سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مٹی کو ہفتہ کے دن پیدا کیا (یعنی زمین کو) اور اتوار کے دن اس میں پہاڑوں کو پیدا کیا اور پیر کے دن درختوں کو پیدا کیا اور کام کاج کی چیزیں (جیسے لوہا وغیرہ) منگل کو پیدا کیں اور بدھ کے دن نور کو پیدا کیا اور جمعرات کے دن زمین میں جانور پھیلائے اور سیدنا آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن عصر کے بعد بنایا، سب سے آخر مخلوقات میں اور جمعہ کی سب سے آخر ساعات میں عصر سے لے کر رات تک۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے خیرالبریہ! یعنی بہترین خلق۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام (کا مقام) ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بسولے سے ختنہ کیا اور اس وقت ان کی عمر اسی برس کی تھی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم ابراہیم علیہ السلام سے شک کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں، جب انہوں نے کہا کہ ”اے میرے رب! مجھے دکھلا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ سیدنا ابراہیم علیہ السلام بولے کہ کیوں نہیں؟ مجھے یقین ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تشفی ہو جائے“(علم الییقن سے عین الیقین کا مرتبہ حاصل ہو جائے (۔ (البقرہ: 260) اور اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحم کرے، وہ مضبوط اور سخت چیز کی پناہ چاہتے تھے اور (یعنی نبی تو اللہ سے مانگتا ہے جبکہ لوط علیہ السلام مضبوط رکن کی خواہش کر رہے تھے)۔ اور اگر میں قید خانے میں اتنی مدت رہتا جتنی مدت سیدنا یوسف علیہ السلام رہے، تو فوراً بلانے والے کے ساتھ چلا آتا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا مگر، تین دفعہ (بولا)(یہ اصطلاحاً جھوٹ کہے گئے ہیں، حقیقت میں جھوٹ نہیں ہیں بلکہ یہ توریہ کی ایک شکل ہیں) ان میں سے دو جھوٹ اللہ کے لئے تھے، ایک تو ان کا یہ قول کہ ”میں بیمار ہوں“ اور دوسرا یہ کہ ”ان بتوں کو بڑے بت نے توڑا ہو گا“ تیسرا جھوٹ سیدہ سارہ علیہا السلام کے بارے میں تھا۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ایک ظالم بادشاہ کے ملک میں پہنچے ان کے ساتھ ان کی بیوی سیدہ سارہ بھی تھیں اور وہ بڑی خوبصورت تھیں۔ انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس ظالم بادشاہ کو اگر معلوم ہو گا کہ تو میری بیوی ہے تو مجھ سے چھین لے گا، اس لئے اگر وہ پوچھے تو یہ کہنا کہ میں اس شخص کی بہن ہوں اور تو اسلام کے رشتہ سے میری بہن ہے۔ (یہ بھی کچھ جھوٹ نہ تھا) اس لئے کہ ساری دنیا میں آج میرے اور تیرے سوا کوئی مسلمان معلوم نہیں ہوتا جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام اس کی قلم رو (اس کے علاقہ) سے گزر رہے تھے تو اس ظالم بادشاہ کے کارندے اس کے پاس گئے اور بیان کیا کہ تیرے ملک میں ایک ایسی عورت آئی ہے جو تیرے سوا کسی کے لائق نہیں ہے۔ اس نے سیدہ سارہ کو بلا بھیجا۔ وہ گئیں تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نماز کے لئے کھڑے ہو گئے (اللہ سے دعا کرنے لگے اس کے شر سے بچنے کے لئے) جب سیدہ سارہ اس ظالم کے پاس پہنچیں تو اس نے بے اختیار اپنا ہاتھ ان کی طرف دراز کیا، لیکن فوراً اس کا ہاتھ سوکھ گیا وہ بولا کہ تو اللہ سے دعا کر کہ میرا ہاتھ کھل جائے، میں تجھے نہیں ستاؤں گا۔ انہوں نے دعا کی اس مردود نے پھر ہاتھ دراز کیا، پھر پہلے سے بڑھ کر سوکھ گیا۔ اس نے دعا کے لئے کہا تو انہوں نے دعا کی۔ پھر اس مردود نے دست درازی کی، پھر پہلی دونوں دفعہ سے بڑھ کر سوکھ گیا۔ تب وہ بولا کہ اللہ سے دعا کر کہ میرا ہاتھ کھل جائے، اللہ کی قسم اب میں تجھ کو نہ ستاؤں گا۔ سیدہ سارہ نے پھر دعا کی، اس کا ہاتھ کھل گیا۔ تب اس نے اس شخص کو بلایا جو سیدہ سارہ کو لے کر آیا تھا اور اس سے بولا کہ تو میرے پاس شیطاننی کو لے کر آیا، یہ انسان نہیں ہے اس کو میرے ملک سے باہر نکال دے اور ایک لونڈی ہاجرہ اس کے حوالے کر دے سیدہ سارہ ہاجرہ کو لے کر لوٹ آئیں جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا تو نمازوں سے فارغ ہوئے اور کہا کیا ہوا؟ سارہ نے کہا بس کہ سب خیریت رہی، اللہ تعالیٰ نے اس بدکار کا ہاتھ مجھ سے روک دیا اور ایک لونڈی بھی دی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر یہی لونڈی یعنی ہاجرہ تمہاری ماں ہے اے بارش کے بچو!
