سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میں پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نگاہ پھیر لینے کا حکم دیا۔
سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اتنے میں تین آدمی آئے، دو تو سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ایک چلا گیا۔ وہ دو جو آئے ان میں سے ایک نے مجلس میں جگہ خالی پائی تو وہ وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا لوگوں کے پیچھے بیٹھا اور تیسرا تو پیٹھ پھیر کر چل دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا کیا میں تم سے تین آدمیوں کا حال نہ کہوں؟ ایک نے تو اللہ کے پاس ٹھکانہ لیا تو اللہ نے اس کو جگہ دی اور دوسرے نے (لوگوں میں گھسنے کی) شرم کی تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی اور تیسرے نے منہ پھیرا تو اللہ نے بھی اس سے منہ پھیر لیا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ پھر خود اس کی جگہ پر بیٹھ جائے لیکن پھیل جاؤ اور جگہ دو۔ ایک روایت میں ہے کہ میں نے کہا کہ یہ جمعہ کے دن کا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جمعہ ہو یا کوئی اور دن۔ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے لئے کوئی آدمی اٹھتا تو وہ اس جگہ نہ بیٹھتے (اگرچہ اس کی رضامندی سے بیٹھنا جائز ہے مگر یہ احتیاط تھی کہ شاید وہ دل میں ناراض ہو)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مجلس میں سے (اپنی کسی حاجت کے لئے) کھڑا ہو (اور ابوعوانہ کی حدیث میں ہے کہ جو کھڑا ہو) لوٹ کر آئے تو وہ اس جگہ کا زیادہ حقدار ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم تین آدمی ہو تو تم میں سے دو تیسرے شخص کو الگ کر کے آہستہ سے بات نہ کریں، یہاں تک کہ تم سے اور لوگ بھی ملیں۔ اس لئے کہ اس (تیسرے شخص کو) رنج ہو گا۔ (ممکن ہے کہ وہ ان دونوں سے بدگمان ہو جائے)
سیار کہتے ہیں کہ میں ثابت بنانی کے ساتھ چل رہا تھا، وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا اور حدیث بیان کی کہ وہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا رہے تھے، بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے، بچوں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سلام کیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود اور نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل مت کرو اور جب تم کسی یہودی یا نصرانی سے راہ میں ملو تو اس کو تنگ راہ کی طرف دبا دو۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہودی کے چند لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، تو کہا کہ السام علیکم یا اباالقاسم! (یعنی اے ابوالقاسم تم پر موت ہو)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وعلیکم۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا غصے ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے سنا اور اس کا جواب بھی دیا اور ہم ان پر جو دعا کرتے ہیں وہ قبول ہوتی ہے اور ان کی دعا قبول نہیں ہوتی (ایسا ہی ہوا کہ الٹی موت یہود پر پڑی وہ مرے اور مارے گئے)
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رات کو حاجت کے لئے ان مقامات کی طرف (قضاء حاجت کے لئے) جاتیں، جو مدینہ کے باہر تھے اور وہ صاف اور کھلی جگہ میں تھے۔ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ اپنی عورتوں کو پردہ میں رکھئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ کا حکم نہ دیتے۔ ایک دفعہ ام المؤمنین سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا رات کو عشاء کے وقت نکلیں اور وہ دراز قد عورت تھیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو آواز دی اور کہا کہ اے سودہ بنت زمعہ! ہم نے تمہیں پہچان لیا۔ اور یہ اس واسطے کیا کہ پردہ کا حکم اترے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا پھر اللہ تعالیٰ نے پردے کا حکم نازل فرما دیا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ہمیں پردے کا حکم ہوا، اس کے بعد سودہ رضی اللہ عنہا حاجت کو نکلیں اور وہ ایک موٹی عورت تھیں، جو سب عورتوں سے موٹاپے میں نکلی رہتیں اور جو کوئی ان کو پہچانتا تھا، اس سے چھپ نہ سکتیں تھیں (یعنی وہ پہچان لیتا) تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھا اور کہا کہ اے سودہ! اللہ کی قسم تم اپنے آپ کو ہم سے چھپا نہیں سکتیں، اس لئے سمجھو کہ تم کیسے نکلتی ہو؟ یہ سن کر وہ لوٹ کر آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں رات کا کھانا کھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک ہڈی تھی اتنے میں سودہ آئیں اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں نکلی تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایسے ایسے کہا۔ اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی حالت ہوئی، پھر وہ حالت جاتی رہی اور ہڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ ہی میں تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو رکھا نہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں حاجت کے لئے نکلنے کی اجازت ملی ہے۔