سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے مقام بقیع میں دوسرے شخص کو پکارا کہ اے ابوالقاسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادھر دیکھا تو وہ شخص بولا کہ یا رسول اللہ! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں فلاں شخص کو پکارا تھا (اس کی کنیت بھی ابوالقاسم ہو گی)، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے نام سے نام رکھ لو مگر میری کنیت کی طرح کنیت مت رکھو۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اس نے اس کا نام محمد رکھا۔ اس کی قوم نے اس سے کہا کہ ہم تجھے یہ نام نہیں رکھنے دیں گے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ شخص اپنے بچے کو اپنی پیٹھ پر اٹھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول میرا لڑکا پیدا ہوا، میں نے اس کا نام محمد رکھا تو میری قوم کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم تجھے نہیں چھوڑیں گے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام رکھتا ہے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا نام رکھو لیکن میری کنیت (یعنی ابوالقاسم) نہ رکھو کیونکہ میں قاسم ہوں میں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں (دین کا علم اور مال غنیمت وغیرہ)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے ناموں میں سے بہتر نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص کے لڑکا پیدا ہوا تو اس نے اس کا نام قاسم رکھا، ہم لوگوں نے کہا کہ ہم تجھے ابوالقاسم کنیت نہ دیں گے اور تیری آنکھ ٹھنڈی نہ کریں گے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور یہ بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبدالرحمن اپنے بیٹے کا نام رکھ لے۔
عروہ بن زبیر اور فاطمہ بنت منذر بن زبیر سے روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا (مکہ سے) ہجرت کی نیت سے جس وقت نکلیں، ان کے پیٹ میں عبداللہ بن زبیر تھے (یعنی حاملہ تھیں) جب وہ قباء میں آ کر اتریں تو وہاں سیدنا عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے۔ پھر ولادت کے بعد انہیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو گھٹی لگائیں، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے لے لیا اور اپنی گود میں بٹھایا، پھر ایک کھجور منگوائی۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم ایک گھڑی تک کھجور ڈھونڈتے رہے، آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کو چبایا، پھر (اس کا جوس) ان کے منہ میں ڈال دیا۔ یہی پہلی چیز جو عبداللہ کے پیٹ میں پہنچی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھوک تھا۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لئے دعا کی اور ان کا نام عبداللہ رکھا۔ پھر جب وہ سات یا آٹھ برس کے ہوئے تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے اشارے پر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کے لئے آئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آتے دیکھا تو تبسم فرمایا۔ پھر ان سے (برکت کے لئے) بیعت کی (کیونکہ وہ کمسن تھے)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک لڑکا بیمار تھا، وہ باہر گئے ہوئے تھے کہ وہ لڑکا فوت ہو گیا۔ جب وہ لوٹ کر آئے تو انہوں نے پوچھا کہ میرا بچہ کیسا ہے؟ (ان کی بیوی) ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اب پہلے کی نسبت اس کو آرام ہے (یہ موت کی طرف اشارہ ہے اور کچھ جھوٹ بھی نہیں)۔ پھر ام سلیم شام کا کھانا ان کے پاس لائیں تو انہوں نے کھایا۔ اس کے بعد ام سلیم سے صحبت کی۔ جب فارغ ہوئے تو ام سلیم نے کہا کہ جاؤ بچہ کو دفن کر دو۔ پھر صبح کو ابوطلحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب حال بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے رات کو اپنی بیوی سے صحبت کی تھی؟ ابوطلحہ نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ ان دونوں کو برکت دے۔ پھر ام سلیم کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو ابوطلحہ نے مجھ سے کہا کہ اس بچہ کو اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جا اور ام سلیم نے بچے کے ساتھ تھوڑی کھجوریں بھی بھیجیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو لے لیا اور پوچھا کہ اس کے ساتھ کچھ ہے؟ لوگوں نے کہا کہ کھجوریں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کو لے کر چبایا، پھر اپنے منہ سے نکال کر بچے کے منہ میں ڈال کر اسے گٹھی دی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب میں نجران میں آیا، تو وہاں کے (انصاری) لوگوں نے مجھ پر اعتراض کیا کہ تم پڑھتے ہو کہ ”اے ہارون کی بہن“(مریم: 28)(یعنی مریم علیہا السلام کو ہارون کی بہن کہا ہے) حالانکہ (سیدنا ہارون موسیٰ علیہ السلام کے بھائی تھے اور) موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام سے اتنی مدت پہلے تھے (پھر مریم ہارون علیہ السلام کی بہن کیونکر ہو سکتی ہیں؟)، جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (یہ وہ ہارون تھوڑی ہیں جو موسیٰ کے بھائی تھے) بنی اسرائیل کی عادت تھی (جیسے اب سب کی عادت ہے) کہ وہ پیغمبروں اور اگلے نیکوں کے نام پر نام رکھتے تھے۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا ایک لڑکا پیدا ہوا، میں اس کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور اس کے منہ میں ایک کھجور چبا کر ڈالی۔
سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ابواسید رضی اللہ عنہ کا بیٹا منذر، جب پیدا ہوا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنی ران پر رکھا اور (اس کے والد) ابواسید۔ بیٹھے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز میں اپنے سامنے متوجہ ہوئے تو ابواسید نے حکم دیا تو وہ بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ران پر سے اٹھا لیا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آیا تو فرمایا کہ بچہ کہاں ہے؟ سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم نے اس کو اٹھا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا نام کیا ہے؟ ابواسید نے کہا کہ فلاں نام ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، اس کا نام منذر ہے۔ پھر اس دن سے انہوں نے اس کا نام منذر ہی رکھ دیا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیٹی کا نام عاصیہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام جمیلہ رکھ دیا۔