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام بڑے حیادار مرد تھے، ان کو کبھی کسی نے ننگا نہیں دیکھا تھا۔ آخر بنی اسرائیل کہنے لگے کہ ان کو فتق (خصیئے پھول جانے) کی بیماری ہے۔ ایک بار انہوں نے کسی پانی کے مقام پر غسل کیا اور اپنا کپڑا پتھر پر رکھا، تو وہ بھاگتا ہوا چلا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنا عصا لئے اس کے پیچھے چلے، اس کو مارتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ یہاں تک کہ وہ پتھر جہاں بنی اسرائیل کے لوگ جمع تھے وہاں جا رکا۔ اور اسی کے متعلق یہ آیت اتری کہ ”اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو ستایا (ان پر تہمت لگائی) پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات سے پاک کیا جو لوگوں نے کہی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت والے تھے“۔
سیدنا سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام جو بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے، وہ اور ہیں اور جو موسیٰ خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ اور ہیں انہوں نے کہا کہ اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے۔ میں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل پر خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے، ان سے پوچھا گیا کہ سب لوگوں میں زیادہ علم کس کو ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہے (یہ بات اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوئی) پس اللہ تعالیٰ نے ان پر اس وجہ سے ناراضگی کا اظہار کیا کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی بھیجی کہ دو دریاؤں کے ملاپ پر میرا ایک بندہ ہے، وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے پروردگار! میں اس سے کیسے ملوں؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل (ٹوکرے) میں رکھ، جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے، وہیں وہ بندہ ملے گا۔ یہ سن کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھی یوشع بن نون علیہ السلام کو ساتھ لے کر چلے اور انہوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی۔ دونوں چلتے چلتے صخرہ (ایک مقام ہے) کے پاس پہنچے تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی سو گئے۔ مچھلی تڑپی یہاں تک کہ زنبیل سے نکل کر دریا میں جا پڑی اور اللہ تعالیٰ نے پانی کا بہنا اس پر سے روک دیا، یہاں تک کہ پانی کھڑا ہو کر طاق کی طرح ہو گیا اور مچھلی کے لئے خشک راستہ بن گیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لئے تعجب ہوا پھر دونوں چلے دن بھر اور رات بھر اور موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی مچھلی کا حال ان سے کہنا بھول گئے جب صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ، ہم تو اس سفر سے تھک گئے ہیں اور تھکاوٹ اسی وقت ہوئی جب اس جگہ سے آگے بڑھے جہاں جانے کا حکم ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم (مقام) صخرہ پر اترے تو میں مچھلی بھول گیا اور شیطان نے مجھے بھلایا اور تعجب ہے کہ اس مچھلی نے دریا میں جانے کی راہ لی۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ہم تو اسی مقام کو ڈھونڈھتے تھے، پھر دونوں اپنے پاؤں کے نشانوں پر لوٹے یہاں تک کہ صخرہ پر پہنچے۔ وہاں ایک شخص کو کپڑا اوڑھے ہوئے دیکھا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے کہا کہ تمہارے ملک میں سلام کہاں سے ہے؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں موسیٰ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ سیدنا موسیٰ نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے وہ علم دیا ہے جو میں نہیں جانتا۔ اور مجھے وہ علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں اس لئے کہ مجھے وہ علم سکھلاؤ جو تمہیں دیا گیا ہے۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے اور تم سے اس بات پر کیسے صبر ہو سکے گا جس کو تم نہیں جانتے ہو۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ اچھا اگر میرے ساتھ ہوتے ہو تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر نہ کروں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ بہت اچھا۔ پس خضر علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام دونوں سمندر کے کنارے چلے جاتے تھے کہ ایک کشتی سامنے سے نکلی، دونوں نے کشتی والوں سے کہا کہ ہمیں بٹھا لو، انہوں نے سیدنا خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور دونوں کو بغیر کرایہ چڑھا لیا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ ڈالا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں بغیر کرایہ کے چڑھایا اور تم نے ان کی کشتی کو توڑ ڈالا تاکہ کشتی والوں کو ڈبو دو، یہ تم نے بڑا بھاری کام کیا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ کیا میں نہیں کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ بھول چوک پر مت پکڑو اور مجھ پر تنگی مت کرو۔ پھر دونوں کشتی سے باہر نکلے اور سمندر کے کنارے چلے جاتے تھے کہ ایک لڑکا ملا جو اور لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑ کر اکھیڑ لیا اور مار ڈالا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم نے ایک بےگناہ کو ناحق مار ڈالا، یہ تو بہت برا کام کیا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ کیا میں نہ کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے؟ اور یہ کام پہلے کام سے بھی زیادہ سخت تھا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اب میں تم سے کسی بات پر اعتراض کروں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا بیشک تمہارا اعتراض بجا ہو گا۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں میں پہنچے، گاؤں والوں سے کھانا مانگا تو انہوں نے انکار کیا، پھر ایک دیوار ملی جو گرنے کے قریب تھی اور جھک گئی تھی، سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کو اپنے ہاتھ سے سیدھا کر دیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان گاؤں والوں سے ہم نے کھانا مانگا اور انہوں نے انکار کیا اور کھانا نہ کھلایا (ایسے لوگوں کا کام مفت کرنا کیا ضروری تھا؟) اگر تم چاہتے تو اس کی مزدوری لے سکتے تھے۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ بس، اب میرے اور تمہارے درمیان جدائی ہے، اب میں تم سے ان باتوں کا مطلب کہے دیتا ہوں جن پر تم سے صبر نہ ہو سکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے، مجھے آرزو ہے کہ کاش وہ صبر کرتے اور ہمیں ان کی اور باتیں معلوم ہوتیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی بات سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بھولے سے کی۔ پھر ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھی اور اس نے سمندر میں چونچ ڈالی، سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ میں نے اور تم نے اللہ تعالیٰ کے علم میں سے اتنا ہی علم سیکھا ہے جتنا اس چڑیا نے سمندر میں سے پانی کم کیا ہے۔ سیدنا سعید بن جبیر نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس طرح پڑھتے تھے کہ ”ان کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ثابت کشتی کو ناحق جبر سے چھین لیتا تھا“ اور پڑھتے تھے کہ ”وہ لڑکا کافر تھا“۔ (آخری دونوں جملوں سے مراد یہ ہے کہ قرآن پاک کی آیات تو اس طرح نہیں ہیں لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما گویا بطور تفسیر اس طرح پڑھتے تھے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی کچھ مال بیچ رہا تھا، اس کو قیمت دی گئی تو وہ راضی نہ ہوا یا اس نے برا جانا تو بولا کہ نہیں قسم اس کی جس نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو آدمیوں میں سے چنا۔ یہ لفظ ایک انصاری نے سنا تو اس کے منہ پر طمانچہ مارا اور کہا کہ تو کہتا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو آدمیوں میں سے چنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں میں موجود ہیں؟ وہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں ذمی ہوں اور امان میں ہوں اور مجھے فلاں شخص نے طمانچہ مارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھا کہ تو نے اس شخص کو کیوں طمانچہ مارا؟ وہ بولا کہ یا رسول اللہ! اس نے کہا کہ قسم اس کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام آدمیوں میں چن لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں میں تشریف رکھتے ہیں (اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رتبہ زیادہ ہے اس لئے میں نے اس کو مارا)۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہوئے، یہاں تک کہ غصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر معلوم ہونے لگا، پھر فرمایا کہ ایک پیغمبر کو دوسرے پیغمبر پر فضیلت مت دو (اس طرح سے کہ دوسرے پیغمبر کی شان گھٹے) کیونکہ قیامت کے دن جب صور پھونکا جائے گا تو آسمانوں اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب بیہوش ہو جائیں گے مگر جن کو اللہ تعالیٰ چاہے گا (وہ بیہوش نہ ہوں گے) پھر دوسری بار پھونکا جائے گا تو سب سے پہلے میں اٹھوں گا اور کیا دیکھوں گا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام عرش تھامے ہوئے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ طور پہاڑ پر جو ان کو بیہوشی ہوئی تھی وہ اس کا بدلہ ہے (کہ وہ اس بار بیہوش نہ ہوں گے) یا مجھ سے پہلے ہوشیار ہو جائیں گے اور میں یوں نہیں کہتا کہ کوئی پیغمبر سیدنا یونس بن متی علیہ السلام سے افضل ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موت کے فرشتے (عزرائیل علیہ السلام) سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور عرض کیا کہ اے موسیٰ! اپنے پروردگار کی پکار پر لبیک کہو (یعنی موت کا وقت ہے) تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان کی آنکھ پر ایک طمانچہ مارا، جس سے ان کی آنکھ پھوٹ گئی۔ وہ لوٹ کر اللہ تعالیٰ کے پاس گئے اور عرض کیا کہ اے مالک! تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا کہ وہ مرنا نہیں چاہتا، اس نے میری آنکھ پھوڑ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھ پھر درست کر دی اور فرمایا کہ پھر میرے بندے کے پاس جا اور کہہ کہ اگر تو جینا چاہتا ہے تو اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھ، اور جتنے بالوں کو تیرا ہاتھ ڈھانپ لے گا، اتنے برس تو اور زندہ رہے گا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے پروردگار! اس کے بعد کیا ہو گا؟ فرمایا کہ اس کے بعد پھر مرنا ہو گا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ پھر تو ابھی مرنا بہتر ہے۔ اے میرے مالک مجھے مقدس زمین سے ایک پتھر کی مار کے فاصلہ پر موت دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم اگر میں وہاں ہوتا تو میں تمہیں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قبر بتا دیتا جو کہ راستہ کے ایک جانب سرخ ریت کے ٹیلے کے پاس ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معراج کی رات میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو ان کو سرخ ٹیلے کے پاس دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں وہ کھڑے ہوئے پڑھ رہے تھے۔