سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصار میری انتڑیاں اور میری گٹھڑیاں ہیں (کپڑا رکھنے کی یعنی میرے خاص معتمد اور اعتباری لوگ ہیں)۔ اور لوگ بڑھتے جائیں گے اور انصار گھٹتے جائیں گے، پس ان کی نیکی کو قبول کرو اور ان کی برائی سے درگزر کرو۔
سیدنا ابواسید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصار میں بہتر گھر بنی نجار کا ہے، پھر بنی عبداشہل کا پھر بنی حارث بن خزرج کا، پھر بنی ساعدہ کا اور انصار کے ہر گھر میں بہتری ہے۔ ابوسلمہ نے کہا کہ سیدنا ابواسید نے کہا کہ کیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت کرتا ہوں؟ اگر میں جھوٹا ہوتا تو پہلے اپنی قوم بنی ساعدہ کا نام لیتا۔ یہ خبر سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہیں رنج ہوا اور وہ کہنے لگے کہ ہم پیچھے چھوڑ دیئے گئے ہم چاروں کے آخر میں ہوئے، میرے گدھے پر زین کسو کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کے بھتیجے نے ان سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کی بات کا رد کرنے جاتے ہو حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں؟ کیا تمہیں یہ کافی نہیں ہے کہ چار میں سے چوتھے تم ہو؟ یہ سن کر سیدنا سعد لوٹے اور فرمایا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں اور گدھے سے زین کو کھول ڈالنے کا حکم دیا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کے ساتھ سفر میں نکلا اور وہ میری خدمت کرتے تھے۔ میں نے کہا کہ تم میری خدمت مت کرو (کیونکہ تم بڑے ہو) انہوں نے کہا کہ میں نے انصار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو کام کرتے دیکھا ہے تو قسم کھائی ہے کہ جب کسی انصار کے ساتھ ہوں گا تو اس کی خدمت کروں گا (یعنی انصار نے آپ کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اور دشمن سے حفاظت کی ہے وغیرہ) اور سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بڑے تھے۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میں اشعریوں کی آواز قرآن پڑھنے سے پہچان لیتا ہوں جب وہ رات کو آتے ہیں اور رات کو ان کی آواز سے ان کا ٹھکانہ بھی پہچان لیتا ہوں اگرچہ دن کو ان کا ٹھکانہ نہ دیکھا ہو جب وہ دن کو اترے ہوں۔ اور انہی لوگوں میں سے ایک شخص حکیم ہے کہ جب کافروں کے سواروں سے یا دشمنوں سے ملتا ہے تو ان سے کہتا ہے ہمارے لوگ تم سے کہتے ہیں کہ ذرا ہمیں فرصت دو یا تھوڑا انتظار کرو یعنی ہم بھی تیار ہیں لڑنے کو آتے ہیں (یعنی اپنے تئیں دانائی اور حکمت سے بچا لیتا ہے کیونکہ دشمن یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اکیلا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ اور لوگ بھی ہیں)۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اشعری قبیلہ کے لوگ جب لڑائی میں محتاج ہو جاتے ہیں یا مدینہ میں ان کے بیوی بچوں کا کھانا کم ہو جاتا ہے تو جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے اس کو ایک کپڑے میں اکٹھا کرتے ہیں، پھر آپس میں برابر بانٹ لیتے ہیں۔ یہ لوگ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں (یعنی میں ان سے راضی ہوں اور ایسے اتفاق کو پسند کرتا ہوں)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے (قبیلہ) اسلم کو سلامت رکھا اور (قبیلہ) غفار کو بخشا اور یہ میں نہیں کہتا بلکہ اللہ عزوجل فرماتا ہے۔
سیدنا خفاف بن ایماء غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز میں فرمایا کہ اے اللہ! بنی لحیان کو لعنت کر اور رعل کو، ذکوان اور عصیہ کو جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کی اور اللہ تعالیٰ نے (قبیلہ) غفار کو بخش دیا اور (قبیلہ) اسلم کو محفوظ کر دیا۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ حاجیوں کو لوٹنے والے (قبائل) اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ کے لوگوں نے بیعت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر (قبیلہ) اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ قبائل بنی تمیم، بنی عامر، اسد اور غطفان سے بہتر ہوں تو یہ لوگ (یعنی بنی تمیم وغیرہ) خسارے میں رہے اور نامراد ہوئے)؟ وہ بولا ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ ان سے بہتر ہے (یعنی قبیلہ اسلم اور غفار وغیرہ قبیلہ بنی تمیم وغیرہ سے بہتر ہیں)۔
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ سب سے پہلا صدقہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے چہروں کو چمکا دیا (یعنی ان کو خوش کر دیا، قبیلہ) طئی کا صدقہ تھا۔ (اور کہا کہ) وہ صدقہ تم (یعنی عدی بن حاتم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ طفیل رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی آئے اور کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسول! (قبیلہ) دوس نے کفر اختیار کیا ہے اور مسلمان ہونے سے انکار کیا تو دوس کے لئے بددعا کیجئے۔ کہا گیا کہ دوس کے لوگ تباہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! دوس کو ہدایت کر اور ان کو میرے پاس لے کر آ۔