مصعب بن سعد اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے بارے میں قرآن کی کئی آیتیں اتریں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ ان سے کبھی بات نہ کرے گی جب تک وہ اپنا دین (یعنی اسلام کو) نہ چھوڑیں گے۔ اور نہ کھائے گی نہ پئے گی۔ وہ کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے ماں باپ کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور میں تیری ماں ہوں اور تجھے اس بات کا حکم کرتی ہوں۔ پھر تین دن تک یوں ہی رہی کچھ کھایا نہ پیا، یہاں تک کہ اس کو غش آ گیا۔ آخر اس کا ایک بیٹا جس کا نام عمارہ تھا، کھڑا ہوا اور اس کو پانی پلایا۔ پس وہ سیدنا سعد کے لئے بددعا کرنے لگی تو اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں یہ آیات اتاریں کہ ”اور ہم نے آدمی کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا“(العنکبوت: 8) لیکن اگر وہ تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کا شریک کرے جس کا تجھے علم نہیں، تو ان کی بات مت مان (یعنی شرک مت کر) اور ان کے ساتھ دنیا میں دستور کے موافق رہ“۔ (لقمان: 5)۔ اور ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سا مال غنیمت ہاتھ آیا اور اس میں ایک تلوار بھی تھی, وہ میں نے لے لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لا کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ تلوار مجھے انعام دے دیجئیے جبکہ میرا حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو وہیں رکھ دے جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔ میں گیا اور میں نے قصد کیا کہ پھر اس کو مال غنیمت کے ڈھیر میں ڈال دوں، لیکن میرے دل نے مجھے ملامت کی اور میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹا اور عرض کیا کہ یہ تلوار مجھے دے دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے فرمایا کہ اس کو اسی جگہ رکھ دے جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”وہ تجھ سے مال غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں“(انفال: 1)۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بیمار ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اپنا مال جس کو چاہوں بانٹ دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مانا۔ میں نے کہا کہ اچھا آدھا مال بانٹ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ مانے۔ میں نے کہا کہ اچھا تہائی مال بانٹ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے۔ پھر یہی حکم ہوا کہ تہائی مال بانٹنا درست ہے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک بار میں انصار اور مہاجرین کے کچھ لوگوں کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ آؤ ہم تمہیں کھانا کھلائیں گے اور شراب پلائیں گے اور اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔ میں ان کے ساتھ ایک باغ میں گیا، وہاں ایک اونٹ کے سر کا گوشت بھونا گیا تھا اور شراب کی ایک مشک رکھی تھی، میں نے ان کے ساتھ گوشت کھایا اور شراب پی۔ وہاں مہاجرین اور انصار کا ذکر آیا تو میں نے کہا کہ مہاجرین انصار سے بہتر ہیں۔ ایک شخص نے جبڑے کی ایک ہڈی لی اور مجھے مارا۔ میرے ناک میں زخم لگا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے یہ آیت اتاری کہ ”شراب، جوا، تھان اور پانسے یہ سب نجاست ہیں اور شیطان کے کام ہیں“(المائدہ: 90)
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم چھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ مشرکوں نے کہا کہ آپ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہانک دیجئیے، یہ ہم پر جرات نہ کریں گے۔ ان لوگوں میں میں تھا، ابن مسعود تھے اور ایک شخص ہذیل کا تھا اور بلال اور دو شخص اور تھے جن کا نام میں نہیں لیتا۔ آپ کے دل جو اللہ نے چاہا وہ آیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل ہی دل میں باتیں کیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”مت بھگا ان لوگوں کو جو اپنے رب کو صبح اور شام کو پکارتے ہیں اور اس کی رضامندی چاہتے ہیں“(الانعام: 52)۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نجران کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! ہمارے پاس ایک امانتدار شخص کو بھیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ضرور تمہارے پاس ایک امانتدار شخص کو بھیجتا ہوں بیشک وہ امانتدار ہے، بیشک وہ امانتدار ہے۔ راوی نے کہا کہ لوگ منتظر رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس کو بھیجتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح کو بھیجا۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس سفید خچر کو کھینچا، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سوار تھے، یہاں تک کہ ان کو حجرہ نبوی تک لے گیا۔ یہ ایک صاحبزادے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے اور یہ ایک پیچھے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دن کو ایک وقت میں نکلا، کہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے بات کرتے تھے اور نہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرتا تھا (یعنی خاموش چلے جاتے تھے) یہاں تک کہ بنی قینقاع کے بازار میں پہنچے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اور سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر پر آئے اور پوچھا کہ بچہ ہے؟ بچہ ہے؟ یعنی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا پوچھ رہے تھے۔ ہم سمجھے کہ ان کی ماں نے ان کو روک رکھا ہے نہلانے دھلانے اور خوشبو کا ہار پہنانے کے لئے، لیکن تھوڑی ہی دیر میں وہ دوڑتے ہوئے آئے اور دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ اور اس شخص سے محبت کر جو اس سے محبت کرے۔
