ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کیسے آتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبھی تو ایسی آتی ہے جیسے گھنٹی کی جھنکار، اور وہ مجھ پر نہایت سخت ہوتی ہے۔ پھر جب پوری ہو جاتی ہے تو میں یاد کر چکا ہوتا ہوں اور کبھی ایک فرشتہ مرد کی صورت میں آتا ہے اور جو وہ کہتا ہے میں اس کو یاد کر لیتا ہوں۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف لائے اور آرام فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آیا، میری ماں ایک شیشی لائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ پونچھ پونچھ کر اس میں ڈالنے لگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ام سلیم یہ کیا کر رہی ہو؟ وہ بولی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ ہے جس کو ہم اپنی خوشبو میں شامل کرتے ہیں اور وہ سب سے بڑھ کر خود خوشبو ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم کے گھر میں جاتے اور ان کے بچھونے پر سو رہتے، اور وہ گھر میں نہیں ہوتیں تھیں ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے بچھونے پر سو رہے۔ لوگوں نے انہیں بلا کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے گھر میں تمہارے بچھونے پر سو رہے ہیں، یہ سن کر وہ آئیں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آیا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ چمڑے کے بچھونے پر جمع ہو گیا ہے۔ ام سلیم نے اپنا ڈبہ کھولا اور یہ پسینہ پونچھ پونچھ کر شیشوں میں بھرنے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ اے ام سلیم! کیا کرتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم اپنے بچوں کے لئے برکت کی امید رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھتے تو مدینے کے خادم اپنے برتنوں میں پانی لے کر آتے، پھر جو بھی برتن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ اس میں ڈبو دیتے۔ اور کبھی سردی کے دن میں بھی اتفاق ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ ڈبو دیتے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور حجام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر بنا رہا تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد تھے، وہ چاہتے تھے کہ کوئی بال زمین پر نہ گرے بلکہ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت کی عقل میں تھوڑا پاگل پن تھا، اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کام ہے (یعنی کچھ کہنا ہے جو لوگوں کے سامنے نہیں کہہ سکتی)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ام فلاں! (یعنی اس کا نام لیا) تو جہاں چاہے گی میں تیرا کام کر دوں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں اس سے تنہائی کی، یہاں تک کہ وہ اپنی بات سے فارغ ہو گئی۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی کو بچوں پر اتنی شفقت کرتے نہیں دیکھا، جتنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے سیدنا ابراہیم (مدینہ کے عوالی میں) دودھ پیتے تھے (عوالی مدینہ کے پاس کچھ گاؤں تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم جایا کرتے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے، پھر اس کے گھر تشریف لے جاتے، وہاں دھواں ہوتا تھا کیونکہ ”انّا“ کا خاوند لوہار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچے کو لیتے، پیار کرتے اور پھر لوٹ آتے۔ عمرو نے کہا کہ جب سیدنا ابراہیم نے وفات پائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم میرا بیٹا ہے، اس نے دودھ پیتے میں وفات پائی اب اس کو دو انّائیں (دائیاں) ملی ہیں جو جنت میں اس کے دودھ پینے کی مدت تک دودھ پلائیں گی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا تو وہ بولا کہ یا رسول اللہ! میرے دس بچے ہیں میں نے ان میں سے کسی کو بوسہ نہیں دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو (بچوں اور یتیموں اور عاجزوں اور ضعیفوں پر) رحم نہ کرے اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم نہ کرے گا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے اور ایک حبشی غلام جس کا نام انجشہ تھا حدی گاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے انجشہ! آہستہ آہستہ چل اور اونٹوں کو شیشے لدے ہوئے اونٹوں کی طرح ہانک۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ والوں کو (کسی دشمن کے آنے کا) خوف ہوا تو جدھر سے آواز آ رہی تھی لوگ ادھر چلے، تو راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوٹتے ہوئے پایا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے پہلے اکیلے خبر لینے کو تشریف لے گئے ہوئے تھے) اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آواز کی طرف تشریف لے گئے تھے اور سیدنا ابوطلحہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں تلوار تھی اور فرماتے تھے کہ کچھ ڈر نہیں، کچھ ڈر نہیں۔ یہ گھوڑا تو دریا ہے اور پہلے وہ گھوڑا سست تھا (یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ وہ تیز ہو گیا)۔