سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ جل جلالہ نے سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو چنا اور قریش کو کنانہ میں سے اور بنی ہاشم کو قریش میں سے اور مجھے بنی ہاشم میں سے چنا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں قیامت کے دن آدم کی اولاد کا سردار ہوں گا۔ اور سب سے پہلے میری قبر پھٹے گی اور میں سب سے پہلے شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول ہو گی۔
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی مثال جو اللہ نے مجھے ہدایت اور علم دیا، ایسی ہے جیسے زمین پر بارش برسی اور اس (زمین) میں کچھ حصہ ایسا تھا جس نے پانی کو چوس لیا اور چارا اور بہت سا سبزہ اگایا۔ اور اس کا کچھ حصہ کڑا سخت تھا، اس نے پانی کو جمع رکھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس (پانی) سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا کہ انہوں نے اس میں سے پیا، پلایا اور چرایا۔ اور اس کا کچھ حصہ چٹیل میدان ہے کہ نہ تو پانی کو روکے اور نہ گھاس اگائے۔ (جیسے چکنی چٹان کہ پانی لگا اور چل دیا) تو یہ اس کی مثال ہے کہ جس نے اللہ کے دین کو سمجھا اور اللہ نے اس کو اس چیز سے فائدہ دیا جو مجھے عطا فرمائی، اس نے آپ بھی جانا اور دوسروں کو بھی سکھایا اور جس نے اس طرف سر نہ اٹھایا (یعنی توجہ نہ کی) اور اللہ کی ہدایت کو جس کو میں دے کر بھیجا گیا قبول نہ کیا۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری مثال اور میرے دین کی مثال جو کہ اللہ نے مجھے دے کر بھیجا ہے، ایسی ہے جیسے اس شخص کی مثال جو اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے میری قوم! میں نے لشکر کو اپنی دونوں آنکھوں سے دیکھا ہے (یعنی دشمن کی فوج کو) اور میں صاف صاف ڈرانے والا ہوں، پس جلدی بھاگو۔ اب اس کی قوم میں سے بعض نے اس کا کہنا مانا اور وہ شام ہوتے ہی بھاگ گئے اور آرام سے چلے گئے اور بعض نے جھٹلایا اور وہ صبح تک اس ٹھکانے میں رہے اور صبح ہوتے ہی لشکر ان پر ٹوٹ پڑا اور ان کو تباہ کیا اور جڑ سے اکھیڑ دیا۔ پس یہی اس شخص کی مثال ہے جس نے میری اطاعت کی اور جو کچھ میں لے کر آیا ہوں اس کی اتباع کی اور جس نے میرا کہنا نہ مانا اور سچے دین کو جھٹلایا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اور دوسرے پیغمبروں کی مثال جو کہ میرے سے پہلے ہو چکے ہیں، ایسی ہے جیسے کسی شخص نے گھر بنایا اور اس کی زیبائش اور آرائش کی، لیکن اس کے کونوں میں سے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی پس لوگ اس کے گرد پھرنے لگے اور انہیں وہ عمارت پسند آئی اور وہ کہنے لگے کہ یہ تو نے ایک اینٹ یہاں کیوں نہ رکھ دی گئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم الانبیاء ہوں۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو مکہ میں ہے، وہ مجھے نبوت سے پہلے سلام کیا کرتا تھا۔ میں اس کو اب بھی پہچانتا ہوں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب (مقام) زوراء میں تھے { اور زوراء مدینہ میں مسجد اور بازار کے نزدیک ایک مقام ہے } آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اپنی ہتھیلی اس میں رکھ دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پانی پھوٹنے لگا اور تمام اصحاب رضی اللہ عنہم نے وضو کر لیا۔ قتادہ نے کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے ابوحمزہ! اس وقت آپ کتنے آدمی ہوں گے؟ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تین سو کے قریب تھے۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس سال نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سفر میں دو نمازوں کو جمع کرتے تھے۔ پس ظہر اور عصر دونوں ملا کر پڑھیں اور مغرب اور عشاء ملا کر پڑھیں۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں دیر کی۔ پھر نکلے اور ظہر اور عصر ملا کر پڑھیں پھر اندر چلے گئے۔ پھر اس کے بعد نکلے تو مغرب اور عشاء ملا کر پڑھیں اس کے بعد فرمایا کہ کل تم لوگ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تبوک کے چشمے پر پہنچو گے اور دن نکلنے سے پہلے نہیں پہنچ سکو گے اور جو کوئی تم میں سے اس چشمے کے پاس جائے، تو اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگائے جب تک میں نہ آؤں۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم اس چشمے پر پہنچے اور ہم سے پہلے وہاں دو آدمی پہنچ گئے تھے۔ چشمہ کے پانی کا یہ حال تھا کہ جوتی کے تسمہ کے برابر ہو گا، وہ بھی آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں آدمیوں سے پوچھا کہ تم نے اس کے پانی میں ہاتھ لگایا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو برا کہا (اس لئے کہ انہوں نے حکم کے خلاف کیا تھا) اور اللہ تعالیٰ کو جو منظور تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سنایا۔ پھر لوگوں نے چلوؤں سے تھوڑا تھوڑا پانی ایک برتن میں جمع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اور منہ اس میں دھویا، پھر وہ پانی اس چشمہ میں ڈال دیا تو وہ چشمہ جوش مار کر بہنے لگا اور لوگوں نے (اپنے جانوروں اور آدمیوں کو) پانی پلانا شروع کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے معاذ! اگر تیری زندگی رہی تو تو دیکھے گا کہ اس (چشمے) کا پانی باغوں کو بھر دے گا (یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا معجزہ تھا اس لشکر میں تیس ہزار آدمی تھے اور ایک روایت میں ہے کہ ستر ہزار آدمی تھے)۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کھانا طلب کر رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو آدھا وسق جو دئیے (ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے)۔ پھر وہ شخص، اس کی بیوی اور مہمان ہمیشہ اس میں کھاتے رہے، یہاں تک کہ اس شخص نے اس کو ماپا۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو اس کو نہ ماپتا تو ہمیشہ اس میں سے کھاتے اور وہ ایسا ہی رہتا (کیونکہ ان سے اللہ تعالیٰ کا بھروسہ جاتا رہا اور بےصبری ظاہر ہوئی پھر برکت کہاں رہے گی)
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب (مدینہ کے گرد) خندق کھودی گئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوکا پایا۔ میں اپنی بیوی کے پاس لوٹا اور کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بھوکا پایا ہے۔ اس نے ایک تھیلا نکالا جس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارے پاس بکری کا پلا ہوا بچہ تھا، میں نے اس کو ذبح کیا اور میری عورت نے آٹا پیسا۔ وہ بھی میرے ساتھ ہی فارغ ہوئی میں نے اس کا گوشت کاٹ کر ہانڈی میں ڈالا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پلٹنے لگا تو عورت بولی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے سامنے رسوا نہ کرنا (کیونکہ کھانا تھوڑا ہے کہیں بہت سے آدمیوں کی دعوت نہ کر دینا)۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور چپکے سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جو کا آٹا جو ہمارے پاس تھا، تیار کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر تشریف لائیے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا اور فرمایا کہ اے خندق والو! جابر نے تمہاری دعوت کی ہے تو چلو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی ہانڈی کو مت اتارنا اور آٹے کی روٹی مت پکانا، جب تک میں نہ آ جاؤں۔ پھر میں گھر میں آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے آگے تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے۔ میں اپنی عورت کے پاس آیا، وہ بولی کہ تو ہی پریشان ہو گا اور لوگ تجھے ہی برا کہیں گے۔ میں نے کہا کہ میں نے تو وہی کیا جو تو نے کہا تھا (لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کر دیا اور سب کو دعوت سنا دی) میں نے وہ آٹا نکالا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لب مبارک اس میں ڈالا اور برکت کی دعا کی، پھر ہماری ہانڈی کی طرف چلے اور اس میں بھی تھوکا اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد (میری عورت سے) فرمایا کہ ایک روٹی پکانے والی اور بلا لے جو تیرے ساتھ مل کر پکائے اور ہانڈی میں سے ڈوئی نکال کر نکالتی جا، اس کو اتارنا مت۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہزار آدمی تھے، پس میں قسم کھاتا ہوں کہ سب نے کھایا، یہاں تک کہ چھوڑ دیا اور لوٹ گئے اور ہانڈی کا وہی حال تھا، ابل رہی تھی اور آٹا بھی ویسا ہی تھا، اس کی روٹیاں بن رہی تھیں۔