دحیہ کلبی ہی سمجھے، یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری خبر بیان کرتے تھے۔ میں (راوی حدیث) نے کہا کہ میں نے ابوعثمان سے پوچھا کہ یہ حدیث آپ نے کس سے سنی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی عورت کے گھر میں نہیں جاتے تھے سوا اپنے ازواج کے یا ام سلیم کے (جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی والدہ اور سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم کے پاس جایا کرتے تھے۔ لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس پر بہت رحم آتا ہے، اس کا بھائی میرے ساتھ مارا گیا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جنت میں گیا، وہاں میں نے (کسی کے چلنے کی) آہٹ پائی تو میں نے پوچھا کہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ غمیصا بنت ملحان (ام سلیم کا نام غمیصا یا رمیصا تھا) انس بن مالک کی والدہ ہیں۔