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کو (نکاح کا) پیام دیا اور ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا نے یہ خبر سنی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹیوں کے لئے غصہ نہیں ہوتے اور یہ علی رضی اللہ عنہ ہیں جو ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں۔ سیدنا مسور رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادتین کی ادائیگی کی اور پھر فرمایا کہ میں نے اپنی لڑکی (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا) کا نکاح ابوالعاص بن ربیع سے کیا اس نے جو بات مجھ سے کہی وہ سچ کہی اور فاطمہ بنت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے گوشت کا ٹکڑا ہے اور مجھے برا لگتا ہے کہ لوگ اس کو آزمائش میں ڈالیں (یعنی جب علی دوسرا نکاح کریں گے تو شاید فاطمہ رشک کی وجہ سے کوئی بات اپنے خاوند کے خلاف کہہ بیٹھیں یا ان کی نافرمانی کریں اور گنہگار ہوں) اور اللہ کی قسم! اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی لڑکی دونوں ایک مرد کے پاس جمع نہ ہوں گی۔ یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پیام چھوڑ دیا۔ (یعنی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ ختم کر دیا)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں)، کوئی بیوی ایسی نہ تھیں جو پاس نہ ہو کہ اتنے میں سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بالکل اسی طرح چلتی تھیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں دیکھا تو مرحبا کہا اور فرمایا کہ مرحبا میری بیٹی۔ پھر ان کو اپنے دائیں طرف یا بائیں طرف بٹھایا اور ان کے کان میں آہستہ سے کچھ فرمایا تو وہ بہت روئیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ حال دیکھا تو دوبارہ ان کے کان میں کچھ فرمایا تو وہ ہنسیں۔ میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص تم سے راز کی باتیں کیں، پھر تم روتی ہو۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کرنے والی نہیں ہوں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں نے ان کو قسم دی اس حق کی جو میرا ان پر تھا اور کہا کہ مجھ سے بیان کرو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے فرمایا تھا، تو انہوں نے کہا کہ اب البتہ میں بیان کروں گی۔ پہلی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کان میں یہ فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام ہر سال ایک بار یا دو بار مجھ سے قرآن کا دور کرتے تھے اور اس سال انہوں نے دوبار دور کیا، اور میں خیال کرتا ہوں کہ میرا (دنیا سے جانے کا) وقت قریب آ گیا ہے، پس اللہ سے ڈرتی رہ اور صبر کر، میں تیرا بہت اچھا منتظر ہوں۔ یہ سن کر میں رونے لگی جیسے تم نے دیکھا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا رونا دیکھا تو دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی اور فرمایا کہ اے فاطمہ! تو اس بات سے راضی نہیں ہے کہ تو مومنوں کی عورتوں کی یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہو؟ یہ سن کر میں ہنسی جیسے کہ تم نے دیکھا تھا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے جس پر کجاووں کی صورتیں یا ہانڈیوں کی صورتیں بنی ہوئی تھیں۔ اتنے میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس چادر کے اندر کر لیا۔ پھر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی اس میں داخل کر لیا۔ پھر سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا آئیں تو ان کو بھی انہی کے ساتھ شامل کر لیا پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی شامل کر کے فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کرے اور تم کو پاک کرے اے گھر والو!“(الاحزاب: 33)۔ (اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ کے اہل بیت نہیں جیسا کہ شیعہ کا نظریہ ہے بلکہ اصل میں اہل بیت تو ازواج ہی ہیں جو کہ آیت کا سیاق بھی بتاتا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی، فاطمہ اور حسنین رضی اللہ عنہم کو بھی شامل کر لیا ہے)۔
یزید بن حیان کہتے ہیں کہ میں، حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ جب ہم ان کے پاس بیٹھے تو حصین نے کہا کہ اے زید! تم نے تو بڑی نیکی حاصل کی۔ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، تم نے بہت ثواب کمایا۔ ہم سے بھی کچھ حدیث بیان کرو جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! میری عمر بہت بڑی ہو گئی اور مدت گزری اور بعض باتیں جن کو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد رکھتا تھا بھول گیا ہوں، میں جو بات بیان کروں اس کو قبول کرو اور جو میں نہ بیان کروں اس کے لئے مجھے تکلیف نہ دو۔ پھر سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع مقام ”خم“ کے پانی کے مقام پر خطبہ سنانے کو کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد کی اور اس کی تعریف کو بیان کیا اور وعظ و نصیحت کی۔ پھر فرمایا کہ اس کے بعد اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) پیغام اجل لائے اور میں قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔ غرض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، تین بار فرمایا۔ اور حصین نے کہا کہ اے زید! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون سے ہیں، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر زکوٰۃ حرام ہے۔ حصین نے کہا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ علی، عقیل، جعفر اور عباس کی اولاد ہیں۔ حصین نے کہا کہ ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تجھے خواب میں تین راتوں تک دیکھا کہ ایک فرشتہ تجھے ایک سفید ریشم کے ٹکڑے میں لایا اور مجھے کہنے لگا کہ یہ آپ کی عورت ہے میں نے تمہارے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو وہ تو ہی نکلی۔ میں نے کہا کہ اگر یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ایسا ہی ہو گا (یعنی یہ عورت مجھے ملے گی اگر کوئی اور اس خواب کی تعبیر نہ ہو)