سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تیرہ برس تک رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترا کرتی تھی اور مدینہ میں دس برس تک رہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پندرہ برس تک (فرشتوں کی) آواز سنتے تھے اور (فرشتوں کی یا اللہ کی آیات کی) روشنی دیکھتے تھے سات برس تک، لیکن کوئی صورت نہیں دیکھتے تھے پھر آٹھ برس تک وحی آیا کرتی تھی اور دس برس تک مدینہ میں رہے (یہ روایت شاذ ہے)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تریسٹھ برس کی عمر میں وفات ہوئی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بھی تریسٹھ برس میں وفات ہوئی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بھی تریسٹھ برس کی عمر میں وفات ہوئی۔
عمار مولیٰ بنی ہاشم کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتنے برس کے تھے؟ انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم سے ہو کر اتنی بات نہ جانتے ہو گے۔ میں نے کہا کہ میں نے لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے اس میں اختلاف کیا، پس مجھے اس بارے میں آپ کا قول سننا بہتر معلوم ہوا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تم حساب جانتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں تو انہوں نے کہا کہ چالیس برس کو یاد رکھو کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر ہوئے۔ اب پندرہ اور جوڑو کہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں رہے کبھی امن کے ساتھ اور کبھی ڈر کے ساتھ۔ اب دس اور جوڑو جو مدینہ میں ہجرت کے بعد گزرے (تو سب ملا کر پینسٹھ برس ہوتے ہیں)۔ اور اس سے پہلے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث گزر چکی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساٹھ برس کی عمر میں وفات پائی۔ (دیکھئیے حدیث: 1556)۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ عزوجل جب کسی امت پر رحم کرتا ہے تو اس کا نبی امت کی ہلاکت سے پہلے فوت ہو جاتا ہے اور وہ اپنی امت کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ اور جب کسی امت کی تباہی چاہتا ہے تو اس کو نبی کے سامنے ہلاک کرتا ہے اور ان کی ہلاکت سے نبی کی آنکھ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے کیونکہ وہ (امت) اس کو جھٹلانے والی اور اس کے احکام کی نافرمانی کرنے والی ہوتی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے ایک آدمی نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ (جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (مقام) حرہ کے موہرے میں جھگڑا کیا (حرہ کہتے ہیں کالے پتھر والی زمین کو) جس سے کھجور کے درختوں کو پانی دیتے تھے۔ انصاری نے کہا کہ پانی کو چھوڑ دے کہ بہتا رہے۔ سیدنا زبیر نے انکار کیا۔ آخر سب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھگڑا کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زبیر سے فرمایا کہ اے زبیر! تو (اپنے درختوں کو) پانی پلا لے پھر پانی کو اپنے ہمسائے کی طرف چھوڑ دے۔ یہ سن کر انصاری غصہ ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! زبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی کے بیٹے تھے (اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رعایت کی)۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے زبیر! اپنے درختوں کو پانی پلا پھر پانی کو روک لے، یہاں تک کہ وہ منڈیروں تک چڑھ جائے۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اسی بارے میں اتری کہ ”اللہ کی قسم وہ مومن نہ ہوں گے جب تک تجھ کو اپنے جھگڑوں میں حاکم نہ بنائیں گے پھر جو تو فیصلہ کر دے اس سے رنج نہ کریں اور مان لیں“((پوری آیت فلاور بک لا یومنون حتیٰ یحکموک۔۔۔))۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی کوئی بات سنی (جو بری تھی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ میرے سامنے جنت اور دوزخ لائی گئی اور میں نے آج کی سی بہتری اور آج کی سی برائی کبھی نہیں دیکھی (یعنی جنت میں نعمتیں اور دوزخ میں عذاب)۔ اگر تم وہ کچھ جانتے جو میں جانتا ہوں تو البتہ تم لوگ کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم پر اس دن سے زیادہ کوئی سخت دن نہیں گزرا۔ انہوں نے اپنے سروں کو چھپا لیا اور رونے کی آواز ان سے نکلنے لگی۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نبی ہونے پر راضی ہو گئے۔ ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا کہ میرا باپ کون تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا باپ فلاں شخص تھا (اس کا نام بتا دیا) تب یہ آیت نازل ہوئی کہ ”اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر وہ ظاہر ہوں تو تم کو بری لگیں“۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں سے سب سے بڑا قصور اس مسلمان کا ہے جس نے وہ بات پوچھی جو مسلمانوں پر حرام نہ تھی، لیکن اس کے پوچھنے کی وجہ سے حرام ہو گئی۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ میں۔ جب وہ پیٹھ موڑ کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلوایا اور فرمایا کہ میرا باپ اور تیرا باپ دونوں جہنم میں ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں تمہیں جس چیز سے روک دوں، اس سے رک جاؤ اور جس کے کرنے کا حکم دوں، اسے اپنی استطاعت کے مطابق بجا لاؤ۔ پس سوائے اس کے نہیں کہ تم سے پہلی اقوام کو ان کے کثرت سوال اور انبیاء پر اختلاف کرنے نے ہلاک کر دیا۔