سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں ہاتھ سے کھانے، ایک جوتا پہن کر چلنے، ایک ہی کپڑا سارے بدن پر لپیٹنے سے یا گوٹ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ ایک کپڑے میں اپنی شرمگاہ کھولے ہوئے (جس کو احتباء کہتے ہیں، یہ ایک کپڑے میں ستر کے کھلنے کی صورت میں منع ہے اور کئی کپڑے ہوں یا ستر کھلنے کا ڈر نہ ہو تو مکروہ ہے)۔
عباد بن تمیم اپنے چچا رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں چت لیٹے ہوئے دیکھا کہ ایک پاؤں دوسرے پر رکھے ہوئے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرا اور میری چادر لٹک رہی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عبداللہ! اپنی چادر اونچی کر۔ میں نے اٹھا لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور اونچی کر۔ میں نے اور اونچی کی۔ پھر میں (اپنی تہبند کو) اٹھا کر ہی رکھتا تھا، یہاں تک کہ لوگوں نے پوچھا کہ کہاں تک اٹھانی چاہئے؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نصف پنڈلی تک۔
محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے ایک شخص کو اپنا تہبند لٹکائے ہوئے دیکھا اور وہ اپنے پاؤں سے زمین پر مارنے لگا اور وہ بحرین پر امیر تھا اور کہتا تھا کہ امیر آیا امیر آیا (یہ دیکھ کر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو نہیں دیکھے گا جو اپنی ازار غرور سے لٹکائے گا۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں سے نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف (رحمت کی نگاہ سے) دیکھے گا، نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا اور ان کو دکھ کا عذاب ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہی فرمایا تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ برباد ہو گئے وہ لوگ اور نقصان میں پڑے، یا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک تو اپنی ازار (تہبند، پاجامہ، پتلون، شلوار وغیرہ) کو (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانے والا، دوسرا احسان کر کے احسان کو جتلانے والا اور تیسرا جھوٹی قسم کھا کر اپنے مال کو بیچنے والا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جو اپنا کپڑا غرور سے زمین پر کھینچے (گھسیٹے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص اپنے بالوں اور چادر (تہبند) پر اتراتے ہوئے جا رہا تھا، آخر کار وہ زمین میں دھنسا دیا گیا۔ پھر وہ قیامت تک اسی میں اترتا رہے گا (شاید وہ شخص اسی امت میں ہو اور صحیح یہ ہے کہ اگلی امت میں تھا)۔
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صبح کو چپ چاپ اٹھے (جیسے کوئی رنجیدہ ہوتا ہے)۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آج میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ایسا دیکھا کہ آج تک ویسا نہیں دیکھا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے اس رات ملنے کا وعدہ کیا تھا مگر نہیں ملے اور اللہ کی قسم انہوں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اس کتے کے بچے کا خیال آیا جو ہمارے ڈیرے میں تھا، تو اسے نکالنے کا حکم دیا پس وہ نکال دیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی لیا اور جہاں وہ کتا بیٹھا تھا، وہاں وہ پانی چھڑک دیا۔ جب شام ہوئی تو جبرائیل علیہ السلام آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے مجھ سے گزشتہ رات ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہاں، لیکن ہم اس گھر میں نہیں جاتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔ پھر اس کی صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے قتل کا حکم دیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹے باغ کا کتا بھی قتل کروا دیا اور بڑے باغ کے کتے کو چھوڑ دیا۔