ابوسلمہ بن عبدالرحمن سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور صفر اور ہامہ کی کوئی اصل نہیں تو ایک دیہاتی بولا کہ یا رسول اللہ! اونٹوں کا کیا حال ہے؟ ریت میں ایسے صاف ہوتے ہیں جیسے کہ ہرن اور پھر ایک خارشی اونٹ ان میں جاتا ہے اور سب کو خارشی کر دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر پہلے اونٹ کو کس نے خارشی کیا تھا؟۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عدوی، طیرہ، صفر اور ہامہ کوئی چیز نہیں ہیں۔ (عدوی سے مراد کسی بیماری کا متعدی (اچھوت) ہونا، طیرۃ کا مطلب کسی چیز سے بدفالی پکڑنا، صفر سے مراد صفر کے مہینہ کو منحوس سمجھنا، جیسے آج بھی کچھ لوگ سمجھتے ہیں اور ھامہ سے مراد الّو ہے کہ جسے عرب منحوس سمجھتے تھے)۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ سیدنا ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی (اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی بیماری کسی سے خودبخود نہیں لگتی۔ دوسرے کسی کو بھی لگتی ہے تو اللہ کے حکم سے لگتی ہے۔ اسی لئے بیمار اونٹ کو تندرست اونٹ کے پاس نہ لانے کا حکم دیا ہے)۔ اور ابوسلمہ یہ حدیث بھی بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیمار اونٹ تندرست اونٹوں کے پاس نہ لایا جائے۔ ابوسلمہ نے کہا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان دونوں حدیثوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے، پھر اس کے بعد انہوں نے یہ حدیث کہ ”بیماری نہیں لگتی“ بیان کرنا چھوڑ دی اور یہ بیان کرتے رہے کہ بیمار اونٹ تندرست اونٹ پر نہ لایا جائے۔ حارث بن ابی ذباب نے جو کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے ان سے کہا کہ اے ابوہریرہ! تم اس حدیث کے ساتھ ایک دوسری بھی حدیث بیان کیا کرتے تھے، اب تم اس کو بیان نہیں کرتے، وہ حدیث یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے انکار کیا اور کہا کہ میں اس حدیث کو نہیں پہچانتا، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ بیمار اونٹ تندرست اونٹ کے پاس نہ لایا جائے۔ حارث نے ان سے اس بات میں اس حد تک جھگڑا کیا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ غصے ہوئے اور انہوں نے حبش کی زبان میں کچھ کہا۔ پھر حارث سے پوچھا کہ تم سمجھتے ہو کہ میں نے کیا کہا؟ حارث نے کہا کہ نہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے یہی کہا کہ میں اس حدیث کے بیان کرنے کا انکار کرتا ہوں۔ ابوسلمہ نے کہا کہ میری عمر کی قسم! سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہم سے اس حدیث کو بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی پھر معلوم نہیں کہ ابوہریرہ اس حدیث کو بھول گئے یا ایک حدیث سے دوسری حدیث کو انہوں نے منسوخ سمجھا۔ (صحیح بخاری میں نسخ کا ذکر نہیں ہے بلکہ صرف یہ ہے کہ ہم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کے سوا کوئی حدیث بھولتے نہیں دیکھا)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ تو ایک کی بیماری دوسرے کو لگتی ہے، نہ ہامہ ہے، نہ نوء کی کوئی حقیقت ہے اور نہ صفر کی۔ (نوء ستارے کے طلوع و غروب کو کہتے ہیں جیسے عربوں کا بھی خیال تھا اور آج کل کے نجومیوں کا بھی کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی وغیرہ)۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک کی بیماری دوسرے کو لگتی ہے، نہ نحوست کوئی چیز ہے اور نہ غول کوئی چیز ہے۔ (غول سے مراد عوام کا یہ خیال ہے کہ جنگل میں شیاطین ہوتے ہیں جو رات کو چراغ کی طرح چمکتے ہیں کبھی لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں اور کبھی قتل کر دیتے ہیں)۔
سیدنا شرید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ثقیف کے لوگوں میں ایک جذامی شخص تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہلا بھیجا کہ ہم نے تجھ سے بیعت لے لی تم لوٹ جاؤ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بدفالی کوئی چیز نہیں (یعنی کسی کو منحوس سمجھنا) اور بہتر فال ہے۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! فال کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ نیک بات جو تم میں سے کوئی سنے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی نحوست یقینی ہو سکتی ہے تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہو سکتی ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر (نحوست) کسی چیز میں ہے تو وہ گھر، خادم اور گھوڑا ہے۔