فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقعہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو (مدینہ میں) خلیفہ بنایا، تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے پاس ہارون علیہ السلام کا تھا، لیکن میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی لڑائی کے دن فرمایا کہ میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح دے گا اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ اور اللہ کے رسول اس کو چاہتے ہوں گے۔ پھر رات بھر لوگ ذکر کرتے رہے کہ دیکھیں یہ شان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس کو دیتے ہیں۔ جب صبح ہوئی تو سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہی امید لئے آئے کہ یہ جھنڈا مجھے ملے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان کی آنکھیں دکھتی ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا بھیجا اور ان کی آنکھوں میں تھوک لگایا اور ان کے لئے دعا کی تو وہ بالکل اچھے ہو گئے گویا ان کو کوئی تکلیف نہ تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جھنڈا دیا۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں ان سے لڑوں گا یہاں تک کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) ہو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آہستہ چلتا جا، یہاں تک کہ ان کے میدان میں اترے، پھر ان کو اسلام کی طرف بلا اور ان کو بتا جو اللہ کا حق ان پر واجب ہے۔ اللہ کی قسم اگر اللہ تعالیٰ تیری وجہ سے ایک شخص کو ہدایت کرے تو وہ تیرے لئے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے۔
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کی اولاد میں سے ایک شخص حاکم ہوا تو اس نے سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کو بلایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے کا حکم دیا۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے انکار کیا تو وہ شخص بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ کہ ابوتراب پر اللہ کی لعنت ہو۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ابوتراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے۔ وہ شخص بولا کہ اس کا قصہ بیان کرو کہ ان کا نام ابوتراب کیوں ہوا؟ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہ پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟ وہ بولیں کہ مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ غصہ ہو کر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ آیا اور بولا کہ یا رسول اللہ! علی مسجد میں سو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، وہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور (ان کے بدن سے) مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی پونچھنا شروع کی اور فرمانے لگے کہ اے ابوتراب! اٹھ۔ اے ابوتراب! اٹھ۔
ابوعثمان کہتے ہیں کہ ان دنوں میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کافروں سے) لڑتے تھے بعض دن کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ رہا سوائے سیدنا طلحہ اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہما کے۔
محمد بن منکدر سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے دن لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ حاضر اور مستعد ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا تو سیدنا زبیر ہی نے جواب دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا تو سیدنا زبیر ہی نے جواب دیا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر پیغمبر کا ایک خاص ساتھی ہوتا ہے اور میرا خاص ساتھی زبیر ہے۔
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور عمر بن ابی سلمہ خندق کے دن عورتوں کے ساتھ حسان بن ثابت کے قلعہ میں تھے تو کبھی وہ میرے لئے جھک جاتا اور میں دیکھتا اور کبھی میں اس کے لئے جھک جاتا اور وہ دیکھتا۔ میں نے اپنے باپ کو اس وقت پہچان لیا جب وہ گھوڑے پر ہتھیار باندھے ہوئے بنی قریظہ کی طرف نکلے۔ پھر میں نے اپنے والد سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا تم نے مجھے دیکھا تھا؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے اپنے ماں باپ کو جمع کر دیا اور فرمایا کہ تجھ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔
سیدنا عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم تمہارے دونوں باپ (یعنی زبیر اور ابوبکر) ان لوگوں میں سے تھے جن کا ذکر اس آیت میں ہے یعنی ”جن لوگوں نے زخمی ہونے کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی (سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عروہ کے نانا تھے اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ باپ تھے۔ لیکن نانا کو بھی باپ کہتے ہیں)۔ اور ایک روایت میں ہے ”یعنی ابوبکر اور زبیر رضی اللہ عنہما“۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حراء پہاڑ پر تھے۔ اس (پہاڑ) کا پتھر ہلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تھم جا اے حراء! تیرے اوپر نہیں ہے مگر نبی یا صدیق یا شہید اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابوبکر اور عمر اور علی اور عثمان اور طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم تھے۔ (نبی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے اور صدیق سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور باقی سب شہید ہوئے ظلم سے مارے گئے، یہاں تک کہ سیدنا طلحہ اور زبیر بھی)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات (کسی جنگ سے واپس آتے ہوئے) مدینہ کے راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی اور نیند اچاٹ ہو گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاش میرے اصحاب میں سے کوئی نیک بخت رات بھر میری حفاظت کرے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اتنے میں ہمیں ہتھیاروں کی آواز معلوم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون ہے؟ آواز آئی کہ یا رسول اللہ! سعد بن ابی وقاص ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کیوں آئے؟ وہ بولے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے نفس میں ڈر ہوا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنے کو آیا ہوں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی اور پھر سو رہے۔
سیدنا عامر بن سعد اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن اپنے والدین کو ان کے لئے جمع کیا۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مشرکوں میں سے ایک شخص تھا جس نے بہت سے مسلمانوں کو جلا دیا تھا (یعنی بہت سے مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے سعد تیر چلاؤ تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں“ میں نے اس کے لئے ایک تیر نکالا جس میں پیکان نہ تھا وہ اس کی پسلی میں لگا اور وہ (مشرک) گر گیا تو اس کی شرمگاہ کھل گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر ہنسے، یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک کو دیکھا۔